جنسی راہنمائی کیوں ضروری ہے؟
بھوک پیاس جیسی فطری خواہشوں کی طرح جنسی تسکین کی خواہش بھی ایک فطری خواہش ہے جو کہ قدرت کی طرف سے انسان کو طبعی طور پر عطا کی گئی ہے سورہ روم آیت نمبر 21 میں اللّہ تعالیٰ فرماتا ہے
اور اس کے نشانات میں سے ایک نشان یہ ہے کہ اس نے تمہارے درمیان کشش و محبت رکھدی ہے
اس تسکین’ کشش و محبت اور خواہش کا اعلیٰ مقصد اور اہم غرض بقائے نسل انسان ہے لیکن انسان چونکہ فطری طور پر حریص واقع ہوا ہے اس لئے وہ اس قوت کا وقت بے وقت جگہ بے جگہ استعمال کر کے اپنے آپ کو اس نعمت خداوندی سے محروم کر لیتا ہے اور مختلف جنسی نفسیاتی اور خبیث امراض و عادات کا شکار ہو اجاتا ہے جن میں مشت زنی’ ہم جنسیت’ کثرت احتلام’ ذکاوت حس’ نامردی’ ضعف باہ’ جریان’ سرعت انزال’ سوزاک’ آتشک اور ایڈز سرفہرست ہیں- یہ سب کچھ جنسی معلومات سے لا علمی کی وجہ سے ہوتا ہے اس لئے والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ اس کتابچہ کو دیکھ کر ناک بھوں نہ چڑھائیں بلکہ حقیقت کا سامنا کریں اور دوستانہ ماحول میں اپنے بچوںکو جنسی معلومات سے روشناس کرائیں کیونکہ اگر آپ نے اس سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیا تو بچوں کے دماغ میں اس بارے میں جاننے کی خواہش ضرور رہتی ہے اور وہ اپنے سے بڑے کلاس فیلوز یا گلی محلے کے بری صحبت رکھنے والے دوستوں وغیرہ سے” سیکس ” SEX کی بے تکی معلومات حاصل کریں گے اور اپنے نازک دل و دماغ کو گندے خیالات سے بھر کر اپنی جوانی کو داغدار کر لیں گے لہذا سن بلوغ کو پہنچنے والے بچوں کو سمجھا دینا چاہیے کہ جنسی تسکین کی صحیح صورت مرد اور عورت کا ملاپ ہے اور مرد اور عورت کے ملاپ کی اخلاقی’ قانونی و شرعی صورت شادی ہے شادی سے انسان کی جنسی زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے شادی کا ثمر اولاد ہے جس کی باقاعدہ پرورش سے انسان معاشرہ میں اپنا فرض ادا کرتا ہے- موجودہ ماحول کے مطابق والدین کو بالغ ہونے والے بچے کی شادی کا فریضہ جلد از جلد ادا کر دینا چاہیے کیونکہ جنسی کجرویوں برائیوں جنسی امراض اور جنسی جرائم کو کم بلکہ ختم کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے-
جنسی امراض کے علاج کے سلسلے میں اکثر نوجوان انتہائی راز داری برتتے ہیں اور اس سلسلے میں جو بھی نیم حکیم فٹ پاتھئیے معالج اور ہیلتھ کلینکوں کے عطائی ڈاکٹروں سمیت جو بھی سامنے آتا ہے اس سے علاج کروانا شروع کر دیتے ہیں کسی نے کوئی نسخہ یا ٹوٹکہ بتا دیا تو اسے فوراً استعمال کرنا شروع کر دیا اس سے بعض اوقات خطرناک نتائج رونما ہوتے ہیں اور مریض اپنے جسم کو بگاڑ لیتے ہیں ہر شخص کا مزاج مختلف ہوتا ہے جو دوائی کسی دوسرے فرد کو موافق تھی اور اسے اس سے آرام آ گیا تھا آپ کو نقصان بھی دے سکتی ہے فٹ پاتھئیے نیم حکیم’ نام نہاد ہیلتھ کلینکس’ عطائی ڈاکٹر اور غیر مستند معالج اپنی گرما گرم باتوں اور چرب زبانی سے لوگوں کو آسانی سے بے وقوف بنا کر روپیہ وصول کر لیتے ہیں اور جنسی امراض سے متعلق اس قدر مبالغہ آمیز بیانات داغتے ہیں کہ مریض اپنے آپ کو زندہ در گور سمجھنے لگتا ہے اگر کسی فٹ پاتھئیے نیم حکیم کی تقریر سننے کا آپ کو موقع ملے تو آپ بھی اپنے آپ کو کسی نہ کسی شدید مرض میں مبتلا سمجھنے پر مجبور ہو جائیں گے اور جس وقت وہ دوا بیچنا شروع کرے گا آپ کا ہاتھ بھی وہ دوا خریدنے کیلئے اپنی جیب تک پہنچ جائے گا