اسلام میں اپنےآپ کو نامرد بنا دینا منع ہے
حدیث نمبر : 5073
اپنےآپ کو نامرد بنا دینا منع ہے ? حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا إبراهيم بن سعد، أخبرنا ابن شهاب، سمع سعيد بن المسيب، يقول سمعت سعد بن أبي وقاص، يقول رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على عثمان بن مظعون التبتل، ولو أذن له لاختصينا.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی ، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبتل یعنی عورتوں سے الگ رہنے کی زندگی سے منع فرمایا تھا ۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اجازت دے دیتے تو ہم تو خصی ہی ہو جاتے ۔
حدیث نمبر : 5074
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سعيد بن المسيب، أنه سمع سعد بن أبي وقاص، يقول لقد رد ذلك ـ يعني النبي صلى الله عليه وسلم ـ على عثمان، ولو أجاز له التبتل لاختصينا.
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی اور انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو عورت سے الگ رہنے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی اپنے کو خصی بنالیتے ۔اسلام میں مجرد رہنے کو بہتر جاننے کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ نکاح سے بے رغبتی کر نے والے کو اپنی امت سے خارج قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 5075
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن إسماعيل، عن قيس، قال قال عبد الله كنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وليس لنا شىء فقلنا ألا نستخصي فنهانا عن ذلك ثم رخص لنا أن ننكح المرأة بالثوب، ثم قرأ علينا {يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم ولا تعتدوا إن الله لا يحب المعتدين}.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے ، ان سے اسمٰعیل بن ابی خالد بجلی نے ، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کو جایا کرتے تھے اور ہمارے پاس روپیہ نہ تھا ( کہ ہم شادی کرلیتے ) اس لئے ہم نے عرض کیا ہم اپنے کو خصی کیوں نہ کرالیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا ۔ پھر ہمیں اس کی اجازت دے دی کہ ہم کسی عورت سے ایک کپڑے پر ( ایک مدت تک کے لئے ) نکاح کر لیں ۔ آپ نے ہمیں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھ کر سنا ئی کہ ” ایمان لانے والو ! وہ پاکیزہ چیزیں مت حرام کرو جو تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہیں اور حد سے آگے نہ بڑھو ، بے شک اللہ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا “ ۔
حدیث نمبر : 5076
وقال أصبغ أخبرني ابن وهب، عن يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قلت يا رسول الله إني رجل شاب وأنا أخاف على نفسي العنت ولا أجد ما أتزوج به النساء، فسكت عني، ثم قلت مثل ذلك، فسكت عني ثم قلت مثل ذلك، فسكت عني ثم قلت مثل ذلك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ” يا أبا هريرة جف القلم بما أنت لاق، فاختص على ذلك أو ذر ”.
اور اصبغ نے کہا کہ مجھے ابن وہب نے خبر دی ، انہیں یونس بن یزید نے ، انہیں ابن شہاب نے ، انہیں ابو سلمہ نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نوجوان ہوں اور مجھے اپنے پر زنا کا خوف رہتا ہے ۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر میں کسی عورت سے شادی کر لوں ۔ آپ میری یہ بات سن کر خاموش رہے ۔ دوبارہ میں نے اپنی یہی بات دہرائی لیکن آپ اس مر تبہ بھی خاموش رہے ۔ سہ بارہ میں نے عرض کیا آپ پھر بھی خاموش رہے ۔ میں نے چو تھی مرتبہ عرض کیا آپ نے فرمایا اے ابو ہریرہ ! جو کچھ تم کرو گے اسے ( لوح محفوظ میں ) لکھ کر قلم خشک ہوچکاہے ۔ خواہ اب تم خصی ہو جاؤ یا باز رہو ۔ یعنی خصی ہونا بیکار محض ہے ۔تشریح : دوسری حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا اجازت ہو تو میں خصی ہوجاؤں؟ اس صورت میں جواب سوال کے مطابق ہو جائے گا۔ اس سے یہ مقصود نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی ہونے کی اجازت دے دی کیونکہ دوسری حدیثوں میں صراحتاً اس کی ممانعت وارد ہے بلکہ اس میں یہ اشارہ ہے کہ خصی ہونے میں کوئی فائدہ نہیں تیری تقدیرمیں جو کچھ لکھا ہے وہ ضرور پورا ہوگا اگر حرام میں پڑنا لکھا ہے تو حرام میں مبتلا ہوگا اگر بچنا لکھا ہے تو محفوظ رہے گا۔ پھر اپنے کو نامرد بنانے کی کیا ضرورت ہے اور چونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روزے بہت رکھا کرتے تھے لیکن روزوں سے ان کی شہوت نہیں گئی تھی لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روزوں کا حکم نہیں فرمایا۔ روایت میں متعہ کا ذکر ہے جو وقتی طور پر اس وقت حلال تھا مگر بعد میں قیامت تک کے لئے حرام قرار دے دیا گیا۔