Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

شادی سے پہلے زندگی

شادی سے پہلے

شادی سے پہلے زندگی

اچھی سائٹ کے ذریعےسب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمیں شادی سے پہلے زندگی کس طرح گزارنی چاہئے ؟ ہر نوجوان مرد کو چاہئے کھ وھ شادی سے پہلے سادہ زندگی بسر کرے تاکھ اس کی ازواجی زندگی کامیاب ھو جس طرح دنیا میں ھر کام کرنے کےقاعدے ہوتے ھیں اگر ان کے مطابق کام کیا جائے تو کام اچھی طرح ھو جاتا ہے اور اگر کام قاعدے سے نہ کیا جائے تو اس طرح کام بگڑ جاتا ہے. اسی طرح سادہ زندگی بسر کرنے کے بھی اصول متعین ھیں جو ھر غیر شادی شدہ نوجوان کو اپنانے چاہئیں وہ اصول مندرجہ ذیل ہیں
ہر نوجوان کو چاہئیے کہ وہ صبح سویرے اٹھے اورحوائج ضروریھ سے فارغ ھو کر سیر کے لیے نکل چائے صبح سویرے دیر تک سونا انسان کے جنسی ضبط کو کمزور کرتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرتی نیند تو پوری ھو چکی ھوتی ہے مگر کاہلی کی وجہ سے انسان غنودگی کی حالت میں پڑا اونگھتا رھتا ہےاس وقت تک خوراک ہضم ھو جانے کے معد معدے سے انتڑیوں میں پہنچ چکی ہوتی ہے اور اس فضلہ اوررطوبت گردے، مثانے اور پیشاب، پاخانہ کی جگہ میں جمع ھو کر دماغ کو گندے خیالات چڑھاتی ہیں جس کی وجہ سے شہوانی خیالات انسان کو پریشان کرنا شروع کر دیتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کو احتلام اکثر صبح کے وقت ہوتا ہے. اس لیے انسان جتنی صبح بسترسے اٹھے گا انتا ہی اچھا ھوگا اس کے علاوہ اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہئے کہ بستر ہلکا اور سخت ھونا چاہئیے. اس کا فائدہ یہ ھو گا کہ سردی کی وجہ سے نیند آسانی سے نہ آ سکے گی اور جسم گرمی سردی برداشت کرنے کا عادی ھو جائے گا. اس سے طبعیت عیش وعشرت کی طرف مائل نہ ھو گی. پرانے زمانے میں لوگ بہادر اور دلیر اسی وجھ سے ھوتے تھے کہ انہیں لاڈ پیار سے پال کر کاھل اور سست نہیں بنایا جاتا تھا بلکہ شروع ہی سے سختی جھیلنے کا عادی بنایا جاتا تھا.. اس لیے آج کل کے آرام طلب والدینکو چاہئیے کہ وہ اپنی اولاد پر رحم کریں اور اسے شروع ہی سے سختیاں برداشت کرنے کی عادت ڈال کر دلیر اور دلاور بنائیں تاکہ مصیبت پڑنے پر وہ خودکشی کر کے اپنے والدین کا نام بدنام نہ کرے بلکہ ہمت اور حوصلہ سے حالات کا مقابلہ کرےاور کامیاب زندگی گزارے

سادہ اور جلد ہضم ھو جانے والی خوراک کحانی چاہئیے جس میں مرچ مصالحے اور کھٹائی کم ھو مرچ اور کھٹئی استعمال کرنے سے جسم میں گرمی بڑھتی ہے اور گرمی بڑھنے سے مادہ منویہ کمزور اور پتلا ھو جاتا ہے اور اس سے شھوانی جزبات بھی بھڑک اٹھتے ہیں. جو خوراک بڑی دیر میں ہضم ھوتی ہے ایسے لوگوں کو زیادہ مرغن غذا بھی نہیں کھانی چاہئیے کیونکھ یہ سب شہوانی جذبات بھڑکاتی ہیں

ایسے نوجوانوں کا لباس موسم کے مطابق لیکن نہایت سادہ ھونا چاہئیے ضرورت سے زیادہ نرم گرم یا ٹیپ ٹاپ نہ ھو کیونکہ اس سے انسان غیر ضروری طور پر آرام پسند، نازک مزاج، فضول خرچ اور نمودونمائش کا دلدادہ ھو جاتا ہے
ایسی کتابیں بالکل نہ پڑھی چائیں ایسے راگ بالکل نہ گائے جائیں یا سنے جائیں ایسے تماشے یا فلمیں نہ دیکحی جائیں جن میں مردوں اور عورتوں کے عشق و محبت کے تذکرے یا نظارے شہوت انگیز انداز مین پیش کیے گئے ھوں کیونکہ ان باتوں سے نوجوان مردوں اور عورتوں کی طبیعتوں پر برا اثر پڑتا ہے مردوں کو عورتوں کی صحبت میں اور عورتوں کو مردوں کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے سے پرھیز کرنا چاھئیے. خاص کر تنھائی میں مرد کے پاس بیٹھنا درست نہیں ہے . غیر مردوں اور عورتوں کا ایک جگا تنھائی میں بیٹھنے کا نتیجہ ننانوے فیصد خراب ہی نکلتا ہے

ایسے مردوں کو چاہئیے کہ وہ صبح کے وقت باقاعدگی سے کھلی ھوا میں ورزش کریں. اس سے دوران خون تیز ھوتا ہے اور کھانا اچھی طرح ہضم ھو جاتا ہے اور جسم بھی مضبوط ھوتا ہے . صحت ٹھیک رہنے اور مضبوط بننے سے جو ہر زندگی بآسانی جسم اور دماغ میں جذب ھوتا ہے اور انسان کی دماغی اور قوتیں بڑھتی ہیں

کھانا کھانے کے بعد اور صبح سو کر اٹھنے کے بعد دانت ضرور صاف کرنے چاھیئں

روزانہ تازہ پانی سے غسل کرنا چاہیئے. ٹھنڈی ھوا اور ٹھندے پانی کی عادت جتنی زیادہ ھو گی صحت اتنی اچھی ھو گی. یہی وجہ ہے کہ پہاڑوں پر بسنے والے مردوں اور عورتوں کی صحت میدانوں میں رہنے والے مردوں اور عورتوں سے زیادہ اچھی ھوتی ہے. سردی گرمی سے خوف کھانا اور برداشت کی طاقت کھو دینا بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف ھے

نماز پنجگانہ باقاعدگی سے ادا کرنی چاہیئں خدا کی یاد میں مشغول رہنا چاہیے اپنے دل کی گہرائیوں میں اس پاک ذات کے ہر جگہ حاضر ھونے کاخیال بٹھانا چاہیئے. یہاں تک کہ ہر زرے میں اس کی بے عیب اور پاک ذات کا جلوہ نظر آنے لگے. اس سے فائدہ یہ ہے کھ دل روز بروز مضبوط ھوتا چلا جائے گا اور دنیا کی ہر چیز سے خوف جاتا رہے گا. اس کے علاوہ اس کی رضا میں راضی رہنا سیکھ جائو گے اور خدا پر توکل کرنے لگو گے. اس سے تم مصیبت میں اپنے آپ کو مظبوط پاؤ گے اور یہ سمجھو گے کہ خدا میرے ساتھہ ہے. شروع شروع میں یہ کام مشکل معلوم ھو گا لیکن اگر خدا کی یاد کو اپنا ایک ضروری فرض سمجھ کر پورا کرنے لگو گے اور خود کو ایک بے بس بچے کی طرح اس کی مرضی کا پابند کروگے اور اپنی ہر ضرورت اور خواہش کو خدا کے سامنے بیان کر کے اس سے اسی طرح امداد چاہا کرو جس طرح بھوک لگنے پر ایک بچہ اپنی ماں سے روٹی مانگتا ہے تو تم کو ہر طرف خدا کا ہاتھہ کام کرتا نظر آنے لگے گا اور خدا سے تمہارا رشتہ روز بروز مضبوط ھوتا چلا جائے گا. اس کی بندگی اور عبادت میں لذت ملنے لگے گی

ہفتے عشرے میں یا کم از کم مہینے میں ایک بار فاقہ ضرور کرنا چاہیئے یہ چیزیں نہ صرف انسان کی عقل کو خراب کر دیتی ہیں بلکہ اسے حیوانات سے بھی گیا گزرا بنا دیتی ھیں. اس کی جسمانی اور روحانی طاقت کو تباہ کر ڈالتی ھیں

ایسے دوستوں کی صحبت سے بچنا چاہیئے جو سادہ زندگی کا مذاق اڑاتے ہیں یا اس کو نا ممکن سمجھتے ہوں. انسان کا شیطان انسان ہی ھوتا ہے اس قسم کے دوست احباب تمہارے مقصد کی راہ میں رکاوٹ ثابت ھوں گے کیونکھ ان کی سب سے بڑی خواہش یہی ھو گی کہ تم ان ہی جیسے بنو اور ان سے علیحدہ ھو کر ان سے بہتر نہ بن سکو. اس قسم کے لوگوں سے بحث کرنا بے کار ھوتا ہے کیونکہ ان پر کوئی دلیل اثر نہیں کرتی الٹا وقت ہی ضائع ھوتا ہے

اگراللّھ سے یہ دعا مانگی جائے کہ وہ تم سے بری عادتیں اور برے ساتھی چھڑا دے اور نیک عادتیں اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے تو وہ بھی ضرور تمہاری مدد کرے گا

اس کام میں عورتیں بھی مردوں کو بہت مدد دے سکتی ھیں. انہیں چاہیئے کہ اپنے بیٹوں بھائیوں اور خاوندوں کی خوراک پوشاک خیالات اور عادات کی نہایت اختیاط اور غور سے نگرانی کریں. عورت گھر کی رانی ھوتی ھے اور وہ ان سب انتظام عورت ہی کے ہاتھوں میں ھوتا ہے وہ مردوں کو جو چاہیں کھلا سکتی ھیں

شادی کے بعد بھی مردوں کو چاہیئے کہ وہ یہ اصول اپنائے رھیں اس سے ان کی طاقت اور صحت بحال رہے گی اور ان کی ازواجی زندگی نہایت خوشگوارگزرے گی. بیویوں کو بھی خاص طور پر خاوندوں کے اس راستے پر چلنے میں ان کی مدد کرنی چاہیئے کیونکہ اس طرح وہ خاوندوں کی کمزوریوں کو طاقت میں تبدیل کر سکتی ھیں پھر اس سے نہ صرف ان کی صحت اچھی رہے گی بلکہ ان کے خاوند کی تندرستی بھی روز بروز بڑھتی رہے گی

ان اصولوں پر کار بند ھونے سے جسم کے رگ پٹھے مضبوط رہتے ہیں بدن میں چستی آتی ہے. خوب دل لگا کر کام کرنے کی امنگ پیدا ھوتی ھے. خوراک ہضم ھو کر جزوبدن بنتی ہے اور جسم روزبروز طاقت ور ھوتا چاتا ہے آنکھیں ناک اور کان کی طاقتیں تیز ھوتی ہیں. جسم بڑھاپے میں بھی تندرست رہتا ہے. کوئی بیماری پاس نہیں پھٹکتی اور انسان آخری گھڑی تک تندرست اور توانا رہ کر زندگی کا پورا پورا لطف اتھاتا ہے. دماغی طاقت روز بروز بڑھتی ہے. انسان اپنی زندگی کے تجربات سے پورا پورا فائدہ اتھاتا ہے. ملک و قوم کی خدمت کر کے عزت اورر شہرت حاصل کرتا ہے. اسطرح مرنے کے بعد بھی اس شخص کو یاد رکھا جاتا ہے

سو فیصد مکمل جنسی علاج کیلیے رابطہ کریں حکیم محمد عرفان

al_shifa.herbal@yahoo.com 0313 9977999

جنسی مسائل اور الجھی ازدواجی زندگی

 

جنسی مسائل اور الجھی ازدواجی زندگی

(صرف مردوں کے لیے)

زندگی کی ساری راحتیں اور مسرتیں صحت وتندرستی کے ساتھ ہیں، صحت نہیں تو نہ کھانے پینے کا کوئی مزہ نہ سیر و تفر یح کا کوئی لطف، نہ عزیزوں اور دوستوں کی انجمن آرائی سے کوئی خوشی اور نہ بیوی بچوں کے درمیان کوئی راحت، زندگی اپنی ساری آسائشوں کے باوجود دردِمجسم بن کررہ جاتی ہے، کون ہے جو جانتے بوجھتے زندگی بھر کے اس عذاب کو مول لینے کے لیے تیارہو۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں صحیح معنوں میں صحت مند وتندرست لوگوں کاتناسب بہت حقیر ہے، ہر طرف زردچہرے پچکے گال اور نحیف ولاغر جسم، زندہ لاشوں کی صورت میں چلتے پھرتے نظرآتے ہیں، سکون ومسرت کی دولت سے محرومی نے ہر ایک کوزندگی سے بیزار کررکھاہے، خصوصیت کے ساتھ عورتوں میں تو سومیں ایک بھی ایسی نہیں ملتی جو یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہے
یہ ایک عظیم قومی مسئلہ ہے لیکن ہمارے یہاں شاید سب سے کم توجہ اگر کسی چیز کی طرف دی گئی ہے تو وہ یہی مسئلہ ہے اور اس کا نتیجہ نہایت خطرناک شکل میں اب ہمارے سامنے آرہاہے۔ گھریلو زندگی کا امن وسکون غارت ہوگیا ہے، آمدنی کا ایک کثیر حصہ ڈاکٹروں حکیموں کی نذر ہوجاتاہے، گھروں میں عورتوں کی بیماری سے گھر کاشیرازہ درہم برہم ہوتاہے، بچوں کی دیکھ بھال اورتربیت کی طرف توجہ نہیں دی جاسکتی اور اولاد ماں کے پیٹ سے ہی طرح طرح کے امراض ساتھ لے کر پیدا ہوتی ہے، مردوں کی بیماری گھر کواقتصادی تباہی میں مبتلا کرتی ہے، بچوں کا مستقبل تاریک ہوجاتاہے اور بحیثیت مجموعی قومی تعمیر وترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، اس مسئلہ کا مفصل اور ہر جہتی جائزہ لینا تو اُن لوگوں کا کام ہے، جوانسانی جسم کی مشینری کی تمام جزئیات پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے بعض پہلو ایسے بھی ہیں جن پر روزمرہ کے مشاہدات وتجربات کی روشنی میں ہم جیسے عامی بھی کچھ نہ کچھ رائے قائم کرتے اور اظہار خیال کرسکتے ہیں میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے روگ محض اس لیے جانوں کو چٹ کر جاتے ہیں کہ لوگ اپنی خوراک اوراپنی جنسی زندگی کے بارے میں بعض نہایت بنیادی معلومات وحقائق سے ناآشنا اور بے بہرہ رہتے ہیں اور لاعلمی وجہالت کے سبب ایسی اعتدالیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کہ اُن کی جسمانی مشینری کے سارے کل پُرزے ڈھیلے ہوجاتے ہیں، اور وہ اپنی عمر سے بہت بوڑھے ہوکر ناکارہ ہوجاتے ہیں، عورتیں گھریلو مُسرت سے حقیقتاً کبھی آشناہی نہیں ہوپاتیں کیونکہ ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی وہ طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہوتی ہیں جن کی والدین کوخبر بھی نہیں ہونے پاتی اور شادی کے بعد پتہ چلتاہے کہ جس کو صحت مند تصورکیاجاتاتھا اس کی جان کو کیسے کیسے مہلک اورپرانے روگ لگے ہوئے تھے۔لیکن یہ صورت حالات ہمیشہ سے یوں ہی نہیں ہے بلکہ اب سے صرف پچاس ساٹھ سال پہلے حالات بالکل مختلف تھے اس وقت نہ لوگوں کی صحت کا ایسا تباہ حال تھا اور نہ ہر ایک اپنی جان سے بیزار نظر آتاتھا، اس وقت خاندانی نظام کی گرفت مضبوط اوربزرگوں کی رہنمائی اور ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھانے کی ساری سہولتیں موجود تھیں۔ خاندانی روایات کا پاس واحترام اور حفظ مراتب کالحاظ کیاجاتاتھا، گھر کے بڑے بوڑھے اپنی عمر بھر کے تجربات بلکہ پشت ہاپشت سے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی نصیحتوں اورہدایات کی روشنی میں گھر کے نظام کو چلاتے تھے اور یہ نظام زندگی کے سارے معاملات پر اس طرح محیط اور حاوی ہوتاتھا کہ گھر کے افراد کے صبح سے شام تک کے ساتھ معمولات ایک قاعدے اور ضابطے کے پابند ہوجاتے تھے۔ اس ضابطہ بندی میں جسمانی ذہنی اور اخلاقی صحت کے سارے بنیادی اصول اور اس سلسلے کی ضروری احتیاطیں اس طرح سمودی جاتی تھیں کہ کسی خارجی امداد کی احتیاج ہی باقی نہ رہتی تھی انقلابات زمانہ کے طفیل آج نہ تو خاندانی نظام کی شیرازہ بندی باقی رہی اور نہ وہ بزرگ ہی رہے جو زندگی کی پر پیچ راہوں میں انتہائی شفقت ورحمت کے ساتھ ہماری رہنمائی اور ہمارے معمولات زندگی کی ضابطہ بندی کرتے تھے، نئی پود کو سرے سے گھر کی درس گاہ ہی نصیب نہیں ہوتی، مرد سارادن معاش کے کولھو میں بیلوں کی طرح جتے رہتے ہیں اور رات کو جب تھکے ماندے گھر آتے ہیں تو انہیں اپنی سُدھ بُدھ نہیں رہتی، عورتیں الگ بیماری اوربچوں کی ریں ریں میں گھر سے بیزار اور موت کی طلبگار رہتی ہیں، ایسے میں کسی کو بچوں کی طرف نہ توجہ کا موقع نصیب ہوتاہے نہ ذہن اس لائق رہتے ہیں، والدین کی اپنی زندگی کسی ضابطہ کی پابند نہیں رہتی تو بچوں کی زندگی میں باقاعدگی کیوں کر پیدا ہو جو جی چاہتا ہے اور جب جی چاہتاہے، کھاتے اور مناسب نگرانی ورہنمائی نہ ہونے کے سبب اُن کی نہ صرف جسمانی صحت تباہ برباد ہوتی ہے بلکہ ذہنی وجنسی صحت بھی بے اعتدالی کی نذر ہوجاتی ہے، اور موقع پرست نیم حکیم اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر ایسے لوگوں کوخوب خوب بیوقوف بناتے اوران کی رہی سہی صحت کو بھی تباہ کرڈالتے ہیں
یہ ہے وہ صورت حال جو یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ہمارے ارباب فکروفن اس طرف توجہ دیں اور اس خلاءکوپُر کریں جوخاندانی نظام میں انتشار اور بڑے بوڑھوں کے تجربہ ورہنمائی سے محرومی کی وجہ سے پیدا ہو رہاہے
اس سلسلے میں ہماری سب سے بڑی کمزوری جنسی مسائل ومعاملات ہیں، ایک طرف اخلاقی حدود اوراحترام اورشرم وحیا کی بچی کچھی روایات کااثر یہ ہے کہ ہم دنیا زمانے کے ہرمسئلے پرزبان کھول سکتے ہیں اور قلم اٹھاسکتے ہیں، لیکن یہ موضوع ایسا شجر ممنوع ہے کہ اُس کی طرف ادنیٰ سا اشارہ بھی طبائع لطیف پرگراں گزرتاہے، اُدھر اسی تصویر کا دوسرارُخ یہ ہے کہ سینما فحش لڑیچر اور روز افزوں عُریانی جذبات جنسی میں بے پناہ اشتعال پیدا کرکے ناقابلِ تصور بے اعتدالیوں اور برائیوں کا دروازہ کھول چکی ہے اورانجان وناتر اشیدہ نئی پودنتائج وعواقب سے بے خبربڑی تیزی کے ساتھ تباہی کے غار کی طرف پیش قدمی کررہی ہے
اب ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو ہم بے جاقسم کی شرم میں پڑے رہیں اورزندگی کے اس ہم پہلو کو راز سربستہ ہی رکھنے پر مصررہیں تاکہ ہم خود بھی اس کارگہ حیات میں ایک رازبن کرتاریخ کے اوراق میں مستور ہوجائیں اوریایہ ہم حالات کے چیلنج کوپورے عزم واعتماد کے ساتھ قبول کریں اور نئی نسل کی اس طرح ذہنی تربیت کریں کہ جنس اس کے لیے راز سربستہ نہ ہو بلکہ زندگی میں بھی وہ اپنے بُرے اور بھلے میں امتیاز کرنے کے قابل ہوجائے اور اُسے یہ معلوم ہو کہ اُسے کن چیزوں کوقبول واختیار کرناچاہیے اور کن چیزوں میں احتیاط واجتناب کی روشنی اختیار کرنی چاہیے، ہوسکتاہے کہ بعض لوگ اور احباب کویہ بُری انوکھی سی بات معلوم ہولیکن میرے نزدیک جب قرآن مجید میں انسان کی جنسی زندگی کے بارے میں ضروری پہلو کاذکر آسکتاہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان فیض ترجمان نے ان مسائل کی عقدہ کشائی میں کسی بے جاتکلف سے کام نہیں لیا تو ہمارے لیے کیا اس معاملے میں اُن کااسوہ،مشعل راہ نہیں ہوسکتا، اخلاقی ضوابط کاپورا احترام ہوناچاہیے، حیااورشرم کوکماحقہ، ملحوظ رکھا جا نا چاہیے، لیکن ان معاملات میں ہمیں اپنے لیے من گھڑت قاعدے اورضابطے بنانے صحیح نہیں اور ان مسائل پرہمارے اہل علم وفن قرآن وحدیث کے اسلوب بیان کا ابتاع کرتے ہوئے نئی پود کی تعلیم وتربیت کابڑا کام کرسکتے ہیں، یقیناً یہ کام بڑا مشکل ہے اور شاید اسی وجہ سے آج تک اس سے اجتناب وپرہیز بھی کیاگیا ہے لیکن اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ وقت کے چلینج کوقبول کرنا ہی پڑے گا۔ اوران مسائل کو بھی موضوع فکر ونظر بنانا ہی ہوگا

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

سگریٹ بُجھا دے زندگی

دل کا مرض، زخموں کا دیر سے ٹھیک ہونااور موت تحقیق کے مطابق یہ سب کچھ سگریٹ کا نتیجہ ہیں۔
برٹش میڈیکل جرنل میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جو تمباکو نوشی نہیں کرتے اور تمباکو نوشی کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں ان میں موت کا خطرہ پندرہ فیصد زیادہ ہے۔
ایک اور تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ امریکی ریاست مونٹانہ میں سگریٹ نوشی پر پابندی کے بعد وہاں لوگوں میں دل کا دورہ پڑنے کی شرح کم ہو گئی ہے۔
اسی دوران سگریٹ نوشی کے نقصانات کے بارے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ یہ عادت زخموں کے ٹھیک ہونے کے عمل کو بھی سُست بنا دیتی ہے۔

ویلنگٹن سکول آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کے مطابق عمر اور سماجی پس منظر چاہے کچھ بھی ہو سگریٹ نوشی کرنے والوں میں اموات کی شرح پندرہ فیصد زیادہ ہی دیکھی گئی ہے۔

محقققین کے مطابق ’سگریٹ نوشی کے خلاف قوانین کی پابندی نہ صرف لوگوں میں اس کے خطرات کی منتقلی کو روکے گی بلکہ اس سے لوگوں میں دل کے امراض میں مبتلا ہونے کا خدشہ بھی کم ہو گا۔‘

اس لحاظ سے نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ میں بھی صحت عامہ کے ماہرین تمباکو نوشی پر پابندی عائد کرنے کے حق میں ہیں۔