Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

ودی – فقہی احکام

ودی – فقہی احکام

مردانہ عضو تناسل سے خارج ہونے والی تین رطوبتوں میں سے زرد یا مٹیالے رنگ کی ایک رطوبت ودی کہلاتی ہے، جو بسا اوقات پیشاب سے پہلے یا بعد میں خارج ہوتی ہے۔

* ودی کے خارج ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتا، تاہم وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

مذی – فقہی احکام

مردانہ عضو تناسل سے خارج ہونے والی تین رطوبتوں میں سے ایک رطوبت مذی کہلاتی ہے، جو بالعموم شہوت کی صورت میں‌ منی سے پہلے خارج ہوتی ہے۔

مذی کا مقصد شہوت کی صورت میں منی کے خروج سے پہلے ذکر کی اندرونی دیواروں کو نرم کرنا ہوتا ہے تاکہ منی کے اچانک خروج سے انہیں‌ کوئی نقصان نہ پہنچے۔
 تا دیر جنسی خیالات میں گھرے رہنے والے لوگوں‌ کو اکثر مذی کے خروج کی شکایت رہتی ہے۔
 مذی کے خارج ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتا، تاہم وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

منی – فقہی احکام

مردانہ عضو تناسل سے خارج ہونے والی تین رطوبتوں میں سے سب سے اہم رطوبت منی کہلاتی ایک ہے، جو انسان کی افزائش نسل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

 پہلی بار منی کے خروج کے موقع پر شریعت اسلامی میں بچے کو بالغ قرار دے دیا جاتا ہے۔
 منی بالعموم شہوت کے ساتھ خارج ہوتی ہے، تاہم کبھی کبھار شہوت کے بغیر کسی بیماری یا پرمشقت کام کرتے ہوئے حادثاتی طور پر بھی منی کا خروج ممکن ہے۔
 شہوت کے ساتھ منی کے خارج ہونے سے غسل واجب ہو جاتا ہے۔

استحاضہ , فقہی احکام

استحاضہ فرج سے خارج ہونے والے اس خون کو کہتے ہیں جو حیض اور نفاس کے علاوہ ہو۔ (یہ کسی بیماری کی صورت میں ہو سکتا ہے، اس لئے اس کا علاج کروانا چاہیئے۔) حیض کا خون اگر 10 دن سے زیادہ جاری رہے تو پہلے دس دن حیض کے شمار ہوں گے اور باقی کے دن استحاضہ شمار ہوں گے۔ اسی طرح نفاس کا خون اگر چالیس دن سے بڑھ جائے تو بقیہ دن استحاضہ شمار ہوں گے۔

حیض اور نفاس کے برخلاف استحاضہ کے دوران میں عورت نمازیں پڑھ سکتی ہے، مگر اسے ہر فرض نماز کے لئے نئے سرے سے وضو کرنا ہو گا۔ اسی طرح استحاضہ کی شکار عورت روزے بھی رکھ سکتی ہے۔ اور اگر طبی نقطہ نظر سے کوئی مسئلہ نہ ہو تو شرع کی رو سے استحاضہ کے دوران مباشرت پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔

مستحاضہ عورت بھی حیض اور نفاس والی کی طرح قرآن مجید کی تعلیم دے سکتی ہے۔ اسے چاہیئے کہ وہ قرآن حکیم کا ایک ایک کلمہ سکھائے اور کلموں کے درمیان وقفہ کرے۔ نیز قرآن کے ہجے کرانا جائز ہے۔

نفاس (Puerperal Bleeding) , فقہی احکام

نفاس فرج سے خارج ہونے والے اس خون کو کہتے ہیں جو بچہ کی ولادت کے بعد آتا ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ مدت 40 دن ہے اور کم از کم مدت کا کوئی تعین نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی عورت کو بچہ کی ولادت کے موقع پر ایک دن بھی خون نہ آئے۔

حیض کی طرح ایام نفاس کے دوران مین بھی عورت نمازیں نہیں پڑھ سکتی اور روزے بھی نہیں رکھ سکتی۔ تاہم نفاس سے فارغ ہونے کے بعد وہ روزوں کی طرح نمازوں کی بھی قضا کرنے کی پابند ہے۔ حیض کی طرح نفاس کے دوران میں بھی مباشرت ممنوع ہے تاہم میاں بیوی کا ایک بستر میں‌ سونا اور بوس و کنار کرنا جائز ہے۔

ایام نفاس میں عورت کے ہاتھ، پاؤں، منہ اور پہنے ہوئے کپڑے پاک ہوتے ہیں، بشرطیکہ خشک ہوں۔ البتہ جس جگہ، بدن یا کپڑے پر خون لگ جائے وہ جگہ ناپاک ہو جاتی ہے۔ اس کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہے۔ نفاس والی عورت کے ساتھ دوسری عورتوں کا، اس کی اولاد کا، اس کے محرموں کا اٹھنا بیٹھنا منع نہیں یہ یہودیوں اور ہندوؤں میں دستور ہے کہ نفاس والی عورت کو منحوس خیال کرتے ہیں اور اسے اچھوت بنا کر چھوڑ دیتے ہیں کہ نہ وہ کسی برتن کو ہاتھ لگائے نہ وہ کسی کپڑے کو چھوئے۔ شریعت اسلامیہ میں ایسا نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو بلند مقام دیا ہے۔

امام ابن عابدین شامی بیان کرتے ہیں: حیض ونفاس والی عورت کا کھانا پکانا، اس کے چھوئے ہوئے آٹے اور پانی وغیرہ کو استعمال کرنا مکروہ نہیں ہے۔ اس کے بستر کو علیحدہ نہ کیا جائے کیونکہ یہ یہودیوں کے فعل کے مشابہ ہے، حیض و نفاس والی عورت کو علیحدہ کر دینا کہ جہاں وہ ہو وہاں کوئی نہ جائے، ایسا کرنا درست نہیں۔

(رد المحتار علی در المختار، 1 : 194)

حیض کی طرح نفاس کی صورت میں بھی قرآن مجید کی تعلیم دینے والی معلمات کے لئے جائز ہے کہ وہ قرآن حکیم کا ایک ایک کلمہ سکھائیں اور کلموں کے درمیان وقفہ کریں۔ نیز قرآن کے ہجے کرانا جائز ہے۔

حیض (menses) – فقہی احکام

حیض، ایام، ڈیٹ، ماہواری، طمث، مینزز

حیض فرج سے خارج ہونے والے اس خون کو کہتے ہیں جو بالغہ اور صحت مند عورت کو ہر مہینہ آتا ہے۔

حیض کی کم از کم مدت تین دن اور تین راتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اور دس راتیں ہیں۔

ایام حیض کے دوران حائضہ پر نمازیں معاف ہوتی ہیں البتہ رمضان المبارک کے روزوں کی قضا واجب ہے۔ حیض کے دوران مباشرت بھی ممنوع ہے تاہم میاں بیوی کا ایک بستر میں‌ سونا اور بوس و کنار کرنا جائز ہے۔

ایام حیض میں عورت کے ہاتھ، پاؤں، منہ اور پہنے ہوئے کپڑے پاک ہوتے ہیں، بشرطیکہ خشک ہوں۔ البتہ جس جگہ، بدن یا کپڑے پر خون لگ جائے وہ جگہ ناپاک ہو جاتی ہے۔ اس کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہے۔ حائضہ عورت کے ساتھ دوسری عورتوں کا، اس کی اولاد کا، اس کے محرموں کا اٹھنا بیٹھنا منع نہیں یہ یہودیوں اور ہندوؤں میں دستور ہے کہ حیض والی عورت کو اچھوت بنا کر چھوڑ دیتے ہیں کہ نہ وہ کسی برتن کو ہاتھ لگائے نہ وہ کسی کپڑے کو چھوئے۔ شریعت اسلامیہ میں ایسا نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو بلند مقام دیا ہے۔

حضرت فاطمہ بنت منذر رضی اﷲ عنہا سے حدیث مبارکہ مروی ہے

عَنْ أَسْمَآءَ بِنْتِ اَبِي بَکْرٍ إنَّهَا قَالَتْ : سَأَلَتْ رَّسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اَرَاَيْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَهَا الدَّمُ مِنَ الْحَيْضَةِ کَيْفَ تَصْنَعُ؟ قَالَ : إِذَا أَصَابَ إِحْدَاکُنَّ الدَّمُ مِنَ الْحَيْضِ فَلْتَقْرِصْه ثُمَّ لِتَنْضَحْهُ بِالْمَاءِ ثُمَّ لِتُصَلِّ

(ابوداؤد، 1 : 150)
ترجمہ
حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض گذار ہوئیں : یا رسول اﷲ! جب ہم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جائے تو کیا کرے؟ فرمایا : جب تم میں سے کسی کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو اسے کھرچ دے پھر اسے پانی سے دھو دے اور پھر نماز پڑھ لے۔

امام ابن عابدین شامی بیان کرتے ہیں: حیض والی عورت کا کھانا پکانا، اس کے چھوئے ہوئے آٹے اور پانی وغیرہ کو استعمال کرنا مکروہ نہیں ہے۔ اس کے بستر کو علیحدہ نہ کیا جائے کیونکہ یہ یہودیوں کے فعل کے مشابہ ہے، حیض والی عورت کو علیحدہ کر دینا کہ جہاں وہ ہو وہاں کوئی نہ جائے، ایسا کرنا درست نہیں

(رد المحتار علی در المختار، 1 : 194)

حیض کی حالت میں قرآن مجید کی تعلیم دینے والی معلمات کے لئے جائز ہے کہ وہ قرآن حکیم کا ایک ایک کلمہ سکھائیں اور کلموں کے درمیان وقفہ کریں۔ نیز قرآن کے ہجے کرانا جائز ہے۔

عورت حالت حیض میں مہندی لگا سکتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے : حضرت معاذہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے دریافت کیا : کیا حائضہ مہندی لگا سکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا : ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں مہندی لگاتیں تھیں، آپ ہمیں اس سے منع نہیں فرماتے تھے۔ ابن ماجہ، 1 : 357

جنابت کے احکام

جس شخص پر غسل واجب ہو اسے جنبی کہتے ہیں۔ حالت جنابت میں مبتلا شخص کے بارے میں شریعت کے احکامات درج ذیل ہیں جنبی اور حائضہ کے لئے قرآن مجید پڑھنا ممنوع ہے، خواہ وہ ایک آیت ہی کیوں‌ نہ ہو۔
 جنبی کے لیے قرآن حکیم کو چھونا بھی حرام ہے۔
 جنبی کے لیے ایسی انگوٹھی اور لاکٹ (ہار) کو جس پر قرآنی آیت یا حروفِ مقطعات لکھے ہوں پہننا حرام ہے۔
 جنبی کا مسجد میں داخل ہونا حرام ہے۔
 جنبی کا دینی کتابوں کو طہارت کے بغیر ہاتھ لگانا اور پکڑنا حرام ہے۔
 وہ تمام شرعی امور جن کی بغیر وضو انجام دہی ممنوع ہے، حالت جنابت میں ان کا کرنا حرام ہے۔
 جس گھر میں جنبی ہو اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے