Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

جنسی طور پر ہراساں کرنا

جنسی طور پر ہراساں کرنا
ہراساں کرنا کیا ہوتا ہے اور جنسی طور پر ہراساں کرنا کیا ہوتا ہے؟غیر مطلوبہ ،نا پسندیدہ اور غیر اخلاقی روّیہ جس کی وجہ سے آپ خوف ،پریشانی،خطرہ، بے سکونی یا شکار ہوجانا محسوس کریں، ہراساں کرنا کہلاتا ہے۔اِس کی وجہ سے کام کی جگہ،تحقیق کے کاموں اورمعاشرتی زندگی پر خوف، مخالفت اور ناگواری کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔جب اِس طرزِ عمل میں نا پسندیدہ جنسی پیش قدمی ،جنسی رعایت طلب کرنا، یا جنسی نوعیت کا زبانی یا جسمانی طرزِ عمل بھی شامل ہو تو یہ جنسی طور پر ہراساں کرناکہلاتا ہے۔چند غیر مطلوبہ /نا پسندیدہ روّیے ذیل میں درج ہیں: جنسی طور پر واضح اِشارے مثلأٔ گھورنا جس سے پریشانی پیدا ہو(جنسی لحاظ سے گھورنا)۔
مخصوص طرز سے ہنسنا/مُسکرانا۔
 جنسی اِشارے کِنائے/ترغیبات۔
کسی فرد کے اُوپر جُھکنا یا اُس کی ذاتی حدود میں تجاوز کرنا/اِرادے کے ساتھ جسم سے جسم کو مَس کرنا جس پر دُوسرے فردکی رضامندی نہ ہواگرچہ کسی وجہ سے دُوسرا فرد خاموش ہی کیوں نہ ہو۔
 آوازیں کَسنا، ہونٹوں سے نا پسندیدہ آواز نکالنا، جانوروں کی آواز نکالنا وغیرہ۔
 جنسی لطیفے سُنانا/جنسی مذاق کرنااور جنسی کارٹون بنانا یا دِکھانا۔
 جنسی ترغیب دینے والا مواد دِکھانا یا بے لباس تصویریں دِکھانا۔
بس صِرف یہ ہی نہیں بلکہ،زنا بالجبر جنسی مقاصد کے لئے اغوا کرنا اور محرم رِشتہ دار سے جنسی ملاپ کرنا ،جنسی طور پر ہراساں کرنے کی زیادہ شدید صورتیں ہیں۔
جنسی طور پر ہراساں کہاں کیا جاتا ہے؟

جنسی طور پر ہراساں کہیں بھی کیا جا سکتا ہے۔مثلأٔ سڑک پر، کلب میں، اِنٹر ویو کے دوران، دُکان، اسکول ، کالج اور بازار میں، سُرخ ٹریفک سگنل پر انتظار کے دوران، بس اسٹاپ، ریستوران، اور ہوائی اڈّے پر ۔الغرض کسی بھی عوامی جگہ پر اور کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کیا جا سکتا ہے۔
کیا صِرف مَرد ہی عورتوںکو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں؟

نہیں، عورتیں بھی مَردوں کو جنسی طور پر ہراساں کر سکتی ہیں(بعض اوقات عورتیں جنسی طور پرہراساں کرنے والی ہوتی ہیں)۔مَرد مَردوں کو اور عورتیں عورتوں کو بھی جنسی طور پر ہراساں کرتی ہیں ۔لہٰذا جنسی طور پر ہراسں کرنے کے معاملے میں صنف کی کوئی قید نہیں ہے۔
کیا اِن واقعات کی رِپورٹ سرکاری طور پر /معمول کے قواعد کے مطابق کی جاتی ہے؟

پاکستان میں اِ ن واقعات کی رِپورٹ نہیں کی جاتی،یہ واقعات عام ہیں اور ہر فرد اپنے لحاظ سے اِن واقعات سے نمٹتا ہے ،لیکن یہ بات یاد رکھئے کہ ایسی صورت حال سے دوچار ہونے والے آپ اکیلے ہی نہیں ہیں۔
کیا جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کی وجہ کسی طرح میری کوئی غلطی ہوتی ہے؟کیا میں کسی لحاظ سے ذمّہ دار ہُوں؟

اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ کے کسی عمل کی وجہ سے ہراساں کیا جانا ممکن ہو سکا تو ایسے حالات پیدا ہونے پر آپ کواحساسِ گناہ شِدّت سے محسوس ہوگا۔آپ خود کو الزام دیں گے۔احساسِ گناہ محسوس کرنے اور خود کو الزام دینے سے ہراساں کرنے والے کو زیادہ قوّت حاصل ہوگی۔یہ بات یاد رکھنا اہم ہے کہ ہراساں کئے جانے کا سبب آپ کا کوئی عمل نہیں ہے۔خوف، غُصّہ یا خطرہ محسوس کرنا معمول کے مطابق ہے اوراِس روّیے کا شکار ہوجانے پرغمزدہ ہوجانا یا خفگی محسوس کرنا بھی معمول کے مطابق ہے۔ لیکن خود کو اِس کا ذمّہ دار نہ سمجھئے یا خود کو الزام نہ دیجئے۔
جنسی طور پر ہراساں کئے جانے سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے؟

1. غیر متوقع بات کیجئے ۔ متعلقہ روّیے کو نام دیجئے۔جو کچھ بھی اُس فرد نے ابھی ابھی کیا ہے وہ واضح طور پر بیان کیجئے ۔ بات کو غیر واضح نہ رکھئے۔مثال کے طور پر ،’آپ میری چھاتیوں سے کیوں ٹکرائے؟‘،’مجھے اِس قِسم کی گفتگو پسند نہیں‘،’اپنے ہاتھوں کو اپنے پاس رکھئے‘۔
2. ہراساں کرنے والے کو ذمّہ دار ٹھرائیے۔اُن کے لئے معذرت نہ کیجئے۔یہ ظاہر کرنے کی کوشش نہ کیجئے کہ کچھ ہُوا ہی نہیں۔مقابلے کو اپنے ہاتھ میں لیجئے اور لوگوں کو بتائیے کہ اُنہوں نے کیا کیا ہے۔خاموشی ہراساں کرنے والوں کو تحفظ دیتی ہے جب کہ معاملہ ظاہر کرنے سے اُن کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
3. دُرست اور راست بیان دیجئے۔سچ بولئے(کوئی دھمکی ،توہین، فحاشی، سمجھوتہ یا لفظی کمزوری نہیں ہونا چاہئے)۔سنجیدگی اور راست طریقے سے معاملے کو نمٹائیے۔
4. ہراساں کئے جانے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیجئے۔
5. یہ بات واضح کر دیجئے کہ تمام عورتوں اور مَردوں کا حق ہے کہ اُن کو جنسی طور پر ہراساں نہ کیا جائے ۔ہراساں کئے جانے پر اعتراض کرنا اُصولی معاملہ ہے۔
6. اپنے ایجنڈا پر عمل کیجئے ۔ہراساں کرنے والے کے بہانوں اور بہکانے میں نہ آئیے۔
7. ہراساں کرنے والے/والی کا روّیہ اصل ،مسئلہ ہے،لہٰذا جو آپ کو کہنا چاہئے وہ کہئے۔اور اگر وہ باز نہ آئیںتو اسے دُہرائیے۔
8. اپنی بات کو مضبوط ،خود احترامی والی جسمانی حرکات و سکنات کے ذریعے تقویت دیجئے۔مثلأٔ نظر ملانا؛سر بلند رکھنا؛ شانے کُھلے رکھنا؛باعتماد اور پُروقارروّیہ رکھنا۔مُسکرائیے نہیں؛شرمیلا انداز آپ کی بات کو کمزور کر دے گا۔
9. مناسب سطح پر ردِّعمل ظاہر کیجئے۔جسمانی طور پر ہراساں کئے جانے کی صورت میں زبانی اور جسمانی ردِّعمل ظاہر کیجئے۔
10. بات کو اپنے انداز سے ختم کیجئے۔قوی انداز میں کہئے: ’’سُن لیا آپ نے، بات ختم ہوگئی
11. بد زبانی یا گالی کی زبان استعمال نہ کیجئے۔

جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کی انتہائی صورتوں کا نتیجہ زنا بالجبر ہو سکتا ہے۔
کیا پاکستان میں کوئی اِس سلسلے میں کچھ کرتا ہے؟

اِس مقصد کے لئے کراچی میں ایک ادارہ ہے جس کا نام ہےLHRLA ۔ یعنی انسانی حقوق اور قانونی مدد کے لئے وکلاء کی تنظیم۔یہ ادارہ آگہی بڑھاتا ہے اور جنسی طور پر ہراساں کی گئی عورتوںکو قانونی مدد فراہم کرتا ہے۔

لائرز فار ہیومن رائٹس اینڈ لیگل ایڈ
www.lhrla.sdnpk.org
بالمقابل سندھ اسمبلی بلڈنگ
کورٹ روڈ
کراچی۔74200
UAN – 111-911-922
فیکس نمبر: 5695938
ای میل کا پتہ: lhrla@fascom.com
madadgaar@cyber.net.pk

نسوانی جنسی اعضاء

بظر (Clitoris)
یہ ایک نسوانی بیرونی عضو ہے، جو چھونے اور مسلنے پر بہت زیادہ حساس ہو جاتا ہے۔ اسے C Spot بھی کہتے ہیں۔ مردانہ عضو تناسل کی مثل اسے حرکت دینے سے اس میں خون بھر جاتا ہے اور یہ تناؤ حاصل کر لیتا ہے۔ یہ فرج کے چھوٹے اندرونی لبوں کے ملنے کے مقام پر اوپر کی طرف واقع ہوتا ہے۔ اس کی حفاظت کے لئے اس کے اوپر ایک ڈھکن یا خول ہوتا ہے، جسے ہاتھ سے ہٹانے پر یہ نظر آتا ہے۔ یہ نسوانی جنسی اعضاء میں سب سے اہم اور حساس ترین عضو ہے، جس کا مقصد مباشرت کے دوران جنسی لذت فراہم کرنا ہوتا ہے۔
فرج

(Vagina)
یہ بچہ دانی اور بیرونی جسم کے درمیان ایک نالی یا راستہ ہوتا ہے، جسے اندام نہانی بھی کہتے ہیں، کیونکہ مباشرت کے دوران آلہ تناسل اس میں چھپ جاتا ہے۔ اس کی دیواریں (اطراف) عام طور پر باہم ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ فرج ایسے عضلات سے بنی ہوتی ہے، جو اس میں عضو تناسل داخل کرنے یا پیدائش کے وقت بچے کے باہر آنے کی صورت میں پھیل جاتی ہے۔ نارمل پیدائش کی صورت میں بچہ فرج کے راستے باہر آتا ہے۔ ماہواری کا خون بھی فرج کے راستے ہی نکلتا ہے اور عورتوں کو ایسی صورت میں پیڈ استعمال کرنا پڑتا ہے۔
رحم مادر کا دھانہ (Cervix)
یہ رحم مادر کا نچلا حصہ ہے، جو فرج سے ملا ہوا ہوتا ہے۔ اسی راستے سے منی کے جرثومے رحم مادر میں داخل ہوتے ہیں۔ بچے کی پیدائش کے دوران یہ سوراخ بھی پھیل کر کھلا ہو جاتا ہے تاکہ پیدا ہونے والے بچہ بآسانی باہر نکل سکے۔
رحم مادر / بچہ دانی (Uterus)
یہ عضلات سے بنا ہوا ناشپاتی کی شکل کا اندرونی عضو ہے۔ حمل کے دوران بچہ اسی میں پرورش پاتا ہے۔ حمل نہ ہونے کی صورت میں ہر ماہ رحم مادر سے ماہواری کا خون خارج ہوتا ہے۔
بیضہ دانیاں (Ovaries)
یہ دو اندرونی اعضاء ہوتے ہیں، جن میں انڈے بنتے ہیں اور مناسب وقت پر خارج ہو کر بچہ دانی تک پہنچتے ہیں۔ اس عمل کو بیضہ ریزی کہتے ہیں۔ ایک بیضہ دانی بچہ دانی کے دایہں طرف اور دوسری بائیں طرف ہوتی ہے۔
نل (Fallopian Tubes)
دونوں بیضہ دانیوں سے ایک ایک پتلی نالی رحم مادر میں داخل ہوتی ہے۔ بیضہ دانی سے خارج ہونے کے بعد انڈہ انہی نل میں سے گزر کر رحم مادر میں پہنچتا ہے۔ بارآوری کی صورت میں عام طور پر منی کے جرثومے اور اور انڈے کا ملاپ ان دونوں‌ میں سے کسی ایک نل میں ہی ہوتا ہے۔

جنسی اعضاء کے ساتھ منہ کا استعمال

جنسی اعضاء کے ساتھ منہ کا استعمال
بیوی کے منہ میں عضو تناسل ڈالنا یا اس کی فرج میں اپنی زبان داخل کرنا اور اسے اندرونی طرف سے چاٹنا وغیرہ بھی مذموم جنسی اعمال میں سے ہیں۔ اسلام کی پیش کردہ مثبت جنسی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے نوجوان طبقہ نے مغربی ذرائع سے جنسی معلومات حاصل کرنے پر اکتفاء کیا اور ایسی جنسی خرافات ہمارے معاشرے میں بھی رائج ہونے لگیں۔فطرت سلیمہ ایسے سفلی عمل کو ناگوار گردانتی ہے اور ایک عام عقلمند شخص بھی ایسی حرکتوں‌ کو مہذب قرار نہیں‌ دے سکتا۔
مباشرت کے دوران میاں‌ بیوی کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو زبان لگانا یا چاٹنا مکروہ عمل ہے اور اگر اس دوران میں‌ ایک دوسرے کی جنسی رطوبتیں (منی وغیرہ) منہ میں چلی جائیں‌ تو یہ عمل حرام کے زمرے میں داخل ہو جاتا ہے۔

کسی قسم کی جنسی بیماری کی صورت میں جنسی اعضاء کے ساتھ منہ کے استعمال سے جنسی انفکشن کا بھی خطرہ ہوتا ہے، اگرچہ یہ خطرہ جنسی ملاپ کی صورت میں ممکنہ خطرے کی نسبت کم ہوتا ہے۔

جنسی اعضاء کے ساتھ منہ کے استعمال سے ممکنہ طور پر لاحق ہونے والے چند انفکشن یہ ہیں
 کلیمائیڈیا
 سوزاک (گنوریا)
آتشک
 ایچ آئی وی
 ہیپاٹائیٹس اے،بی اور سی
 جنسی اعضاء پر پھوڑے/پھنسیاں
جنسی اعضاء پر جوئیں

Read More

میاں بیوی کا جنسی تعلق کوئی گناہ نہیں بلکہ صدقہ ہے

مباشرت، مجامعت، جماع، وطی، ہمبستری، فریضہ زوجیت، وظیفہ زوجیت، جنسی ملاپ، ملنا، ساتھ سونامیاں بیوی کا تعلق اور اس سے حاصل ہونے والا سکون، محبت اور رحمت اللہ رب العزت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جس کا ذکر قرآن مجید میں یوں آیا ہے:

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
(روم، 30: 21)
ترجمہ
اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں
نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہم اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کی حکمتوں ‌پر غور و خوض کرنے اور اس کا شکر بجا لانے کی بجائے اسے مکمل طور پر نظرانداز کئے رکھتے ہیں ہمارے معاشرے میں عام طور پر میاں‌ بیوی کے تعلق پر بات کرنے والوں‌ کے بے حیاء سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے نوبیاہتا جوڑے کسی بڑے سے اپنے جنسی مسائل پوچھنے سے شرماتے ہیں اور یوں ان کے مسائل گھمبیر ہوتے چلے جاتے ہیں

مباشرت یعنی فریضہ زوجیت ایک صدقہ ہے۔ میاں‌ بیوی کے درمیان الفت بڑھانے اور نسل انسانی کے تحفظ کا ضامن یہ عمل کوئی شجر ممنوعہ نہیں‌ کہ اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے اس بارے میں‌ بات کرنا بے شرمی کی بات سمجھی جائے۔ جائز حدود میں رہ کر جنسی مسائل کو ڈسکس کرنا اور ان کا حل معلوم کر کے اپنی زندگی کو خوشگوار بنانا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہماری غیر شرعی معاشرتی اقدار ہمیں‌ ہمارے اس جائز حق سے محروم رکھے ہوئے ہیں

اسلام کی تعلیمات میں بکثرت جنسی معلومات دی گئی ہیں۔ قرآن و حدیث کی بے شمار نصوص میاں‌ بیوی کے تعلق کو نہ صرف واضح کرتی ہیں بلکہ مباشرت کے جائز اور ناجائز طریقوں سے بھی آگاہ کرتی ہیں۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ جیسے ہم نے اس مادیت زدہ دور میں اسلام کی روحانی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا، اسی طرح اسلام کی ان تعلیمات کو بھی بے شرمی کی باتیں‌ قرار دیتے ہوئے ان سے بھی صرف نظر شروع کر دیا جو ایک مسلمان کے تکمیل ایمان کی ضامن ہیں۔ من گھڑت شرم و حیاء کا لیبل جہاں‌ ایک طرف شریعت اسلامیہ کی اتباع کرنے والوں کو ضروری جنسی معلومات کے حصول سے محروم کر دیتا ہے، وہیں شریعت کو بوجھ سمجھنے والوں‌ کو جنسی معلومات کے حصول کے لئے شتر بے مہار کی طرح مغرب کی تقلید کے لئے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ دوغلاپن ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح‌ چاٹ رہا ہے

یہ ایک حقیقت ہے کہ مباشرت سے واقفیت نہ رکھنے والوں کے ساتھ اکثروبیشتر ہولناک واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ہر بالغ مرد اور عورت کو اس سے آگہی نہایت ضروری ہے، کیونکہ ان کی ازدواجی زندگی کا انحصار زیادہ تر اسی معلومات پر ہوتا ہے۔ جو لوگ مباشرت سے واقفیت نہیں رکھتے وہ اپنی ازدواجی زندگی کا صیحح لطف نہیں اٹھا سکتے۔ مباشرت سے واقفیت کوئی گناہ نہیں بلکہ یہ قدرت کی عطا کردہ ہے شمار نعمتوں میں سے ایک ہے۔

اکثر لوگ جنسی فعل کو ادا کرنا ایک فرض سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک اس دوران میں لطف اندوز ہونا شاید کوئی غیرشرعی حرکت ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ قدرت نے انسان کے گرد بہت ساری نعمتیں بکھیر دی ہیں، جنہیں انسان بوقت ضرورت بہترین تفریح کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔ عورت بھی مرد کی ضرورت کے تحت وجود میں آئی ہے اور اس کی موجودگی سے انسان اپنی دوسری تفریحات کو پس پشت ڈال دیتا ہے اور یوں عورت دوسری تمام نعمتوں پر فوقیت حاصل کر لیتی ہے۔ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔

کسی عورت سے جنسی تعلقات صرف اسی وقت استوار کئے جا سکتے ہیں جب مرد نے اسے جائز طریقے سے اپنے لئے حاصل کیا ہو اور اسلام میں وہ جائز طریقہ صرف نکاح ہے۔

ہر نعمت کو استعمال کرنے کا ایک مخصوص طریقہ ہے۔ اسی طرح مباشرت سے واقفیت بھی عورت جیسی عظیم نعمت کو استعمال کرنے کا صحیح اور جائز طریقہ ہے، پس اس طریقہ سے واقفیت کوئی گناہ نہیں ہے۔

اچھا لباس، عمدہ غذا اور بناؤ سنگھار وغیرہ کے علاوہ بھی عورت کی بعض ضروریات ہوتی ہیں۔ یہ ضروریات تو ظاہری ہیں، لیکن عورت کی ایک ضرورت ایسی بھی ہوتی ہے، جسے وہ زبانی بیان نہیں کر سکتی۔ لیکن جب قوت برداشت ختم ہو جائے تو وہ اسے کہنے سے گریز نہیں کرتی۔ یہ مطالبہ ایسا ہے کہ اس کے پورا ہونے کے بعد اگر اس کے دوسرے مطالبات بہتر طور پر پورے نہ بھی ہوں تو بالعموم وہ گلہ نہیں کرتی۔ مرد کو چاہیے کہ عورت کے اس مطالبے پر خاص توجہ دے، جسے وہ کہہ نہیں پاتی۔ جو لوگ اس سے واقفیت نہیں رکھتے وہ کامیاب زندگی نہیں گزار سکتے۔ ان کی بیویاں یا تو طلاق کی صورت میں ان سے علیحدگی اختیار کر لیتی ہیں یا پھر اپنی اور اپنے شوہر کی عزت سے کھیلتے ہوئے غیر مردوں سے تعلقات پیدا کر لیتی ہیں۔ اسی وجہ سے معاشرے میں برائیاں پھیلتی جا رہی ہیں۔ ایسی عورتیں جن کے شوہر انہیں مکمل جنسی تسکین نہیں دے سکتے، وہ اپنے شوہر کے ساتھ وفادار نہیں رہتیں اور ان کی عزت و ناموس سے کھیلنا شروع کر دیتی ہیں

اہم جنسی اصطلاحات

احتلام
نیند کے دوران جنسی لطف کی انتہا کو پہنچنا احتلام کہلاتا ہے۔ ایسی صورت میں صبح کپڑوں پر منی کے اثرات ہوتے ہیں، اس لئے اسے گیلا خواب بھی کہتے ہیں۔
استقرار حمل
حمل کا آغاز ہونا، جس میں انڈہ بچہ دانی کی اندرونی سطح سے جڑجاتا ہے اور جنین (fetus)بننے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
اسقاط حمل
آپریشن یا طبی طور پر دی جانے والی گولیوں کے ذریعے حمل ختم کرنے کا ایک طریقہ
انزال
عضو تناسل سے منی کاخارج ہونا۔اسے ’’چھوٹ جانا‘‘ بھی کہتے ہیں۔
ایڈز
ایسی طبی حالت جس میں جسم کا مدافعتی نظام(جسم کا وہ نظام جو بیماریوں کے خلاف کام کرتا ہے) درست طور پر کام نہیں کرتا۔
ایمبریو (embryo)
بارآوری سے دو ہفتے بعد سے ساتویں یا آٹھویں ہفتے کی مدت میں بننے والا آرگینیزم
بار آوری
جب جنسی ملاپ کے دوران منی کا جرثومہ انڈے میں داخل ہوتا ہے اور ایک نیا خلیہ بنتا ہے جو آخر کار جنین (fetus) بن جاتا ہے۔
بانجھ
کوئی ایسی عورت جو حاملہ نہ ہو سکے یا کوئی ایسا مرد جو کسی عورت کو حاملہ نہ کر سکے۔
بچہ دانی
یہ ایک کھوکھلا عضلاتی زنانہ عضو ہے، جس میں عام طور ایک بارآور انڈہ جڑجاتا ہے اور اس میں بڑھتے ہوئے ایمبریو کو غذا حاصل ہوتی ہے۔
بچہ دانی کا نکال دینا
اس آپریشن میں مکمل بچہ دانی نکال دی جاتی ہے۔یہ آپریشن پیٹ کی کھال میں چیرا لگا کر یا فرج کے راستے کیا جاتا ہے۔
بظر(clitoris)
یہ ایک چھوٹا سا گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے، جس کی بناوٹ مٹر کے دانے کے برابر ہوتی ہے۔ یہ عورتوں میں پیشاب کی نالی سے قدرے اوپر واقع ہوتا ہے۔ یہ جنسی ملاپ کے دوران بہت حساس ہوجاتا ہے اور مسلنے سے اس میں خون بھر جاتا ہے۔ اسے مردوں کے عضو تناسل سے مماثلت رکھنے والا عضو خیال کیا جاتا ہے۔
بکارت
فرج کے دہانے کو ڈھکنے والی باریک جھلی پردہ بکارت کہلاتی ہے، یہ جھلی عموما پہلے جنسی ملاپ کے موقع پر ختم ہو جاتی ہے۔ اسے عموما کنوارپن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ عین ممکن ہے کہ یہ بچپن میں ہی کھیل کود کے دوران ختم ہو جائے۔
بلوغت
جنسی طور پر بالغ بنانے والی جسمانی تبدیلیاں
بیضہ – انڈہ
زنانہ تولیدی خلیہ جو بار آوری کے بعد کچھ بنیادی مراحل سے گزر (embryo)کر جنین(fetus) بن جاتا ہے۔
بیضہ ریزی
بیضہ دانی سے تکمیل شدہ انڈے کا خارج ہونا۔
جنین (fetus)
بچہ دانی کے اندر پرورش پانے والا بچہ جنین کہلاتا ہے۔
حشفہ یا عضو تناسل کا غلاف
یہ ڈھیلی کھال کا ایک غلاف ہوتا ہے جو قضیب (عضو تناسل کا سرا)کو ڈھانپتا ہے۔
حمل ٹیسٹ
اس ٹیسٹ کے ذریعے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کاعلم ہوجاتا ہے۔
خود لذتی
جنسی لطف حاصل کرنے لئے اپنے جنسی اعضاء کو رگڑنا، تھپتھپانا یا چھونا۔ اسے ’’جلق‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
دخول
میاں بیوی کے ملاپ کے دوران عضو تناسل کا کم از کم حشفہ کی مقدار فرج میں داخل ہونا، دخول کہلاتا ہے۔
ذَکر – عضو تناسل
سلاخ نما عضو جو مردوں کے جسم سے باہر لٹکتا ہے۔اسے ’’آلہ‘‘ ، ’’ہتھیار‘‘ اور ’’آلت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
زیر ناف بال
مردوں اور عورتوں کے جنسی اعضاء پر اگنے والے بال
ضعف ایستادگی
عضو تناسل میں تناؤ نہ پیدا ہونا، جنسی ملاپ کے لئے،عضو تناسل میں مستقل طور پر مطلوبہ تناؤ کاپیدا نہ ہونا۔ اسے عام طور پر نامردی بھی کہا جاتا ہے۔
طہر
دو حیضوں کی درمیانی مدت کو طہر (یعنی پاکی کی حالت) کہتے ہیں، جو کم از کم 15 دن ہوتی ہے۔
عزل
اس طریقے میں عضو تناسل کو انزال سے پہلے فرج سے باہر نکال لیا جاتا ہے۔ اس صورت میں حمل کا امکان نہایت کم ہو جاتا ہے۔
عضو تناسل کا تناؤ
عضو تناسل کی بیداری یعنی عضو تناسل میں سختی پیدا ہونا۔اس ’’کھڑا ہونا ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
فرج
بچہ دانی کے منہ سے ،فرج تک آنے والی نالی
فرج کا دہانہ
عورت کے بیرونی جنسی اعضاء
فرج کی سوزش
فرج کی اندرونی دیواروں کی سوزش، جو خمیر یا کسی اور آرگینیزم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کی علامات میں ،فرج میں درد ،خارش یا ناگوار بو کا پیداہوناشامل ہیں۔
کنڈوم
کنڈوم لیٹکس ربر کی پتلی شیٹ سے بنا ہوتا ہے اور اسے تنے ہوئے عضو تناسل پرپہنا جاتا ہے۔ کنڈومز ،جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفکشنز اور غیر مطلوبہ حمل سے بچاؤ فراہم کرتے ہیں۔
لب
فرج کے منہ پر پائے جانے والے ’’ہونٹ نما‘‘ بناوٹ
مانع حمل
ضبط ولادت ۔   حمل روکنے کے طریقے
ماہواری
ماہواری کا دورانیہ یعنی انڈے خارج ہونے کا عمل اور ماہانہ ایام کا ہونا۔ اسے مہینہ ہونا ،  ایام ہونا یا شرو ع ہونا  بھی کہا جاتا ہے۔
مباشرت
جنسی ملاپ کے لئے فرج میں ذکر / عضو تناسل کو داخل کرنا مباشرت کہلاتا ہے۔
مثانے کی سوجن
اس کیفیت میں مثانے میں سوجن واقع ہو جاتی ہے۔
مسے
مقعد کے گرد خون کی نالیوں میں پھیلاؤ اور سوجن کی وجہ سے تکلیف دہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، جس سے بعض اوقات خون اور رطوبت کا اخراج ہوتا ہے۔
منی
عضو تناسل سے خارج ہونے والی رطوبت
منی کا جرثومہ
مردوں کے جسم میں بننے والا تولیدی خلیہ جو انڈے سے ملنے کے بعد حمل قرار پانے کا سبب بنتا ہے اور پھر یہ ایمبریو بن جاتا ہے۔‌‌
ہارمونز
دماغ سے خارج ہونے والے کیمیائی رطوبتیں

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

Read More

بچے بڑوں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہوتے رہیں گے

مثبت جنسی تعلیم نہ ملنے کی وجہ سے بہت سے معصوم بچے بڑوں کے ہاتھوں ان کی جنسی ہوس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم جنس پرست اکثر معصوم بچوں‌ کو ورغلاتے اور اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔معصوم بچے نہیں جاتے کہ کون انہیں پیار کر رہا ہے اور کون پیار کے بہانے ان سے زیادتی کرنے کا ماحول بنا رہا ہے۔ اگر بچوں کو مثبت طریقے سے جنسی تعلیم دی جائے تو انہیں یہ سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے کہ وہ ایسے مواقع پر خود کو کیسے بچا سکیں۔ اور یوں وہ دوسروں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔

ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے کہ یہ سب کچھ مثبت جنسی تعلیم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہو رہا ہے، جس کا خمیازہ بہت سے بچوں‌ کو جنسی تشدد کی صورت میں‌ بھگتنا پڑتا ہے

جنسی بیماریوں کا علاج کروانے سے شرمائیں گے اور اپنے جنسی مسائل سے نمٹ نہیں پائیں گے۔

مثبت جنسی تعلیم کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر واضح ہو کہ جس معاشرے میں مثبت طریقے سے جنسی تعلیم نہ ملے اور کسی کو جنسی موضوعات پر گفتگو کرنے کی جرات نہ ہو، ایسے معاشرے میں اگر خدانخواستہ کوئی شخص کسی جنسی مرض میں مبتلا ہو جائے تو وہ اپنا علاج کروانے سے اس وقت تک شرماتا رہتا ہے جب تک وہ مرض پوری طرح شدت اختیار نہیں کر لیتا۔ایسے امراض جن پر بروقت تشخیص کی صورت میں چند دن کے علاج سے قابو پانا ممکن ہے، ہمارے معاشرے کی کھوکھلی حیاء کی وجہ سے ان کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب وہ موذی مرض بن چکے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ مثبت جنسی تعلیم کا فقدان اور جنسی موضوعات پر کلام کو ناجائز سمجھنا ہے۔ ایسی صورت میں مریض اپنی جنسی بیماریوں کا علاج کروانے سے شرماتے ہیں اور اپنے جنسی مسائل سے نمٹ نہیں پاتے۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے کہ یہ سب کچھ مثبت جنسی تعلیم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر معاشرے میں مثبت جنسی تعلیم موجود ہو تو لوگ اپنے جنسی مسائل کے حل میں محض شرم و حیاء کی وجہ سے سستی نہیں‌ کریں‌ گے اور بیشمار لوگ پیچیدہ جنسی بیماریوں‌ سے محفوظ‌ رہ سکیں گے۔

پاکستان میں میسر ‌جنسی تعلیم کے جائز و ناجائز ذرائع

اگرچہ ہمارے ہاں جنسی تعلیم کی شدت سے مخالفت پائی جاتی ہے، جس کی بڑی وجہ لوگوں‌ کا اس بات سے خائف ہونا ہے کہ جنسی تعلیم ان کے بچوں‌ کو مغربی طرز کی جنسی خرافات کا شکار کرتے ہوئے معاشرے کو تباہ و برباد کر دے گی۔ تاہم ہمارے ہاں بعض سطحوں پر مثبت و منفی ہر دو قسم کی جنسی تعلیم کے بعض مواقع پہلے سے موجود بھی ہیں، جن سے بالعموم لوگ آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک ذیل میں‌ بیان کئے جا رہے ہیں۔
سائنس کی کتب
میٹرک کی سطح‌ پر سکولوں‌ میں بچوں اور بچیوں‌ کو پڑھائی جانے والی تدریسی کتب میں ایک خاص حد تک جنسی مواد موجود ہوتا ہے، جس سے نوعمر طالب علموں‌ کو میاں‌ بیوی کے درمیان قائم جنسی تعلقات کی بخوبی سمجھ آ جاتی ہے حتی کہ وہ میاں‌ بیوی کے ملاپ کے بعد سے ماں‌ کے پیٹ میں‌ شروع ہونے والے اس عمل کو بھی جان لیتے ہیں جو بعد ازاں‌ ان کے بچے کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔
قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں‌ دی جانے والی مثبت جنسی تعلیم بچوں‌ کو اس نوعمری میں بے راہ روی سے محفوظ‌ رکھ سکتی ہے۔
میڈیکل کتب
میڈیکل کالجوں میں پڑھائی جانے والی کتب کی مدد سے میڈیکل سٹوڈنٹس کو میاں بیوی کے تعلق سے لے کر حمل اور بچے کی ولادت تک کے تمام مراحل بالتفصیل پڑھائے جاتے ہیں، جنہیں‌ بالعموم طلبہ و طالبات ایک ہی کلاس میں اکٹھے پڑھتے ہیں۔ امتحانات کی تیاری کے لئے لڑکے لڑکیاں‌ ان اسباق کو آپس میں‌ مل کر دہراتے بھی ہیں اور اسی دوران بہت سی لڑکیاں تعلیم مکمل ہونے سے پہلے اسقاط حمل کی نوبت کو بھی پہنچ جاتی ہیں۔میڈیکل کتب میں‌ موجود تدریسی مواد کو پڑھنے سے قبل اگر طلبہ و طالبات کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں مثبت جنسی تعلیم لازمی قرار دے دی جائے تو اس سے انہیں بے راہ روی سے بچنے میں یقینا مدد ملے گی۔
فقہ کی کتب
اسلام کی تعلیمات ہر دور اور ہر علاقہ کے لوگوں‌ کے لئے یکساں مفید ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں‌ لکھی گئی کتب فقہ میں‌ ایک مسلمان کی زندگی کے تمام امور کا منظم انداز میں‌ احاطہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ فقہ کی کتب میں جنسی موضوعات بھی پائے جاتے ہیں، جس سے بچوں‌ اور بڑوں کو ان کی جنسی زندگی کے لئے بھی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ مگر چونکہ ان کتب کو باضابطہ طور جنسی تعلیم کی غرض سے پڑھانا مقصد نہیں ہوتا اس لئے عموما جنسی نوعیت کے موضوعات سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ حتی کہ میٹرک سطح‌ کے طالب علموں‌ کے پوچھنے پر حیض اور نفاس کو عورتوں سے مخصوص بیماریوں کے طور پر متعارف کروایا جاتا ہے۔

اگر قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کردہ فقہ کی کتب میں‌ موجود جنسی تعلیم سے بچوں‌ کو بہتر انداز میں‌ روشناس کروایا جائے تو بہت سے جنسی مسائل جنم لینے سے پہلے ختم ہو سکتے ہیں۔
شادی شدہ دوست اور سہیلیاں
شادی شدہ دوست اور سہیلیاں ہمارے معاشرے میں جنسی معلومات کے حصول کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ جن لڑکوں‌ اور لڑکیوں‌ کی نئی نئی شادی ہوتی ہے وہ اپنے دوستوں کو اپنے جنسی تجربات سے آگاہ کرتے اور مرچ مصالحہ لگا کر سناتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اکثر غیر شادی شدہ نوجوانوں کے دل میں جنسی تجربات کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

اگر نوجوانوں‌ کو میٹرک سطح پر مناسب حد تک مثبت جنسی تعلیم دے دی جائے اور انہیں‌ جنسی حوالے سے اپنے اچھے برے کی پہچان ہو جائے تو وہ بہت سی قباحتوں سے بچ سکتے ہیں۔
عامل بنگالی اور نیم حکیموں کی گمراہ کن تعلیم
شادی کورس وغیرہ کے نام سے تشہیر کرنے والے نیم حکیموں‌ کی دکانیں بھی جنسی تعلیم میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی ہیں۔ ان نیم حکیموں‌ کے اشتہارات نوجوانوں کو بے تکی جنسی معلومات فراہم کرتے ہیں اور نوجوان مثبت جنسی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے نیم حکیموں‌ کے چنگل میں پھنس کر خود کو جنسی بیمار سمجھنے لگ جاتے ہیں اور وہ نیم حکیم اور عامل انہیں‌ دونوں‌ ہاتھوں‌ سے لوٹتے ہیں۔

مثبت جنسی تعلیم کے فروغ سے عاملوں‌ اور نیم حکیموں‌ کے چنگل میں پھنسے نوجوانوں کو اس عذاب سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔
جنسی ناول، جنسی کہانیوں‌کی سیریز، شیطانی کھیل
تجسس انسان کی فطرت میں ہے۔ چنانچہ اکثر نوجوان جنسی معلومات کے حصول اور بعض محض چسکے لینے کے لئے جنسی ناولوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ پڑھنے والوں‌ کو ایسے ناولوں‌ میں لڑکوں اور لڑکیوں کے آزادانہ اختلاط پر مبنی فرضی معاشرہ جنت سے کم نہیں‌ لگتا اور وہ اس سے متاثر ہو کر اپنی دنیا کو جنت بنانے کے شوق میں صنف مخالف سے یاری دوستی اور بعد ازاں جنسی تعلقات بنانے تک پہنچ جاتے ہیں۔

ایسا منفی لٹریچر شائع کرنے والے اداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نونہال منفی قسم کی جنسی معلومات سے محفوظ‌ رہتے ہوئے مثبت طرز حیات اپنا سکیں۔ علاوہ ازیں مثبت جنسی تعلیم یقینا انہیں‌ ایسے منفی جنسی مواد سے بچانے میں‌ اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
انٹرنیٹ پر موجود ننگی فلمیں
جنسی ناولوں‌ سے کئی گنا بڑھ کر وہ جنسی مواد ہے جو انٹرنیٹ پر آزادانہ میسر ہے۔ نوجوان لڑے لڑکیاں انٹرنیٹ کلبوں‌ میں جا کر ایسی سیکسی ویب سائٹس وزٹ کرتے اور اپنا دل بہلاتے ہیں۔ ایک محتاط سروے کے مطابق پاکستان میں موجود 80 سے 90 فیصد انٹرنیٹ کیفے اپنے گاہکوں‌ کو جنسی مواد کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کلبوں‌ میں‌ موجود کمپیوٹرز میں ہر رنگ و نسل کے جوڑوں کے جنسی اختلاط پر مبنی فلمیں موجود ہوتی ہیں، جو گاہک کے طلب کرنے پر ایکسٹرا فیس کے ساتھ مہیا کی جاتی ہیں۔

ایسی ننگی فلمیں چند سکوں‌ کے عوض سی ڈی شاپس پر بھی بآسانی دستیاب ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی شہر میں موجود سی ڈیز کی ہول سیل مارکیٹ میں اچانک چھاپہ مارا جائے تو ہزارہا کی تعداد میں ایسی ننگی فلمیں‌ برآمد ہو سکتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ہر شہر میں سیکڑوں‌ دکانیں‌ بند ہو سکتی ہیں۔
انٹرنیٹ پر موجود جنسی کہانیاں
ننگی فلموں کے علاوہ انٹرنیٹ پر ایسی اخلاق باختہ ویب سائٹس کی بھی کمی نہیں‌ جہاں‌ نوجوان لڑکے لڑکیوں‌ کو زنا کی ترغیب دینے کے لئے جنسی کہانیاں شائع کی جاتی ہیں۔ بے شمار نوجوان ان کہانیوں کو پڑھ کر زنا کی طرف راغب ہوتے ہیں اور بعد ازاں وہ بھی اپنے جنسی تجربات پر مبنی کہانیاں‌ ان ویب سائٹس پر شائع کرواتے ہیں۔ جنسی بے حیائی اور چسکوں‌ سے بھری ان کہانیوں‌ کو پڑھنا ننگی فلمیں‌ دیکھنے سے کسی طرح کم نہیں‌ ہوتا۔

مثبت جنسی تعلیم کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر

ضرورت و اہمیت – اگر مثبت طریقے سے جنسی تعلیم نہیں‌ ملے گی تو لوگ – مغربی ذرائع سے منفی جنسی تعلیم حاصل کریں گے، جو یقیناً ہمارے معاشرے کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔مغربی ذرائع سے منفی جنسی تعلیم حاصل کریں گے، جو یقیناً ہمارے معاشرے کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔

مثبت جنسی تعلیم کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر واضح ہو کہ اگر لوگوں کو مثبت طریقے سے جنسی تعلیم نہیں ‌ملے گی تو وہ مغربی ذرائع سے جنس بارے منفی علم حاصل کریں گے، جو یقیناً ہمارے معاشرے کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ مغربی ذرائع سے میسر علم نہ صرف ہماری آنے والی نسلوں کو اخلاقی دیوالیہ پن کی طرف لے جا رہا ہے بلکہ نوعمر بچوں کی جسمانی و نفسیاتی صحت پر بھی نہایت برے اثرات مرتب کر رہا ہے۔
انٹرنیٹ کی عام دستیابی کے بعد سے پاکستان میں نوجوان طبقہ سفلی جذبات کو بھڑکانے والی ایسی ویب سائٹس تک بآسانی پہنچ جاتا ہے، جہاں مرد اور عورتیں‌ ننگے ہو کر جنسی عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں اور دیکھنے والوں‌کو جنسی ملاپ کے نئے نئے طریقے سکھاتے ہیں۔

مغربی ذرائع سے حاصل ہونے والا جنسی علم ہمارے بچوں کو وقت سے پہلے بالغ کر رہا ہے۔ بچے کم عمری میں ہی ایسی جنسی معلومات حاصل کر چکے ہوتے ہیں، جن کے حوالے سے والدین تصور بھی نہیں‌کر سکتے۔ وہ جنسی معلومات صرف معلومات کی حد تک نہیں‌ ہوتیں‌ بلکہ میٹرک کی عمر کے بچے تجربات کرتے ہوئے بہت سے جنسی مراحل سے بھی گزر جاتے ہیں۔

بے شمار بچے اپنے دوستوں‌کے ساتھ جنسی تعلق پیدا کر لیتے ہیں اور نسبتا شرم و حیاء والے بچوں کو خودلذتی کی عادت پڑ جاتی ہے، جو نہ صرف ان کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ وہ نفسیاتی طور پر خود کو مجرم گرداننے لگتے ہیں۔

ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے کہ یہ سب کچھ مثبت جنسی تعلیم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر ہم مثبت جنسی تعلیم کا انتظام کریں تو بچوں‌ کو جنسی بے راہ روی سے بچانے میں‌ مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

طوائفوں سے جنسی تعلقات

پروفیشنلز طوائفوں سے جنسی تعلقات قائم کرنا اگرچہ خلاف وضع فطری فعل نہیں لیکن قانونی اور شرعی حیثیت سے یہ ناجائز ہے علاوہ ازیں طوائف کا پیار اور محبت روپے پیسے کیلئے ہوتا ہے لہٰذا قدرتی پیار اور محبت کے فقدان کی وجہ سے وہ کسی بھی فرد کو جنسی طور پر مکمل آسودگی بہم نہیں پہنچا سکتی اس کے علاوہ طوائف کسی ایک فرد کی پابند نہیں ہوتی بلکہ طرح طرح کے لوگ اس سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں جن میں چھوتدار امراض کے مریض بھی ہو سکتے ہیں لہذا بازاری اور پروفیشنلز عورتوں سے مختلف امراض مثلاً سوزاک’ آتشک’ ایڈز وغیرہ لاحق ہو سکتی ہیں- ماہواری کے دوران عورت کے پاس جانا کئی بیماریوں کو دعوت دینا ہے- چونکہ طوائف کا تو کاروبار ہوتا ہے لہذا وہ یہ کبھی بھی نہیں بتاتی کہ وہ ماہواری سے ہے لہٰذا دوران ماہواری جنسی تعلقات قائم کرنے والے افراد اپنی جوانی کو روگ لگا لیتے ہیں اور کئی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔