Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

تمباکو نوشی سے ذیابیطس

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بالواسطہ تمباکو نوشی کرنے والوں کے ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
پندرہ سال پرمحیط امریکی تحقیق سے ان تمام سابقہ دعوؤں کی تائید ہوتی ہے کہ تمباکونوشی کرنےوالے افراد میں گلوکوز برداشت نہ کرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے جو ذیابیطس کے مرض کی شروعات ہیں۔ چار ہزار پانچ سو بہتر افراد کو شامل تحقیق کیا گیا۔
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ تمباکو نوشی کرنے والوں کے ساتھ رہنے والے افراد میں بھی
قدرے کم پیمانے پر مگر ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے خطرات دیکھے گئے۔
برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں تجویز دی گئی ہے کہ تمباکو نوشی کے زہریلے اثرات سے انسانی لبلبہ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ لبلبہ انسانی جسم میں انسولین کی مقدار کو متوازن رکھنے کا کام کرتا ہے۔
تحقیق کے سربراہ پروفیسر تھامس ہوسٹن نے جن کا تعلق برمنگھم ویٹرنز افئیرز میڈیکل سینٹر، البامہ سے ہے، محقیقین کے ساتھ مل کر تمباکو نوشی کرنے والے، اسے چھوڑنے والے، تمباکو نوشی کے دھویں سے متاثر ہونے والے اور ایسے لوگ جنہوں نے کبھی تمباکو نوشی نہیں کی پر تحقیق کی۔
تحقیق کاروں نے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی کہ کتنے افراد کے جسموں میں گلوکوز کو برداشت نہ کرنے کی کیفیت ہے۔
تمباکو نوشی کرنے والے افراد کے جسم میں گلوکوز کو برداشت نہ کرنے کی کیفیت بہت زیادہ تھی اور ان میں سے بائیس فیصد افراد میں پندرہ سال کے عرصے کے دوران یہ کیفیت پیدا ہوئی۔
تحقیق میں شامل سترہ فیصد ایسے افراد جنہوں نے کبھی تمباکو نوشی نہیں کی لیکن وہ ایسے افراد کے ساتھ رہے جو تمباکو نوشی کرتے تھے، چنانچہ ان افراد میں بھی گلوکوز کو برداشت نہ کرنے کی کیفیت دیکھی گئی۔ ان کا موازنہ ان بارہ فیصد افراد سے کیا گیا جنہوں نے کبھی تمباکو نوشی نہیں کی یا ایسے افراد کے ساتھ نہیں رہے ان میں بھی محقیقین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرات پائےگئے۔
تمباکو نوشی سے ذیابیطس کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے
تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والوں کے ساتھ رہنا بھی ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے ایک اہم عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے اور اگر مزید تحقیق سے مذکورہ خدشے کی تصدیق ہو گئی تو پالیسی ساز اس بارے میں حاصل نتائج کو ’پیسو سموکنگ‘ کے بارے میں قانون سازی کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
برطانیہ میں ذیابیطس کی ماہر ذو ہیریسن کا کہنا ہے’ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ تمباکو نوشی کرنا یا اس کے دھوئیں میں رہنا خطرناک ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کی شرح میں وقت کے ساتھ بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ہمارے معمولات زندگی اس سلسلے میں اہم عنصر ہیں اور اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو بہت جلد ہم لوگوں میں آنکھوں کی بینائی کا کم ہونا یا پھر نوجوانوں میں ذیابیطس کی وجہ سے جسمانی اعضاء کو کاٹنے کا سلسلہ دیکھیں گے۔
تمباکو نوشی کے عمل کی حمایت کرنے والےگروہ ’فارسٹ‘ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے بہت سے عوامل ہیں۔ بالواسطہ تمباکو نوشی کے بارے میں بہت سی متضاد رپورٹیں ہیں لیکن ابھی تک کسی قسم کا کوئی ثبوت نہیں کہ بالواسطہ تمباکو نوشی کا صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ کسی کو زبردستی تمباکو نوشی کرنے والے افراد کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور اسی مقصد کے لیے فارسٹ گروپ نے تمباکو نوشی کے لیے ایک حصہ مقرر کرنے کے لیے رائے عامہ کو ہموار کیا تاکہ دھویں سے ان افراد کو بچایا جا سکے جو خود تمباکو نوشی نہیں کرتے۔

چرس کی ایک سگریٹ پھیپھڑوں کو تمباکو کی پانچ سگریٹوں جتنا نقصان پہنچاتی ہے

برطانوی طبی جریدے ’تھوریکس‘میں شائع ہونے والے اس مطالعاتی جائزے میں نیوزی لینڈ کے میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے بتایا کہ ان کی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ بھنگ کے استعمال سے پھیپھڑے مناسب طریقے سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔اس نقصان کی شرح میں اسی نسبت سے اضافہ ہو ا جس تناسب سے سگریٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ محققین نے 339 رضاکاروں کا تجزیہ کیا جنہیں چرس پینے والے ، تمباکو پینے والے، بھنگ اور تمباکو پینے والے اور نہ پینے والے گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔
بھنگ پینے والوں نے دم گھٹنے ، کھانسنے، اور چھاتی میں دباؤ کی شکایت کی جسے محققین نے پھیپھڑوں میں آکسیجن لانے والی چھوٹی نالیوں کو پہنچنے والے نقصان سے منسوب کیا۔

تاہم اس مطالعاتی جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پھیپھڑوں کی نالیوں کے پھیلنے کی ایک بیماری ایم فزیما صرف تمباکو کے استعمال سے لاحق ہوتی ہے

تمباکو کے نقصان کا کیسے پتہ چلا؟

پھیپھڑوں کے کینسر اور تمباکونوشی کے درمیان تعلق معلوم کرنے والے برطانوی سائنسدان سر رچرڈ ڈول کا بانوے سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے۔
وہ آکسفورڈ کے جان ریڈکلف ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ سر ڈول کا شمار دنیا کے معروف ترین پروفیسروں میں ہوتا تھا۔
ان کی وجہ شہرت انیس سو پچاس میں لکھا جانے والا ان کا تحقیقی مقالہ تھا جس میں انہوں نے تمباکونوشی کو پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ بتایا۔ اس تحقیق میں آسٹن بریڈفورڈ ہل بھی ان کے ساتھ تھے۔

جامعہ آکسفورڈ کے وائس چانسلر ڈاکٹر جان ہڈ نے کہا ہے کہ سر رچرڈ کی تحقیق نے دنیا میں لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائیں۔

انہوں نے کہا کہ سر ڈول کی پھیپھڑوں کے کینسر اور دِل کی بیماریوں کے بارے میں تحقیق گزشتہ پچاس سال میں برطانیہ میں تمباکونوشی میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

سر رچرڈ ڈول انیس سو بارہ میں ایک ڈاکٹر کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ ریاضی کے ایک امتحان میں فیل ہونے کے بعد انہوں نے طب میں تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے انیس سو سینتیس میں سینٹ تھامس میڈیکل سکول سے طب کی ڈگری حاصل کی اور رائیل آرمی میڈیکل کور میں شامل ہو گئے۔

سر ڈول کو طبی تحقیقاتی کونسل میں پھیپھڑوں کےکینسر میں اضافے کی وجہ معلوم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

ابتداء میں ڈول کا دھیان گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کی طرف گیا لیکن پھر انہوں نے تمباکونوشی کے رجحان میں اضافے پر توجہ دینی شروع کی۔ انہوں نے چھ سو مریضوں سے سوالنامہ بھروانے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ پھیپھڑوں کی بیماری سگریٹ نوشی کی وجہ سے بڑھی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی تحقیق کا دائرہ پورے ملک تک وسیع کر دیا۔

سر رچرڈ ڈول نے شراب نوشی کے ماں کے پیٹ میں بچوں پر اثرات اور مانع حمل ادویات کے اثرات کے بارے میں بھی تحقیق کی۔

سن دو ہزار میں اگست کے مہینے میں سر رچرڈ ڈول نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں پچاس برس قبل کی گئی ان کی تحقیق درست ثابت ہوتی تھی کہ سگریٹ نوشی میں کمی کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے کینسر میں بھی کمی ہوئی ہے۔

سر رچرڈ ڈول کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔