Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

چکنی جلد کی صفائی کے لیے

 

چکنی جلد کی صفائی کے لیے

چکنی جلد کی صفائی کے لیے

اورجب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ( اللہ ) مجھے شفا دیتا ہے

ایک لیموں کا چھلکا پیس کر اس میں ایک چائےکا چمچ گلیسرین اور ایک چمچ عرق گلاب ملا کر کریم تیار کر لیں۔ رات کو سونے سے پہلے پھٹی ہوئی ایڑیوں پر لگا کر صبح پیر دھو لیں۔ پھٹی ہوئی ایڑیاں ٹھیک ہو جائیں گی۔
چکنی جلد کی صفائی کے لیے ایک لیموں کے رس میں ایک کھانے کا چمچ بیسن اور دو چائے کے چمچ عرق گلاب ملا کر ماسک بنا لیں اور چہرے پر لگا کر 10 منٹ بعد دھو لیں۔

ایک لیموں کے رس میں ایک چائے کا چمچ شہد ملا کر ماسک بنا لیں۔ اور گرمی کے موسم میں دھوپ سے پڑ جانے والے نشان پر لگائیں۔ تھوڑے دنوں میں نشان ہٹ جائیں گے۔

لیموں کی چھلکوں‌کو پیس کر اس میں‌ روغن بادام یا پیٹرولیم جیلی ملا کر آنکھوں کے گرد لگائیں اور چند منٹ مساج کریں۔ پھر ململ کے کپڑے کو عرق گلاب میں بھگو کر اس سے صاف کر لیں۔ آنکھوں کے گرد پڑی جھریاں ختم ہو جائیں گی۔
گرمیوں میں چھرے کی چکنائی ختم کرنے کے لیے تھوڑے سے بیسن میں‌لیموں کا رس ملا کر ماسک بنا لیں‌اور میک اپ سے 15 منٹ پہلے لگا لیں۔ پھر عرق گلاب سے دھو کر میک اپ کریں اس طرح میک اپ ذیادہ دیر تک قائم رہے گا۔

ناک سے سیاہ کیلوں کی صفائی کے لیے کسی بھی کولڈ کریم سے مساج کریں پھر اسے روئی سے صاف کر لیں۔ اب لیموں کے رس دار چھلکے کو ناک پر آپستہ آہستہ رگڑیں اور کیلوں کو دبا کر نکال لیں۔ اس طرح آسانی سے نکل آئیں گے۔‌
اگر رنگ کالا ہو تو 2 چمچ بیسن میں 1 چمچ ہلدی اور تھوڑا سا لیموں کا رس ملا کر ماسک بنا لیں اور چہرے پر لگائیں۔ 10-15 منٹ بعد دھو لیں‌۔

مرد وخواتین کے پاؤں کي تندرستي اور خوبصورتي کے لئے

مرد وخواتین کے پاؤں کي تندرستي اور خوبصورتي کے لئے

مرد وخواتین کے پاؤں کي تندرستي اور خوبصورتي کے لئے

 

 

مرد وخواتین کے پاؤں کي تندرستي اور خوبصورتي کے لئے

پاؤں کي تندرستي اور خوبصورتي کے لئے صيح ناپ کا جوتا پہنيں، غلط ناپ کا جوتا پہننے سے پاؤں ميں کئي طرح کي پريشانياں پيدا ہوجاتي ھيں، تنگجوتے پاؤں کي جلد کو سخت بناتے ھيں ايڑھيوں اور نيز انگليوں پر گانٹھيں بناتے ھيں۔
لگاتا زيادہ دير تک کھڑے رہنے سے پاؤں ميں سوجن آجاتي ہے، ليکن لگاتار چلنے سے پاؤں کو کوئي نقصان نہيں ھوتا۔
موزے جراب صيح ماپ کے پہنيں، تنگ موزے پہننے سے پنجے اور پٹھے کس جاتے ھيں، جس سے خون کے دورے ميں رکاوٹ پيدا ہوتي ہے اور پاؤں کي خوبصوتي خراب ہو جاتي ہے۔
ايک ہي موزے کو کئي دنوں پہننے سے پاؤں ميں انفيکشن ہو جاتي ھے، پاؤں سے بدبو بھي آنے لگتي ہے، اس لئے روزانہ صاف دھلے ہوئے موزے پہنيں۔
کھڑے ہونے پر دونوں پاؤں پر يکساں زور دے کر کھڑے ہونے سے پاؤں کے پٹھوں پر زور پڑتا ہے، جس سے پاؤں کي خوبصورتي بگڑ جاتي ہے۔
پاؤں ميں ھميشہ نمي رہنے سے فنگل انفيکشن ہوجاتا ہے جس سے پاؤں کي انگلياں کو درميان کي جلد سفيد پڑ جاتي ہے، اس ميں خارش اور درد ہونے لگتا ہے، غسل کے بعد انگليوں کے درمياني حصے کو اچھي طرح صاف کريں، جس سے وہاں نمي نہ رہ جائے۔
باہر سے لوٹنے کے بعد پاؤں کو پاني سے اچھي طرح دہوليں، جس سے پاؤں پر جمي، دہول، مٹي اور پسينہ اچھي طرح صاف ہو جائے۔
Read More

خواتین کےخوبصورت بال

خواتین کےخوبصورت بال

خواتین کےخوبصورت بال

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
    خواتین کےخوبصورت بال

بالوں میں اگر مہندی اور تیل ڈالا جائے اور ایک گھنٹے بعد شیمپو کیا جائے تو بال بہت چمکدار اور صحت مند نظر آئیں گے۔اس کو سب سے اچھا کنڈیشنر کہا گیا ہےتیل،لیموں اور انڈہ (آئلی بالوں کے لیے انڈہ بہتر رہتا ہے)
تیل۔لیموں اور دہی (خشک بالوں کے لئے)یہ سب بالون کی خوبصورتی۔چمک۔ کو بڑھاتے ہیں

لمبے اور گھنے بالوں کے لیے

مہندی کے پتے،بیری کے پتے(تازہ)، نیم کے پتے(تازہ) تینون کا ہم وزن لیں کر پیس لین چاہین تو تیل بھی ڈال سکتے ہین تھوڑا سا اور لیپ لگا لیں۔ 5-4 ماہ کر کے دیکھیں نتیجہ زبردست ہوگا۔

اگر کسی کو یہ سارا بکھیڑا نہیں پالنا وہ ایک اور آسان سی چیز کر لے
نیم کا تیل(اس کی بو برداشت کرنا تھوڑا مشکل ہے) لیکن اس کے نتائج بہت اچھے ہیں
کالے بال،چمکدار،گھنے اور لمبے

مرد وخواتین چہرے کے داغ دھبوں کے لئیے

مرد وخواتین چہرے کے داغ دھبوں کے لئیے

مرد وخواتین چہرے کے داغ دھبوں کے لئیے

 

 

 

 

 

 

مرد وخواتین چہرے کے داغ دھبوں کے لئیے

مالٹے کے چھلکے تھوڑے سے دودھ میں بھگو دیں

چند گھنٹے بعد چھلکوں‌ کو اسی دودھ میں‌ پیس کر باریک کر لیں

اب اسے ابٹن کی طرح استعمال کریں‌،، داغ، دھبے صاف ہو جائیں‌گے اور جلد بھی نکھر جائے گی
/////////////
آگ کی جلن دور کرنے کے لیے

جلی ہوئی متاثر جگہ پر گاجر ،آلو یا کچا دودھ لگنے سے بھاپ کی جلن دور ہو جاتی ہے ۔

جلے ہوئے حصہ پر تیل یا گلیسرین لگایا جائے تو پھر آبلے نہیں‌ پڑیں‌گے ۔
خوبصورت پاؤں کے لئیے پاؤں کو خوبصورت بنانے کے لیے ایک تو جو ضروری بات ہے وہ یہ کہ آپ جب نہا کر نکلیں‌ تو کوئی کریم یا لوشن, سے مساج کریں اگر ہو سکے تو گلیسرین کو ہتھیلی پر لگا کر اس میں چند قطرے پانی ملا کر کر لگا لیںاگر پھر بھی ایڑیاں‌پھٹیں تو کسی ٹب میں‌ گرم پانی لیں تھوڑا‌ سا اس میں کوئی بھی شیمپو اور تھوڑی مقدار میں نمک ڈال کر پاؤں‌ اس میں‌ رکھیں ،،
تقریباً پندرہ منٹ بعد صاف کر کے کپڑے سے تھڑا رگڑیں‌ اور کریم لگا لیں اور ہلکا سا مساج کریں اور پھر دھو لیں
سیاہ دانے اورداغ دھبے دورکرنے کے لئے

۔انگورکے رس کوبھی چہرے پرماسک کے طوراستعمال کیا جاتا ہے سیاہ دانے اورداغ دھبے دورکرنے کے لئے رنگت میںنکھارلانے کے لئے ابٹن کا استعمال بھی مفیدہے۔ابٹن بیسن،نارنگی کے پسے ہوئے چھلکے اوربادام کا پاﺅڈرملاکرگھرمیں بھی تیارکےاجاسکتا ہے جوخشک جلد کے لئے مفید ہے۔یادرکھئے چہرے کی جلد بہت حساس ہوتی ہے اس کی مناسب دیکھ بھا ل بہت ضروری ہے رنگ اگرسانولابھی مگرجلد داغ دھبوںسے پاک ہوتوآپ خاصی پرکشش نظرآئیںگی۔
کچھ خواتین کے چہرے پرباریک باریک دانے نکلتے ہیں جن میں سفیدموادہوتا ہے۔چہرے پرباریک دانے اکثرمعدے کی تیزابیت کی وجہ سے نکلتے ہیں ایسی خواتین کوچاہئے کہ وہ اپنی خوراک پربھرپورتوجہ دیں۔صبح نیم گرم پانی میں لیموں نچوڑکرپینے سے بہت فائدہ ہوگا۔اگرہم قدر تی اشیاءمثلاً پھلوںکے رس کوچہرے پرلگائیںتوجلد بہت فریش محسوس ہوگی،جیسے کینو، کیلا، چیکو، خر بوزہ وغیرہ۔اسی موسم میں اکثرخواتین اورٹین ایجزکوچہرے پرکیل مہاسے اوردانے نکلنے کی شکا یت رہتی ہے۔ایسی جلدکواچھی خوراک کے ساتھ ساتھ کلینزنگ اورفیشیل کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔کیل مہاسوںکے لئے ماسک بھی فائدے مندہوتاہے۔میدہ ،لیموں،کھرے کا رس، ٹماٹر اورنڈے کی سفیدی کوملاکرایک مرکب بنالیں اوراسے چہرے پرلگائیں پھرپندرہ بیس منٹ بعد منہ دھولیں اس کے علاوہ نیم کے پانی کے پتوں میں ابال کراس کوچھان لیںلیکن نیم کے پا نی کوجلدپرہرگز نہ رگڑیں کیو نکہ اس سے کھجلی پیداہوتی ہے۔بالائی میں لیموں کا عرق کے چند قطرے ملاکرچہرے پرلگانے سے جلد میں نرمی اورتروتازگی پیداہوتی ہے۔کچھ خواتین کے چہر ے پردھوپ کی وجہ سے دانے نکلتے ہیں اس کی دووجوہات ہیں یاتوانہیں دھوپ سے الرجی ہوتی ہے یا پھرپسینہ زیادہ آتا ہے ایسی خواتین کودن میں کم از کم تین بارچہرہ دھونا چاہئے چہرے کے مسام بندکرنے کے لئے کھیرے کا رس بہت فائدہ مند ہے۔

خوا تین کی خوبصور تی اور دل کشی کےلیے

خوا تین کی خوبصور تی اور دل کشی کےلیے

خوا تین کی خوبصور تی اور دل کشی کےلیے

 
    خوا تین کی خوبصور تی اور دل کشی کےلیے
 
 
قدرتی طریقے سے چہرے کی حفاظت
خوا تین کو اپنی خوبصور تی اور دل کشی کا احسا س زمانہ قدیم سے ہے ۔ وہ اپنی اچھی صحت کی طر ح چہرے کو حسین بنانے کے لیے گھریلو نسخے استعمال کر تی تھیں ۔ مو جو دہ دور کی پڑھی لکھی خوا تین ان نسخو ں کو آزما نے کی بجائے بیو ٹی پا رلروں کا رخ کر تی ہیں ۔ ان کے خیا ل میں وقت بچانے اور زیادہ خوبصورت نظر آ نے کا یہ بہترین حل ہے ۔ کبھی کبھار بیوٹی پا ر لر سے تیا ری یا کسی کریم کا استعمال شاید آپ کی جلد کو نقصان نہ پہنچائے مگر مسلسل مصنو عی چیزوں کے استعمال سے چہرے کی جلد خرا ب ہو جا تی ہے اور اس پر داغ دھبے نما یا ں نظر آنے لگتے ہیں ۔ فر ق صر ف اتنا ہے کہ پرانے وقتوں کی خواتین گھریلو نسخے آزما کر ہمیشہ کے لیے اپنی جلد کو خوبصورت بنا تی تھیں ۔ ان کے چہرے کی چمک اور قدرتی سر خی مائل رنگت دیکھنے کے قابل ہو تی تھی۔ اپنے چہرے کی خوبصور تی کے لیے وہ مصنو عی چیزو ں کا سہا را بھی لیتی تھیں ۔ ا سکی وجہ یہ ہو تی تھی کہ ان کی کا سمیٹک باورچی خانے سے مہیا ہو جا تی تھیں اور بغیر خر چ کیے وہ
اپنی جلد کی قدرتی طریقو ں سے حفا ظت بھی کرلیتی تھیں۔ آج کل مختلف اشتہارات کے ذریعے خواتین کو گو را رنگ کرنے والی کریموں کی طر ف ما ئل کیا جا رہا رہے ۔ یہ کریمیں بیوٹی پارلرو ں میں استعمال کی جا تی ہیں ۔ ان کے استعمال سے رنگ تو صاف ہو جا تا ہے لیکن تھوڑے عرصے بعد جلد خرا ب ہو نے لگتی ہے ۔
اس طر ح چہرے کو مصنو عی طریقے سے سر خی مائل کرنے کے لیے بلشر (Blusher )کا رواج بھی ہے ۔ خوا تین اس کے صحیح استعمال سے مطلوبہ نتا ئج حاصل کر لیتی ہیں لیکن یہ سلیقہ سب میں نہیں ہو تا کہ بلشر کی کونسی قسم استعمال کی جائے ۔ شیڈ سلیکشن کا بھی مسئلہ ہوتا ہے تا کہ مصنو عی پن کا اظہا رنہ ہو ۔ میک اپ سے ہم وقتی طو ر پر اپنے چہرے کو اپنی پسند اور کپڑوں کے کلر کے حسا ب سے خوبصورت بنا لیتے ہیں مگر کتنی خوا تین ہیںجو رات کی تقریبات سے واپسی پر اپنے چہرے کا میک اپ صاف کر تی ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ جدید کاسمیٹکس سے حوصلہ افزاءنتائج سامنے آرہے ہیں مگر چہرے کو میک اپ سے دل کش بنانے سے بہتر ہے کہ قدرتی طریقے سے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے چہرے کی خوبصورتی کو دائمی طور پر صحت مند بنا یا جائے ۔
بہت کم خوا تین کو علم ہو گا کہ بیوٹی پا رلر چلا نے والی بعض خوا تین دوسروں کو تو مصنوعی طریقو ں سے خوبصورتی اور رعنائی بخشتی ہیں مگر اپنی جلد کو قدرتی طریقو ں سے دلکش بنا تی ہیں ۔ اس کا اندا زہ مجھے اداکا رہ ما ڈل زارا اکبر سے مل کر ہوا ۔ ایک مقامی اخبا ر کے لیے جب میں ان کا انٹر ویو کرنے لگی تو مجھے احساس تھا کہ وہ ما ہر بیوٹیشن بھی ہے اور دوبئی میں بہت بڑا بیوٹی پا رلر چلا رہی ہیں ۔ ایک سوال کے جوا ب میں انہو ں نے بتا یا کہ اپنی سما رٹنس کے لیے میں اپنی خوراک کا خیا ل رکھتی ہوں۔ باقاعدہ ورزش کر تی ہوں ، خو ب پانی پیتی ہو ں ، سلا د اور سبزیو ں کا زیادہ استعما ل کرتی ہو ں ۔ چونکہ مجھے زیا دہ وقت گھر سے با ہر گزارنا پڑتا ہے ۔ اس لیے دھو پ سے بچا ﺅکے لیے چھتری استعمال کر تی ہوں اور سب سے بڑ ھ کر یہ کہ میں امپورٹڈ کاسمیٹکس استعمال نہیں کر تی ہو ں ۔ جیسا کہ عام خواتین کو امپورٹڈ کریمیں خریدنے اور استعمال کرنے کا کریز ہو تاہے کہ وہ ہر چیز باہر کی خریدیں ۔ با ہر کی چیز یں باہر کے موسم کے حساب سے بنتی ہیں جو یہا ں کے مو سم میں درست نہیں رہتیں جبکہ اس با ت کی طر ف کسی کا دھیا ن ہی نہیں جا تا اور لو گ مہنگی سے مہنگی امپورٹڈ چیزیں خرید کر خو ش ہو تے ہیں کہ وہ میڈ ان فلا ں استعمال کرتے ہیں حا لا نکہ یہ فخر کی بات نہیں بلکہ وہ دھو کے میں رہ کر اپنا ہی نقصان کر تے ہیں ۔
////////////
چہرے کی خوبصوتی کے لیے پھل اور سبزیاں کھائیں
آئیے آج آپ کو بھی کا سمیٹک کی دکا ن کی بجائے باورچی خانے میں لے چلیں ۔کھا نے کی چیزو ں میں دودھ ، پھل اور سبزیا ں جتنی صحت کے لیے مفید ہیں اتنی ہی جلد کے لیے بھی فا ئدہ مند ہیں ۔ چہرے کی خوبصور تی اور رعنائی کے لیے سیب، تر بو ز ، خر بو زہ ، کھیرا ، کیلا سبھی پھل مفید ہیں ۔ اسی طر ح ہم مختلف موسمی سبزیو ں سے اپنے چہرے کی جلد کو تندرست ، گورا اور خوبصورت بنا سکتے ہیں ۔ مو سم گرما میں گر م خشک ہوائیں چہرے کی تر و تازگی کو ختم کر دیتی ہیں ۔ خصو صاً ملازمت پیشہ خواتین یا وہ خواتین جن کا زیاد ہ عرصہ گھر سے باہر گزرتا ہے ۔چہرے کو دھوئیں اور گرمی کی شعاعوں سے بچائیں
دھو پ کی تیز شعاعیں جب ان کے چہرے پر پڑتی ہیں تو اس سے نہ صرف یہ کہ ان کے چہرے کی رنگت پر اثر پڑتا ہے بلکہ خشک جلد پر بعض اوقات باریک با ریک جھریا ں بھی نمو دار ہونے لگتی ہیں۔ پھر جلد کی چمک دمک کو بر قرار کھنے کے لیے وہ مختلف کریمیں اور لو شن استعمال کر تی ہیں ۔ جو بعض اوقات انہیں موا فق نہیں آتیں اور چہرہ مزید خرا ب ہو جا تا ہے۔ گرمیو ں کے مو سم میں ائیر کنڈیشنگ ، فضائی آلو دگی ، دھواں اور جدید طرز کا دبا ﺅ بھی جلد کو تبا ہی کے دہا نے تک پہنچانے کے لیے کافی ہے ۔ اس کے لیے آپ کو چہرے پر ما سک لگانا پڑے گا ۔ خصو صاً اگر آپ را تو ں کو دیر تک جا گتی ہیں یا ذہنی دبا ﺅ کا شکا ر رہتی ہیں ۔ سو ز ش والی اور چٹخنے والی جلد کے لیے بہترین ماسک کھیرا ، سبز انجیر اور گھیکوار کا گو دہ ( ایلو ویرا ) ہے ۔ یہ آپ کے سو چنے او ر سمجھنے کی طا قت کو بھی توانا کر تے ہیں ۔ روکھی جلد کے لیے شہد ، میدہ ، عرق گلا ب اور لیمو ں کو ہم وزن ملا کرپیسٹ بنا کر چہرے پر مل لیں اور سوکھ جانے پر اسے کھرچ کر صاف کر لیں۔ ایک عمدہ فیس ما سک ملتانی مٹی ، عرق گلا ب سے مل کر بنتا ہے ۔ یہ چہرے کے گر د و غبار کو صاف کر دیتا ہے اور چکنی جلد کے لیے خاص طور پر فائدہ مند ہو تا ہے۔ مو جو دہ دور میں جہاں بہت سی چیز وں میں تبدیلیا ں آئی ہیں وہا ں ہماری طر ز زندگی اور غذائی عا دا ت میں تبدیلیاں آئی ہیں ۔ اب ہم غذا کو زیا دہ بھو ن کر اس کی غذائیت ختم کر کے اپنے دستر خوان کو ذائقہ دار تو بنا تے ہیں مگر غذا کا اصل کا م ہمارے جسم کی نشو و نما اور دیکھ بھال کے ساتھ بیما ریو ں کے خلا ف قوت مدا فعت دینا ہے اور یہی کام ہم غذا سے نہیں لیتے ۔ ہمار ے جسم کا ایک ایک ذرہ اس خوراک سے بنتا ہے جو ہم نے کسی بھی وقت استعمال کی تھی ۔ خوراک ہی ہمارے جسم میں طاقت پیدا کر تی ہے ۔ یہ نئے رگ و ریشے بنا تی ہے، پرانے رنگ و ریشے کی مر مت کر تی ہے ۔ اس لیے ہمیں غذا کے معاملے میں خاص محتا ط رویہ اختیا ر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس قسم کی خوراک ہمارے لیے فا ئدے یا نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔ بعض خوا تین رنگت کو گو را کرنے کے لیے مختلف کریمیں استعمال کرتیں ہیں تو ان کے لیے عرض ہے کہ سانولی رنگت کو گورا نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ سانولی رنگت میں بہت کشش ہو تی ہے جس سے گوری لڑکیاں محروم ہوتی ہیں تو رنگت کو گورا کرنے کے لیے جتن کرنا بیکار ہے ہا ں البتہ سانولی لڑکیا ں چہرے کو نکھا رنے کے لیے آزمو دہ نسخو ں کو استعمال کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتی ہیں ۔
سانولی رنگت کے لیے آز مودہ نسخہ
چنے کی دال اور ہلدی کا مرکب صدیو ں سے ابٹن کے طور پر استعمال ہو تا آیا ہے ۔ را ت کو چنے کی دال دھو کر بھگو دیں۔ صبح ہلدی کی گا نٹھ کے ساتھ پیس لیں ۔ جب عمدہ کریم بن جا ئے تو چینی کے پیالے میں ڈال کر لیمو ں کا رس ایک چمچ اس میں شامل کر دیں اب اس مر کب کو جسم اور چہرے پر ملیں ۔ بدن کی حدت سے مر کب خشک ہو جائے گا ۔ تو کسی اچھے صابن سے غسل کرلیں ۔ اس سے سانولی رنگت کا نکھر جانا لا زمی ہے ۔
٭ میٹھے با دام پیس کر دودھ یا ملائی کے ساتھ پیسٹ بنا کر چہرے پر لگائیں ۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد جب یہ خشک ہو جائے تو اس کو مل کر اتا ر لیں اور چہر ہ دھو لیں ۔ رنگت نکھر آئے گی ۔ جلد نرم و ملا ئم ہوجائے گی ۔ ٭پالک یا کوئی بھی سبزی کو ابا لنے کے بعد اس کے پانی کو محفوظ کر لیں پھر اس کو ٹھنڈا کر کے چہرے پر ملیں ٭ قد ر تی دہی چہرے پر ملیں ۔ دس منٹ بعد چہرہ پانی سے دھولیں ۔ ٭ کھا نے کی میز پر بچے ہوئے پھلو ں کو مکس کر کے جوس نکال کر چہرہ پر لگالیں اور پھر دس منٹ بعد چہرے دھولیں٭مکئی اور جو کا آٹا ہم وزن لے کر اس میں آدھے لیمو ں کا رس ملا کر لئی سی بنا لیں ۔اس لئی کو گر دن ، چہرے اور ہاتھوں پر ملیں ۔ آدھے گھنٹے بعد نیم گرم پانی سے دھو لیں ۔ یہ عمل ہفتہ میں دو مر تبہ کریں ٭دھوپ میں نکلنے سے رنگت سانولی ہو جائے یا دھبے پڑ جائیں تو انگو ر کا رس چہرے پرملیں ۔ جلد پر رس خشک ہو جائے تو چہرہ دھو لیں۔
سبزیو ں اور پھلو ں کے ساتھ دودھ کا ذکر بھی ضروری ہے ۔ دودھ تیزابیت کو دور کر تا ہے ۔ گرمیو ں میں سنو لائے ہوئے چہرے کے لیے دودھ خاص طور پر مفید ہے ۔
(1) چو تھا ئی گلا س دودھ لیں اور اس میں ایک چٹکی کھانے کا سو ڈا ملا لیں ۔ ایک روئی کے ٹکڑے کو اس محلول میںبھگو کرچہرے کو تھپتھپائیں چہرے کی سنو لاہٹ اور تپش دور ہو جائے گی
(2) آدھے گلا س دودھ میں ایک لیمو ں کا عرق ملا لیں۔ رات کو سونے سے پہلے اس محلو ل سے چہرہ دھو ئیں ۔ جلد ترو تا زہ اور رنگت صاف ہو جائے گی ۔
(3) خشک جلد کے لیے دودھ اور شہد کا محلول بناکر اس میں پسے ہوئے با دام شامل کرکے لیپ تیا ر کریں ۔یہ لیپ چہرے پر آدھا گھنٹہ لگا رہنے دیں ۔ اس لیپ سے جلد چکنی اور نرم و ملا ئم ہو جاتی ہے ۔
(4) دودھ میں خمیر ملا لیں۔ ا س کا لیپ روغنی جلد کے لیے فا ئدہ مند ہے۔
خواتین بے حد محنت اور وقت صرف کر کے خود کو سنوارتی ہیں ان کی تمام تر محنت کا مقصد خوبصورت اور پرکشش نظر آنا ہوتا ہے یہ ایک حقیقیت ہے کہ قدرت نے صنف نازک کو حسن عطا کیا تو ساتھ ہی انکی حفاظت اور تزئین و آرائش کا شعور بھی عطا کیا یہ شعور وقت ،حالات اور زمانے کی تیز رفتار ترقی کے اعتبار سے تبدیل ہوتا رہتا ہے جو فیشن کہلاتا ہے اور پھر موسم بھی اثر انداز ہوتے ہیں یوں تو سبھی موسم اچھے ہوتے ہیں لیکن گرمیوں کے موسم حبس اور تیز گرمی ہونے سے جلد پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہین اور میک اپ کے اسٹائل اور لوازمات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں کبھی ہلکے شیدز اور کبھی گہرے ،خواتین کو ہمیشہ اپنے چہرے کی ساخت اور رنگت کی مناسبت سے ہی میک اپ کرنا چاہیئے
موسم گرما میں جلد کے اپنے مسائل ہیں خاص طور پر جلد اگر چکنی ہو تو تیل پونچھ کر تنگ آجاتے ہین سورج کی ھدت جلد کو نہ صرف جھلسا دیتی ہے بلکہ رنگت بھی سیاہ ہو جاتی ہے خواتین کی اکثریت آدھی چپل یا سینڈل کے نشان بن جاتے ہیں جو بہت برے معلوم ہوتے ہیں آپ نے سنا ہو گا کہ مور ایک بہت خوبصورت جانور ہے اس کے پائوں بدصورت ہیں جن کو دیکھ کر وہ روتا ہے ایسے ہی کواتین اپنے چہرے کو تو سنوار لیں تو پائوں کی حفاظت نہ کریں تو بالکل ایسے ہی معاملہ ہو گا جیسے مور کا
گرمیوں کے موسم میں چہرے پر سے شادابی ختم ہوجاتی ہے جو کافی بدنما معلوم ہوتی ہے اسے نکھارنے اور تر و تازہ کرنے کےلئے پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں ٹھنڈی تاثیر والی چیزیں کھائیں ،گرمی کے موسم میں درجہ*ھرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے پسینہ زیادہ آتا ہے تا کہ جسم کا اندرونی درجہ حرارتنارمل رہ سکے اسکی وجہ سے جلد کو بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اس کے مسام کھل جاتے ہین ان میں میل کچیل جمع ہو کر بد نما دانے بناتے ہیں اسئ سے بچنے کےلئے کم از کم تین طار مرتبہ چہرہ دھوئیں گھر سے باہر نکلیں تو کوشش کریں کہ چھتری کا استعمال کریں
اگر حجاب یا اسکارف پہنین تو ہلکے رنگ کا یا سفید استعمال کریں کیونکہ سیاہ رنگ گرمی جذب کرتا ہے گلاسز اور سن بلاک لگانا نہ بھولیں ایک بار لگایا ہوا سن بلاک پورے دن کےلئے کافی نہیں ہوتا بلکہ بار بار فریش کرنا پڑتا ہے
آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ آپ کی جلد کیسی ہے چکنی ،خشک ،نارمل،یا ملی جلی ہر جلد کے اپنے مسائل ہوتے ہیں جو بھی پروڈکٹ خریدیں وہ جلد کی مناسبت سے خریدیں
اور خریدت وقت اس پر پروڈکٹ بننے کی راتیخ اور مدت ختم ہونے کی تاریخ ضرور دیکھیں عام طور پر میک اپ کی اشیاء ایک سال تک استعمال رہ سکتی ہیں
چکنی جلد: اسکی نشانی یہ ہے کہ ماتھا ،ناک،ٹھوڑی چکنی باقی چہرہ خشک ہوتا ہے چکنی جلد کی حامل خواتین کو عموما ،دانے کیل مہاسے،کی شکایت رہتی ہے گرمیوں میں تو ان میں اضافہ ہوجاتا ہے ان کےلئے ملتانی مٹی کا ماسک بہتریں ہے اسکے علاوہ نیم کے پتوں کو ابال کر پانی ٹھنڈا کرکے منہ دھوئیں تو مہاسوں میں کمی آ سکتی ہے
خشک جلد: خشک جلد والی*کواتین کی جلد گرمیوں میں نارمل رہتی ہے سردیوں میں اکڑ جاتی ہے داغ دھبے شھائیاں اور جھرئیاں ہونے لگتی ہیں ان*کواتین کےلئے شہد ،زیتون کا تیل،عرق گلاب ملا کر لگائیں تو جلد کی خوبصورتی برقرار رہتی ہے خشک جلد کےلئے جوکلینرز فیس واش استعمال کریں
نارمل جلد: یہ نہ زیادہ خشک نہ چکنی اس قسم کی جلد کےلئے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی ذرا توجہ اور احتیاط سے بھی اپنی خوبصورتی برقرار رکھ سکتی ہیں گرمیوں میں جب دھوپ میں سے آئیں*تو عرق گلاب کا چھڑکائو چہرے پر کر لیں اسپرے والے عرق گلاب بازار میں دستیاب ہیں اس کلے علاوہ کلیزنگ کریم استعمال کر سکتی ہیں اس کو گھر پر بنانے کے لئے ایک کھانے کا چمچ سوکھا دودھ اور چند قطرے عرق گلاب لے کر مکس کر لیں اور چہرے کے ساتھ ساتھ گردن پر بھی لگائیں کیونکہ کچھ خواتین گردن کی طرف توجہ نہیں دیتی
جس کی وجہ سے گردن کالی اور بری لگتی ہے چہرے سے ہم رنگ کرنے کےلئے یہ نسخہ بہت کارآمد ہے
ان سب باتوں کے علاوہ اگر چاہتی ہیں کہ آپ کی جلد تر وتازہ رہے تو آپ متوازن غذا کا استعمال کریں اور سمندری جھاگ تھوڑے سے لیمن جوس میں ملا کر لگائیں یا پھر بنفشہ کی پتیاں روغن بادام میں پیس کر لگائیں ہلکے ہاتھوں سے مساج کریں پانی* خوب پئیں موسم کے پھل کھائیں نیند پوری کریں کام کے ساتھ ساتھ اپنا خیال بھی رکھیں اپنے*آپ کو وقت دیں تو گرمیوں کے موسم میں بھی تر وتازہ اور فریش نظر آسکتی ہیںضروری نہیں کہ ہاتھوں کی جاذب نظر بنانے کیلئے لمبے ناخن رکھے جائیں نفاست سے فائل کئے ہوئے صاف ستھرے ناخن آپ کے ہاتھوں کو بہت سنوارا ہوا انداز عطا کرتے ہیں۔ ناخن آپ کی شخصیت کا اظہار ہوتے ہیں ٹوٹے ہوئے یادانتوں سے کترے ہوئے ناخن یا اکھڑی ہوئی نیل پالش آپ کی غفلت اور بے پرواہی کی آئینہ دار ہوتی ہے تو کیوں نہ آپ ہفتے میں ایک بار کچھ وقت نکال کر اپنے ہاتھوں کو شرمندگی کی بجائے اپنے لئے فخر کا باعث بنائیں۔ہمارے ناخن سے شروع ہوتے ہیں یہ حصہ میٹرکس کہلاتا ہے۔ یہاں پر نئے خلیے بنتے ہیں اور مردہ خلیے آگے دھکیل دئیےجاتے ہیں۔ یہ خلیے ہمارے ناخنوں کی ہموار اور سخت سطح بنتے ہیں یہ سطح کیوٹیکل کہلاتی ہے کیوٹیکل میٹریس کی حفاظت کرتی ہے اور ناخن کو جلد سے چپکائے رکھتی ہے تاکہ بیکٹریا وغیرہ اندر داخل نہ ہو سکیں۔ ناخنوں کو توانائی دوران خون ہی کے ذریعے پہنچتی ہے اس لیے غذا بھی ناخنوں کی صحت کیلئے بہت ضروری ہے۔ ناخنوں کی صحت مند رکھنے کیلئے وٹا من بی ۔ ٹو اور فولاد بہت ضروری ہے۔ یہ غذائی اجزاءہرے پتے والی سبزیوں مثلاً پالک اور گوشت وغیرہ میں پائے جانے ہیں۔ کیلشیم کی کمی سے ناخنوں میں سفید دھبے پڑ جاتے ہیں۔ اس کیلئے اپنی غذا میں دودھ اور انڈے شامل رکھیں ناخن ایک ہفتے میں تقریباً ایک ملی میٹر کی رفتار سے بڑھتے ہیں مگر یہ تناسب مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ بچوں، حاملہ خواتین اور گرم موسم میں ناخن زیادہ تیزی سے بڑھنے میں سردی کے موسم میں یا غذائی کمی سے ان کے بڑھنے کی رفتار سست ہو جاتی ہے عموماً جس ہاتھ سے زیادہ کام لیا جائے اس کے ناخن زیادہ تیزی سے بڑھتے ہیں اس لیے ہاتھوں اور انگلیوں کی باقاعدہ ورزش بہت ضروری ہے۔

ابتدائی نیل کٹر سے ناخنوں کی صحت اچھی ہوتی ہے۔ اور ان کی بڑھنے کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے۔
مینی کیور کئے ہوئے ناخن نہ صرف دلکش لگتے ہیں بلکہ زیادہ مضبوط اورزیادہ لمبے بھی ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ ہر ہفتے مینی کیور کریں۔ جب آپ نیل کنڈیشنگ کے طریقوں میں مہارت حاصل کر لیں تو ہر ہفتے 10 منٹ کا نیل شیپنگ روٹین کافی ہوتا ہے مگر آپ ہینڈ کریم کا استعمال اور کیوٹیکل صاف کرنا اپنے روزانہ کے معمولات میں شامل کر لیں۔ باقاعدگی سے حفاظت کے نتائج سے آپ خود حیران ہو جائینگے کیونکہ اس سے بدنما اور کترے ہوئے ناخنوں میں بھی واضح فرق نظر آتا ہے اور پہلے سے بہتر نظر آنے لگتے ہیں۔ تھوڑی سی کیوٹیکل کنڈیشنگ کریم ناخنوں کے بیس پر لگا کر آہستہ آہستہ مساج کرنے سے جلد موسچرائز ہو جاتی ہے کیوٹیکل نرم رہتی ہے اور چٹخنے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے اس کے علاوہ کمزور اور سوکھے ہوئے ناخنوں کو بھی افاقہ ہوتا ہے مساج سے ناخنوں کے بڑھنے کی رفتار ٹھیک رہتی ہے اور ان میں قدرتی گلابی پن بھی آجاتا ہے۔ اگر آپ کے پاس نیل کنڈیشنر نہیں تو مساج کا کام آپ ہینڈ کریم یا باڈی موسچرزر سے بھی لے سکتی ہیں۔ مسائل کا حل ہینگ نیل ناخنوں کے اطراف کے کیوٹیکل میں پڑے ہوئے تکلیف دہ کریک کو کہتے ہیں۔ عموماً یہ آپ کی عدم توجہ اور ناخن غلط کاٹنے کی وجہ سے ہوتے ہیں جیسے جیسے ناخن بڑھتا ہے آس پاس کی جلد اس کے ساتھ ساتھ کھینچتی ہے اور پھر پھٹ جاتی ہے اگر آپ بھی اس تکلیف کا شکار ہیں تو فوراً کیوٹیکل کاٹ دیں اور کیوٹیکل کریم کا مساج کریں تاکہ انفیکشن کا خطرہ نہ رہے،
سخت کیوٹیکل اگر آپ کو اپنے کیوٹیکل پیچھے دھکیلنے میں دشواری ہو رہی ہو تو کیوٹیکل کریم لگانے سے پہلے کچھ دیر ہاتھ پانی میں بھگو لیں اس سے سخت کیوٹیکل نرم ہو جاتی ہے اور ہنگ نیل سے بھی بچاﺅ رہتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ کیوٹیکل آپ کے ناخنوں کی حفاظت کرتی ہے اس لیے اس کی حفاظت بھی بہت ضروری ہے۔ اپنے ناخنوں کو کچھ دیر صابن والے پانی میں بھگوئیں اس عمل سے نہ صرف ناخن میں جما ہوا میل صاف ہو گا بلکہ کیوٹیکل بھی نرم ہو جائیگی اور اسے پیچھے کرنا آسنا ہو جائیگا۔ اگر آپ کے ناخن زیادہ خشک ہیں یا کیوٹیکل جمی ہوئی ہے تو نیم گرم زیتون یا بادام میں ناخن بھگوئیں۔ اس کے علاوہ سفید سر کے یا لیموں کے رس میں ناخن بھگونے سے بھی ناخن بہتر ہو جاتے ہیں۔

پیوند لگانا آپ ناخنوں کی طرف سے چاہیے کتنی ہی احتیاط کیوں نہ برتیں کبھی نہ کبھی یہ چٹخ ضرور جاتے ہیں مگر پریشان مت ہو کیونکہ ایک ناخن کی وجہ سے آپ کو اپنا پورا مینی کیور خراب کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس نقص کو آپ مندرجہ ذیل ترکیب کے ذریعے با آسانی چھپا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ناخن کے کریک ٹرانسپر پالش کو ہلکی سی لگا لیں۔ ٹیولیزر کی مدد سے سفید یا گلابی ٹشو انگلیوں کے سروں پر لگائے جائے تو پریشان مت ہوں بس یہ خیال رکھیں کہ کریک مکمل طور پر ڈھک گیا۔ ناخنوں کی قینچی کی مدد سے ٹشو کے کنارے نفاست سے صاف کر لیں اور ٹرانسپرنٹ پالش کو ایک اور تہہ لگا کر جوڑ کر مضبوط کر لیں، تمام ناخنوں پر میچنگ نیل کلر لگا لیں۔ یہ جوڑ آپ کے اگلے مینی کیور تک قائم رہے گا جس میں آپ دوبارہ اسی طریقے پر عمل کرتے ہوئے ناخن جوڑ دیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ناخن بڑھ جائے

ابٹن بنانے کے طریقے

 

ابٹن بنانے کے طریقے

 

 

 

 

 

 

ابٹن بنانے کے طریقے

آدھا پاﺅں بیسن آدھ پاﺅ، ہلدی، ایک تولہ سنگترے کے خشک چھلکے ایک چھٹانک صندل سفید ایک تولہ۔ سب اشیاءکو باریک پیس کر آٹے میں ملا لیں اور کھلے منہ کی شیشی میں رکھ دیں ہر روز تھوڑا سا ابٹن لے کر پانی یا دودھ میں شامل کر کے لئی سی بنا لیں اور چکنائی کیلئے بالائی شامل کر لیں اور پندرہ منٹ تک خوب ملیں دوران خون کی تیزی سے آپ کا چہرہ تمتما اٹھے گا۔ دو ہفتہ بعد آپ اپنے چہرے میں حیرت انگیز تبدیلی پائیں گے اور کسی کریم کے استعمال کی ضرورت نہیں ہوگی۔

چہرے کی شادابی

صبح ناشتے سے پہلے ایک گلاس نیم گرم پانی میں ایک عدد لیموں کا رس پینے سے چہرہ شاداب رہتا ہے اور رنگت نکھرتی ہے اور معدہ درست رہتا ہے۔
نرم ہاتھ

موم میں ناریل کا تیل ملا کر رات کو سونے سے پہلے ہاتھوں پر مل لیں۔ صبح نیم گرم پانی سے ہاتھ دھو لیں۔ ایک ہفتہ میں آپ کے ہاتھ نرم ہو جائیں گے۔ ناریل کے تیل کے فوائد ساری دنیا میں مرد اور عورتیں اپنے سر کے بالوں کی نگہداشت کیلئے خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ خواتین تو اس کی متمنی ہوتی ہیں کہ ان کے بال لمبے، چمکدار، صحتمند اور گھنے ہوں۔

ذیل میں چند ترکیبیں دی جا رہی ہیں ان میں سے کوئی بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ کے بال مکمل طور پر خشک، بے رنگ اور بے جان ہوں تو بالوں کی جڑوں میں ہفتے میں ایک مرتبہ اچھی طرح ناریل کا تیل لگائیں اور جوشیمپو استعمال کریں وہ آئلہ کا بنا ہوا ہو۔ بالوں کی خشکی دور کرنے کیلئے نہانے سے پہلے ایک انڈا پھینٹ کر اس میں کچے دودھ کے چند قطرے ملا لیں اور بالوں کی جڑوں میں لگائیں دو تین مرتبہ کے عمل سے خشکی سے نجات مل جائیگی۔

سرسوں کی کھبلی

سرسوں کے بالوں کیلئے بہت مفید ہے۔ سرد ھونے سے دو گھنٹے پہلے کھلی کو بھگو دیں اور اس پانی سے بر دھوئیں۔

مساج کرنا

بالوں کی قدرتی حسن برقرار رکھنے کیلئے سرکی مالش بے حد ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تیل کا صحیح انتخاب بھی بہت ضروری ہے بالوں کی مالش کیلئے آئلے کا تیل سب سے اچھا ہوتا ہے بالوں کیلئے ناریل کا تیل اور روغن زیتوں بھی بہت مفید ہے کچھی گھانی کا سرسوں کا تیل بھی بہت مفید ہے۔ روغن زیتون کو سردیوں میں استعما ل کریں اگر باقاعدہ روغن زیتون میں مالش کی جائے تو بالوں میں چمک آئے گی قدرتی، رنگ قائم رہے گا۔

پیروں کو نظر انداز نہ کریں ہم میں سے بیشتر لوگ اپنے پیروں کو نظر انداز کرتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال سے یکسر بے گانہ رہتے ہیں، حالاں کہ صحت مند پاﺅں نشست و برخاست اور اٹھنے بیٹھنے کے انداز کو بہتر بناتے ہیں۔ پیروں کی بنیادی صحت اور فٹنس کا انحصار ان کی قوت اور لچک پر ہے۔ اس سلسلے میں چند خصوصی ورزشیں حیرت انگیز نتائج دیتی ہیں۔ آکو پنکچر اور آکوپریشر میں پیروں کو پورے جسم کا ہیڈ کوارٹر قرار دیا جاتا ہے اور تقریباً تمام امراض کا علاج پیروں میں موئیاں لگا کر اور مخصوص پریشر کو ایک خاص ترکیب سے دبا کر کیا جاتا ہے جس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں۔ پیروں سے متعلق زیادہ تر مسائل ان کے غلط استعمال کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔ اگر پیروں کے عضلات مناسب شکل میں نہیں ہیں، تو ان میں درد ہو سکتا ہے

جوڑوں کی تکلیف لاحق ہو سکتی ہے اور ہڈیوں کو جوڑنے والی رگوں اور عضلات میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے یہ صورتحال اس وقت سامنے آتی ہے، جب دوڑ لگائی جائے کوئی کھیل کھیلا جائے یا رقص کیا جائے۔ ماہرین صحت نے پیروں کو صحت مند، طاقت ور اور لچک دار بنانے کیلئے کچھ ورزشیں پیش کی ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے پیروں کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ان ورزشوں کی چند روزہ مشقوں کے بعد پیر اس قابل ہو جاتے ہیں کہ کھیل کود، دوڑ بھاگ اور رقص کے دوران انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی۔

ورزش نمبر 1

فرش پر ایک تولیا پھیلائیے۔ اس پر ننگے پاﺅںکھڑے ہو جائیں۔ اب نیچے سے تولیے کو پکڑ کر اسے اوپر اٹھانے کی کوشش کیجئے۔ یہ ورزش پیروں کی مجموعی قوت میں اضافے کا باعث بنے گی۔

ورزش نمبر 2

اپنے پیروں کو سیدھا رکھیے۔ پھر تولیے کو اپنے نیچے سے آگے کی جانب سے سرکانے کی کوش کیجئے۔ تولیے کو پہلے دائیں جانب کھسکائیے پھر بائیں جانب۔ اس ورزش سے پیروں کے اندرونی اور بیرونی عضلات مستحکم ہوں گے اور ٹخنے کی موچ یاد رد سے نجات بھی ملے گی۔

ورزش نمبر 3

اپنے گھٹنوں اور ٹخنوں کو پھیلالیں اور پنجوں سے اوپر اٹھائیں۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اپنی ایڑیوں کو بھی اوپر اٹھائیے یہ ورزش تقریباً 20 ہار کیجئے۔ اس کے نتائج بھی حیرت انگیز اہمیت کے حامل ہیں آزمائش شرط ہے۔

ورزش نمبر 4

اپنے پنجوں کو تھام لیں اور ٹخنوں کو آگے پیچھے حرکت دیں۔ اس دوران ہاتھوں کی انگلیوں سے ایڑی کا مساج کریں، پھر ٹخنوں سے ایڑی کی جانب جائیے اور پیروں کو انگلیوں کی جانب حرکت دیں۔ اس کے بعد واپس ایڑی کی جانب جائیں۔ نرمی کے ساتھ اپنے پنجوں کو اوپر اٹھائیں اور دائیں بائیں آہستگی سے موڑیں۔ پھر اپنی ہتھیلوں سے پیروں کو دبائیں یہ عمل آہستگی سے کریں۔ ہاتھوں کو گول گول گھمائے ہوئے ٹخنوں سے نیچے کی جانب اور پھر نیچے سے ٹخنے کی جانب آئیے۔ یہ ورزش مساج پر مشتمل ہے، اسے کرنے کے بعد بہت بہتر محسوس کریں گے۔ یہ ایک بہترین ورزش ہے اس ورزش کے بعد ٹب میں گرم پانی ڈال کر اس میں تھوڑا سا بیکنگ پاﺅڈر یا نمک ملا لیں۔ پھر اس پانی میں اپنے دونوں پیروں کو کچھ دیر کے ڈبوئے رکھیں۔ اس سے پیروں کی تھکن دور ہوتی ہے۔اور سکون ملتا ہے۔

ورزش نمبر 5

کرکٹ یا ٹینس کی بال پر اپنے تلوے رکھیے اور اس طرح بال کو رول کرتے رہیں۔ یہ بھی ایک بہت ہی عمدہ ورزش ہے جس سے آپ کو فوراً ہی فرحت کا احساس ہو گا۔ ورزش کے دوران تنگ جوتے نہ پہنچیں پنجوں کی جانب سے جوتا پیروں کی سب سے آسان اور بہترین ورزش تیز پیدل چلنا ہے۔ ورزشوں کے دوران کوئی تکلیف محسوس ہو یا ان میں کوئی افاقہ محسوس نہ ہو، تو پھر اپنے معالج سے ضرور رجوع کریں۔ اسی طرح دوڑنے بھاگنے یا ورزش کرتے ہوئے جس لمحے کسی درد یا تکلیف کا احساس ہو تو فوراً رک جائیے اور آرام کیجئے۔ جہاں چوٹ لگنے کا احساس ہو، وہاں برف کی تھیلی یا ٹھنڈے تولیے کو کم از کم دس منٹ تک لپیٹ کر رکھیں ہر تین منٹ بعد برف کی تھیلی یا ٹھنڈے تولیے کو کم از کم دس منٹ تک لپیٹ کر رکھیں۔ ہر تین منٹ بعد برف کی تھیلی یا تولیے کو الٹتے پلٹتے رہیں، تاکہ جسم کا یہ متاثرہ حصہ سن نہ ہو۔ برف کی سکائی کے بعد متاثرہ حصے پر اچھی طرح کوئی پٹی لپیٹ دیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ پٹی زیادہ سختی سے نہ باندھی جائے۔

 

اسلام میں عورت کا مقام

muslim-women

اسلام میں عورت کا مقام

اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔

یہاں ہم اسلام کے قائم کردہ معاشرے میں عورت کی تکریم و منزلت کا جائزہ پیش کرتے ہیں

1 اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھاہے، اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔

القرآن، النساء، 4 : 1

2عورت پر سے دائمی معصیت کی لعنت ہٹا دی گئی اور اس پر سے ذلت کا داغ دور کر دیا گیا کہ عورت اور مرد دونوں کو شیطان نے وسوسہ ڈالا تھا، جس کے نتیجے میں وہ جنت سے اخراج کے مستحق ہوئے تھے جبکہ عیسائی روایات کے مطابق شیطان نے حضرت حواء علیہا السلام کو بہکا دیا اور یوں حضرت حواء علیہا السلام حضرت آدم علیہ السلام کے بھی جنت سے اخراج کا سبب بنیں۔ قرآن حکیم اس باطل نظریہ کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے :

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ

پھر شیطان نے اُنہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اُس (راحت کے) مقام سے، جہاں وہ تھے، الگ کر دیا۔

القرآن، البقرة، 2 : 36

3اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کا استحقاق برابر قرار پایا۔ ان دونوں میں سے جو کوئی بھی کوئی عمل کرے گا، اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی۔ ارشادِ ربانی ہے

فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ

ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کرلیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔

القرآن، آل عمران، 3 : 195

4عورت کو زندہ زمین میں گاڑے جانے سے خلاصی ملی۔ یہ وہ بری رسم تھی جو احترام انسانیت کے منافی تھی۔

5اسلام عورت کے لیے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ولی الامر کی طرف سے ملے گی۔

6عورت کی تذلیل کرنے والے زمانۂ جاہلیت کے قدیم نکاح جو درحقیقت زنا تھے، اسلام نے ان سب کو باطل کرکے عورت کو عزت بخشی۔

اب ہم ان حقوق کا جائزہ لیتے ہیں جو اسلام نے عورت کو مختلف حیثیتوں میں عطا کیے

1عورت کے اِنفرادی حقوق

(1) عصمت و عفت کا حق

معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے اس کے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے۔ اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت کی حفاظت کریں

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَO

(اے رسول مکرم!) مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا موجب ہے۔ اللہ اس سے واقف ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیںo

القرآن، النور، 24 : 30

فرج کے لغوی معنی میں تمام ایسے اعضاء شامل ہیں، جو گناہ کی ترغیب میں معاون ہو سکتے ہیں، مثلاً آنکھ، کان، منہ، پاؤں اور اس لیے اس حکم کی روح یہ قرار پاتی ہے کہ نہ بری نظر سے کسی کو دیکھو، نہ فحش کلام سنو اور نہ خود کہو، اور نہ پاؤں سے چل کر کسی ایسے مقام پر جاؤ، جہاں گناہ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو۔ اس کے بعد عورتوں کو حکم ہوتا ہے

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا

اور (اے رسول مکرم!) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس میں کھلا ہی رہتا ہے۔

القرآن، النور، 24 : 31

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO

اے ایمان والو! چاہیے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں : (ایک) نمازِ فجر سے پہلے، اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اِسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہےo

القرآن، النور، 24 : 58

اسلام نے قانون کے نفاذ میں بھی عورت کے اس حق کو مستحضر رکھا۔ خلفائے راشدین کا طرز عمل ایسے اقدامات پر مشتمل تھا جن سے نہ صرف عورت کے حق عصمت کو مجروح کرنے والے عوامل کا تدارک ہوا بلکہ عورت کی عصمت و عفت کا تحفظ بھی یقینی ہوا۔

ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میرے ایک مہمان نے میری ہمشیرہ کی آبروریزی کی ہے اور اسے اس پر مجبور کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے پوچھا اس نے جرم کا اعتراف کرلیا۔ اس پر آپ نے حد زنا جاری کرکے اسے ایک سال کے لئے فدک کی طرف جلا وطن کردیا۔ لیکن اس عورت کو نہ تو کوڑے لگائے اور نہ ہی جلا وطن کیا کیونکہ اسے اس فعل پر مجبور کیا گیا تھا۔ بعد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس خاتون کی شادی اسی مرد سے کردی۔

هندي، کنز العمال، 5 : 411

اسی طرح کا ایک اور واقعہ یوں مذکور ہے

استفاف رجل ناسا من هذيل فأرسلوا جارية لهم تحطب فأعجبت الضعيف فتبعها فأرادها علي نفسهانا متنعت فعارکها ساعة فانفلتت منه انفلاتة فرمته بحجر ففضت کبده فمات ثم جاء ت إلي أهلها فأخبرتهم فذهب أهلها إلي عمرا فأخبروه فأرسل عمر فوجد أثارهما فقال عمر قتيل اﷲ لا يوري أبدا

ایک شخص نے ہذیل کے کچھ لوگوں کی دعوت کی اور اپنی باندی کو لکڑیاں کاٹنے کے لیے بھیجا۔ مہمانوں میں سے ایک مہمان کو وہ پسند آگئی اور وہ اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کی عصمت لوٹنے کا طلب گار ہوا لیکن اس باندی نے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر ان دونوں میں کشمکش ہوتی رہی۔ پھر وہ اپنے آپ کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اس شخص کے پیٹ پر مار دیا جس سے اس کا جگر پھٹ گیا اور وہ مرگیا۔ پھر وہ اپنے گھروالوں کے پاس پہنچی اور انہیں واقعہ سنایا۔ اس کے گھر والے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر گئے اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاملہ کی تحقیق کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا اور انہوں نے موقع پر ایسے آثار دیکھے، جس سے دونوں میں کشمکش کا ثبوت ملتا تھا۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے جسے مارا ہے اس کی دیت کبھی نہیں دی جاسکتی۔

1. عبدالرزاق، المصنف، 9 : 435 2. ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 166، رقم : 154 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 431، رقم : 27793 4. خلال، السنة، 1 : 166، رقم : 154 5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 337 6. ابن عبدالبر، التمهيد، 21 : 257 7. ابن حزم، المحلي، 8 : 25 8. ابن قدامه، المغني، 9 : 152 9. عسقلاني، تلخيص الحبير4 : 86، رقم : 1817 10. انصاري، خلاصة البدر المنير، 2 : 332، رقم : 2488

(2) عزت اور رازداری کا حق

معاشرے میں عورتوں کی عزت اور عفت و عصمت کی حفاظت ان کے رازداری کے حق کی ضمانت میں ہی مضمر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو رازداری کا حق عطا فرمایا اور دیگر افراد معاشرے کو اس حق کے احترام کا پابند کیا۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌO

اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک (اس امر کی) اجازت نہ لے لو اور اہلِ خانہ پر سلام کہو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم ان باتوں سے نصیحت حاصل کروo اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو ان میں داخل نہ ہو، جب تک تمہیں (اندر جانے کی) اجازت نہ ملے اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے خوب واقف ہےo

القرآن، النور، 24 : 27، 28

خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی دستور تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے ہاں جاتے تو باہر سے السلام علیکم فرماتے، تاکہ صاحبِ خانہ کو معلوم ہو جائے اور وہ آپ کو اندر آنے کی اجازت دے دے۔ اگر پہلی بار کوئی جواب نہ ملتا تو دوسری مرتبہ السلام علیکم کہتے۔ اگر اب بھی کوئی جواب نہ ملتا تو تیسری مرتبہ پھر یہی کرتے اور اس کے بعد بھی جواب نہ ملنے پر واپس تشریف لے جاتے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ حسبِ معمول السلام علیکم کہا۔ سعد نے جواب میں آہستہ سے وعلیکم السلام کہا جو آپ سن نہ سکے۔ اسی طرح تینوں بار ہوا۔ آخر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خیال کرکے واپس جانے لگے کہ غالباً گھر میں کوئی نہیں تو حضرت سعد دوڑ کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے گئے اور عرض کیا

يا رسول اﷲ! إني کنت أسمع تسليمک و أرد عليک ردا خفيا لتکثر علينا من السلام

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے جواب تو دیا تھا لیکن آہستہ سے، میں یہ چاہتا تھا کہ آپ زیادہ سے زیادہ بار ہمارے لئے دُعا کریں (کیونکہ السلام علیکم بھی سلامتی کی دُعا ہے)۔

1. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب کم مره يسلم، 4 : 347، رقم : 5185 2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 421 3. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 253، رقم : 902 4. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 439، رقم : 8808 5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 280

انہی معنوں میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا

إذا استاذن احدکم ثلاثا فلم يوذن له فليرجع

جب تم میں سے کوئی شخص (کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے) تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ ملے تو چاہیے کہ واپس چلا آئے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الاسئذان، باب التسليم، 5 : 2305، رقم : 5891 2. مسلم، الصحيح، کتاب الأداب، باب الإستئذان، 3 : 1694، رقم : 2153 3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 398 4. ابن حبان، الصحيح، 13 : 122، رقم : 5806 5. طيالسي، المسند، 1 : 70، رقم : 518 6. حميدي، المسند، 2 : 321، رقم : 734 7. ابويعليٰ، المسند، 2 : 269، رقم : 981 8. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 168، رقم : 1687 9. بيهقي، السنن، 8 : 339، رقم : 39 10. شيباني، الآحاد والمثاني، 4 : 449، رقم : 2502

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سلام کے جواب میں صاحبِ خانہ مکان کے اندر سے نام وغیرہ پوچھے تو فوراً اپنا نام بتانا چاہیے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اندر سے پوچھا : کون ہے؟ میں نے عرض کیا : میں ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناگواری سے فرمایا : میں ہوں، میں ہوں اور باہر تشریف لے آئے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محض میں ہوں جواب دینے کو ناپسند فرمایا۔

بخاري، الصحيح، کتاب الإستئذان، باب إزا قال من ذا، 5 : 2306، رقم : 5896

اس میں تعلیم یہ ہے کہ پوچھنے پر اپنا نام بتانا چاہیے، محض میں ہوں کہنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون ہے؟ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب اندر سے کوئی جواب نہیں ملتا تو متجسس لوگ ادھر ادھر جھانکنے لگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح کسی دوسرے کے گھر میں جھانکنے سے منع فرمایا، کیونکہ اس سے اجازت طلب کرنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح جھانکے اور صاحب خانہ اسے سزا دینے کے لئے اسے کنکری یا پتھر مار دے جس سے جھانکنے والے کی آنکھ پھوٹ جائے یا اسے کوئی زخم پہنچ جائے تو صاحب مکان بری الذمہ ہے اور جھانکنے والے کو قصاص نہیں دیا جائے گا۔

بخاري، الصحيح، کتاب الإستئذان، باب من أجل البصر، 5 : 2304، رقم : 5888

کسی کے گھر میں اجازت لے کر داخل ہونے کے اس عام حکم کے بعد فرمایا کہ تم کسی کے گھر سے کوئی چیز طلب کرنا چاہو تو تمہارا فرض ہے کہ پردے کے پیچھے سے سوال کرو تاکہ ایک دوسرے کا سامنا نہ کرنا پڑے جو دونوں کے لئے اخلاقی لحاظ سے اچھا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ

اور جب تم عورتوں سے کوئی چیز طلب کرو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگ لو۔ یہ تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔

القرآن، الاحزاب، 33 : 53

عورتوں کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کے لئے پردہ کے احکام آئے۔ قرآن حکیم میں خواتین کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی آرائش و زیبائش کو افشا نہ کرنے کی تعلیم دے کر اس پاکیزگیء معاشرت کی بنیاد رکھی گئی جو خواتین کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کو یقینی بناسکتی ہے

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO

اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمتگار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کمسنی کے باعث ابھی) عورتوں کے پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنیٰ ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) انکا وہ سنگھار معلوم ہوجائے جسے وہ (حکم شریعت سے) پوشیدہ کیے ہوئے ہیں اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہوکر) فلاح پا جاؤo

القرآن، النور، 24 : 31

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ

اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے۔

القرآن، الأحزاب، 33 : 59

(3) تعلیم و تربیت کا حق

اسلام کی تعلیمات کا آغاز اِقْرَاْ سے کیا گیا اور تعلیم کو شرفِ انسانیت اور شناختِ پروردگار کی اساس قرار دیا گیا

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ

(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اس نے انسان کو (رحم مادر میں جونک کی طرح) معلق وجود سے پیدا کیاo پڑھئیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاo

القرآن، العلق، 96 : 1 – 5

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کی۔ اسلامی معاشرے میں یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی شخص لڑکی کو لڑکے سے کم درجہ دے کر اس کی تعلیم و تربیت نظرانداز کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے

الرجل تکون له الامة فيعلمها فيحسن تعليمها و يودبها فيحسن ادبها ثم يعتقها فيتزوجها فله اجران

اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے تعلیم دے اور یہ اچھی تعلیم ہو۔ اور اس کو آداب مجلس سکھائے اور یہ اچھے آداب ہوں۔ پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لیے دوہرا اجر ہے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب فضل من أسلم، 3 : 1096، رقم : 2849 2. ابو عوانه، المسند، 1 : 103، رقم : 68 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 118، رقم : 12635 4. روياني، المسند، 1 : 307، رقم : 458

یعنی ایک اجر تو اس بات کا کہ اس نے اسے اچھی تعلیم دی اور اچھے آداب سکھائے اور دوسرا اجر اس امر کا کہ اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کر لیا اور اس طرح اس کا درجہ بلند کیا۔

اس سے ظاہر ہے کہ اسلام اگر باندیوں تک کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کو کارِ ثواب قرار دیتا ہے تو وہ آزاد لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیم سے محروم رکھے جانے کو کیونکر گوارا کر سکتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اس کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے :

طلب العلم فريضة علي کل مسلم

علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔

ایک دوسرے موقع پر حصولِ علم میں ہر طرح کے امتیاز اور تنگ نظری کو مٹانے کی خاطر نہایت لطیف پیرائے میں فرمایا

1. ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب فضل العلماء، 1 : 81، رقم : 224 2. ابويعليٰ، المسند، 5 : 223، رقم : 2837 3. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 195، رقم : 10439 4. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 8، رقم : 9 5. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 36، رقم : 22 6. ابويعليٰ، المعجم، 1 : 257، رقم : 320 7. شعب الايمان، 2 : 203، رقم : 1663 8. هيثمي، مجمع الزوائد، 1 : 119 9. منذري، الترغيب والترهيب، 1 : 52، رقم : 109 10. کناني، مصباح الزجاجة، 1 : 30، رقم : 81

الکلمة الحکمة ضالة المؤمن فحيث وجدها فهو احق بها

علم اور عقل کی بات مؤمن کا گمشدہ مال ہے، پس جہاں بھی اسے پائے اسے حاصل کرنے کا وہ زیادہ حق دار ہے۔

1. ترمذي، السنن، کتاب العلم، ماجاء في فضل الفقه، 5 : 51، رقم : 2687 2. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحکمة، 2 : 1395، رقم : 4169 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 240، رقم : 35681 4. روياني، المسند، 1 : 75، رقم : 33 5. بيهقي، سنن الکبريٰ، 6 : 190، رقم : 11851 6. شيباني، الاحاد والمثاني، 3 : 264، رقم : 1639 7. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 2 : 152، رقم : 2770 8. ابونعيم اصبهاني، حلية الاولياء، 3 : 354 9. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 307، رقم : 4169 10. مناوي، فيض القدير، 2 : 545

(4) حسنِ سلوک کا حق

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی اور زندگی کے عام معاملات میں عورتوں سے عفو و درگزر اور رافت و محبت پر مبنی سلوک کی تلقین فرمائی

عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : المرأة کالضلع ان اقمتها کسرتها وان استمتعت بها استمتعت بها وفيها عوج

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عورت پسلی کی مانند ہے اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اگر اسی طرح اس کے ساتھ فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھا سکتے ہو ورنہ اس کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب المدارة مع النساء، 5 : 1987، رقم : 4889 2. مسلم، الصحيح، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، 2 : 1090، رقم : 1468 3. ترمذي، السنن، کتاب الطلاق، باب ماجاء في مدارة النساء، 3 : 493، رقم : 1188 4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 428، رقم : 9521 5. ابن حبان، الصحيح، 9 : 487، رقم : 4180 6. دارمي، السنن، 2 : 199، رقم : 2222 7. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 197 8. ابوعوانة، المسند، 3 : 142، رقم : 4495 9. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 178، رقم : 565 10. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 303، رقم : 304

عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : من کان يؤمن باﷲ واليوم الاخر فلا يؤذي جاره واستوصوا بالنساء خيرا، فانهن خلقن من ضلع و ان اعوج شئ في الضلع اعلاه فان ذهبت تقيمه کسرته وان ترکته لم يزل اعوج فاستوصوا بالنساء خيرا.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے، اور عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں ہیں۔ اور سب سے اوپر والی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ ڈالو گے اور اس کے حال پر چھوڑے رہو گے تب بھی ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی پس عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب الوصاة بالنساء، 5 : 1987، رقم : 4890 2. مسلم، الصحيح، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، 2 : 1091، رقم : 1468 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 197 4. ابن راهويه، المسند، 1 : 250، رقم : 214 5. ابويعليٰ، المسند، 11 : 85، رقم : 6218 6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 295، رقم : 14499

(5) ملکیت اور جائیداد کا حق

اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حق ملکیت عطا کیا۔ وہ نہ صرف خود کماسکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے

لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ

مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔

القرآن، النساء، 4 : 32

عورت کا حق ملکیت طلاق کی صورت میں بھی قائم رہتا ہے۔ طلاق رجعی کے بارے میں ابنِ قدامہ نے لکھا ہے کہ اگر شوہر نے ایسی بیماری جس میں ہلاکت کا خطرہ ہو، کے دوران میں اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر دورانِ عدت اسی بیماری سے مرگیا تو بیوی اس کی وارث ہوگی اور اگر بیوی مرگئی تو شوہر اُس کا وارث نہیں ہوگا۔ یہی رائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔

ابن قدامه، المغني، 6 : 329

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے

اذا طلقها مريضا ورثته ما کانت في العدة ولا يرثها

اگر شوہر نے اپنی بیماری کی حالت میں بیوی کو طلاق دے دی تو بیوی دوران عدت اس کی وارث ہوگی لیکن شوہر اس کا وارث نہیں ہو گا۔

1. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 64، رقم : 12201 2. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 171 3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 363، رقم : 14908 4. مالک بن انس، المدونة الکبريٰ، 6  38 5. ابن حزم، المحلي، 10 : 219

طلاق مغلظہ کے بارے میں قاضی شریح بیان کرتے ہیں کہ عروۃ البارقی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوکر میرے پاس آئے اور اس شخص کے بارے میں بیان کیا جو اپنی بیوی کو حالت مرض میں تین طلاقیں دے دے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بیوی دوران عدت اس کی وارث ہوگی لیکن شوہر اس کا وارث نہیں ہوگا۔

1. ابن حزم، المحلي، 10 : 219، 228 2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 97

(6) حرمتِ نکاح کا حق

اسلام سے قبل مشرکینِ عرب بلا امتیاز ہر عورت سے نکاح جائز سمجھتے تھے۔ باپ مر جاتا تو بیٹا ماں سے شادی کر لیتا۔ جصاص نے احکام القرآن (2 :۔ 148) میں سوتیلی ماں سے نکاح کے متعلق لکھا ہے

و قد کان نکاح إمراة الأب مستفيضا شائعا في الجاهلية

اور باپ کی بیوہ سے شادی کر لینا جاہلیت میں عام معمول تھا۔

اسلام نے عورتوں کے حقوق نمایاں کرتے ہوئے بعض رشتوں سے نکاح حرام قرار دیا اور اس کی پوری فہرست گنوا دی۔ ارشادِ ربانی ہے

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ

تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں سب حرام کردی گئی ہیں۔ اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو (بھی حرام ہیں) پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر ان کی (لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں اور یہ (بھی حرام ہے کہ) تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے جو دور جہالت میں گزر چکا۔

القرآن، النساء، 4 : 23

2 عورت کے عائلی حقوق

(1) ماں کی حیثیت سے حق

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے

عن ابي هريرة رضي الله عنه قال : جاء رجلي الي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقال : يا رسول اﷲ! من احق الناس بحسن صحابتي؟ قال : امک، قال : ثم من؟ قال : ثم امک، قال  ثم من؟ قال : ثم امک، قال ثم من؟ قال : ثم ابوک

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایک آدمی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ ہے، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہارا والد ہے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب من أحق الناس، 5 : 2227، رقم : 5626 2. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، باب بر الوالد ين4 : 1974، رقم : 2548 3. ابن راهوية، المسند، 1 : 216، رقم : 172 4. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 220، رقم : 3766 5. الحسيني، البيان و التعريف، 1 : 171، رقم : 447 6. کناني، مصباح الزجاجة، 4 : 98، رقم : 1278

(2) بیٹی کی حیثیت سے حق

وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت کا حق دار بھی ٹھہرایا، ارشادِ ربانی ہے

يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ

اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے۔

القرآن، النساء، 4 : 11

قرآن حکیم نے بیٹی کی پیدائش پر غم و غصے کو جاہلیت کی رسم اور انسانیت کی تذلیل قرار دیتے ہوئے اُس کی مذمت کی

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌO يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَO

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہےo وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (بزعم خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کردے) خبردار کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیںo

القرآن، النحل، 16 : 58، 59

اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی ممانعت کرکے دورِ جاہلیت کی اس رسم بد کا قلع قمع کیا جو اسلام کی آمد سے قبل اس معاشرے میں جاری تھی

وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيرًاO

اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو ہم ہی انہیں (بھی) رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہےo

القرآن، بني اسرائيل، 17 : 31

(3) بہن کی حیثیت سے حق

قرآن حکیم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے، وہاں بطور بہن بھی اس کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ بطور بہن عورت کا وراثت کا حق بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا

وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُواْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ.

اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جارہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا ماں کی طرف سے ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہوگی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد۔

القرآن، النسآء، 4 : 12

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.

لوگ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجئے کہ اللہ تمہیں (بغیر اولاد اور بغیر والدین کے فوت ہونے والے) کلالہ (کی وراثت) کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہوجائے جو بے اولاد ہو مگر اس کی بہن ہو تو اس کے لیے اس (مال) کا آدھا (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے اور اگر (اس کے برعکس بہن کلالہ ہو تو اس کے مرنے کی صورت میں اسکا) بھائی اس (بہن) کا وارث (کامل) ہوگا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو۔ پھر اگر (کلالہ بھائی کی موت پر) دو (بہنیں وارث) ہوں تو ان کے لیے اس (مال) کا دو تہائی (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے اور اگر (بصورت کلالہ مرحوم کے) چند بھائی بہن مرد (بھی) اور عورتیں (بھی وارث) ہوں تو پھر (ہر) ایک مرد کا (حصہ) دو عورتوں کے برابر ہوگا۔

القرآن، النساء، 4 : 176

(4) بیوی کی حیثیت سے حق

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تسلسل و بقاء کے لیے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا

وَاللّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللّهِ هُمْ يَكْفُرُونَO

اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا فرمائے اور تمہارے جوڑوں (بیویوں) سے تمہارے لیے بیٹے، پوتے اور نواسے پیدا فرمائے اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا تو کیا پھر بھی وہ (حق کو چھوڑ کر) باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیںo

القرآن، النحل، 16 : 72

دوسرے مقام پر بیوی کے رشتے کی اہمیت اور اس سے حسن سلوک کو یوں بیان کیا گیا

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُواْ مَا كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّيْلِ وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَO

تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرمادیا، پس (اب روزوں کی راتوں میں بیشک) ان سے مباشرت کیا کرو اور جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے چاہا کرو، اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہوکر) نمایاں ہوجائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو، اور عورتوں سے اس دوران میں شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو، یہ اللہ کی (قائم کردہ) حدیں ہیں پس ان کے توڑنے کے نزدیک نہ جاؤ، اِسی طرح اللہ لوگوں کے لیے اپنی آیتیں (کھول کر) بیان کرتا ہے تاکہ وہ پرہیزگاری اختیار کریںo

القرآن، البقره، 2 : 187

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكُيمٌO

اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، اور ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا فرما دیا ہو اگر وہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اس مدت کے اندر ان کے شوہروں کو انہیں (پھر) اپنی زوجیت میں لوٹانے کا حق زیادہ ہے اگر وہ اصلاح کا ارادہ کرلیں، اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔

القرآن، البقره، 2 : 228

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

اور تمہارے لیے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو تمہارے لیے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال ) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد۔

القرآن، النساء، 4 : 12

یہ قرآنِ حکیم ہی کی تعلیمات کا عملی ابلاغ تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی

عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : جاء رجل الي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال : يا رسول اﷲ! اني کتبت في غزوة کذا و کذا و امراتي حاجة، قال : ارجع فحج مع امراتک

ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اﷲ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم واپس چلے جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب کتابة الإمام الناس، 3 : 1114، رقم : 2896 2. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب من اکتتب في جيش، 3 : 1094، رقم : 2844 3. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب سفر المرأه مع محرم، 2 : 978، رقم : 1341 4. ابن حبان، الصحيح، 9 : 42، رقم : 3757 5. ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 137، رقم : 2529 6. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 424، 425، رقم : 12201، 12205

اور اسی تعلیم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عمل پیرا رہے

عن زيد هو ابن اسلم عن ابيه قال : کنت مع عبداﷲ بن عمر رضي اﷲ عنهما بطريق مکة فبلغه عن صفية بنت ابي عبيد شدة وجع، فاسرع السير حتي اذا کان بعد غروب الشفق ثم نزل فصلي المغرب والعتمة يجمع بينهما و قال : إني رايت النبي صلي الله عليه وآله وسلم اذا جد به السير اخر المغرب و جمع بينهما

زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ کے سفر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھا انہیں اپنی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ بنت ابوعبید کے بارے میں خبر پہنچی کہ وہ سخت بیمار ہیں۔ انہوں نے رفتار تیز کر دی اور مغرب کے بعد جب شفق غائب ہو گئی تو سواری سے اترے اور مغرب کی نماز ادا کر کے نماز عشاء بھی اس کے ساتھ ملا کر پڑھ لی اور فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر طے کرنے میں جلدی ہوتی تو مغرب میں دیر کر کے مغرب و عشاء کو جمع فرما لیتے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب السافر إذا جد به، 2 : 639، رقم : 1711 2. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب السرعة في السير، 3 : 1093، رقم : 2838 3. عسقلاني، فتح الباري، 2 : 573، رقم : 1041 4. مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 3 : 102

3عورت کے اَزدواجی حقوق

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ تعلیمات کی روشنی میں عورت کے درج ذیل نمایاں حقوق سامنے آتے ہیں

(1) شادی کا حق

اسلام سے قبل عورتوں کو مردوں کی ملکیت تصور کیا جاتا تھا اور انہیں نکاح کا حق حاصل نہ تھا۔ اسلام نے عورت کو نکاح کا حق دیا کہ جو یتیم ہو، باندی ہو یا مطلقہ، شریعت کے مقرر کردہ اُصول و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے اُنہیں نکاح کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ.

اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہوجائیں تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔

القرآن، البقره، 2 : 232

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌO

اور تم میں سے جو فوت ہوجائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مواخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہےo

القرآن، البقره، 2 : 234

وَآتُواْ النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًاO

اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مہر) میں سے کچھ تمہارے لیے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لیے) سازگار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤo

القرآن، النساء، 4 : 4

وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO

اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کانکاح کردیا کرو جو بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا (نکاح کردیا کرو) اگر وہ محتاج ہوں گے (تو) اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کردیگا اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہےo

القرآن، النور، 24 : 32

اگرچہ کئی معاشرتی اور سماجی حکمتوں کے پیش نظر اسلام نے مردوں کو ایک سے زائد شادیوں کا حق دیا، مگر اسے بیویوں کے مابین عدل و انصاف سے مشروط ٹھہرایا اور اس صورت میں جب مرد ایک سے زائد بیویوں میں عدل قائم نہ رکھ سکیں، اُنہیں ایک ہی نکاح کرنے کی تلقین کی

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْO

اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکوگے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرط عدل ہے) پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کرسکوگے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہوo

القرآن، النساء، 4 : 3

وَلَن تَسْتَطِيعُواْ أَن تَعْدِلُواْ بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِيلُواْ كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِن تُصْلِحُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًاO

اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ (ایک سے زائد) بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کرسکو اگرچہ تم کتنا ہی چاہو۔ پس (ایک کی طرف) پورے میلانِ طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کرلو اور (حق تلفی و زیادتی سے) بچتے رہو تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

القرآن، النساء، 4 : 129

ان آیات مبارکہ سے واضح ہے کہ اسلام کا رجحان یک زوجگی کی طرف ہے اور ان حالات میں جہاں اسلام نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی ہے اسے عدل و مساوات سے مشروط ٹھرایا ہے کہ مرد ان تمام معاملات میں جو اس کے بس میں ہیں مثلاً غذا، لباس، مکان، شب باشی اور حسن معاشرت میں سب کے ساتھ عدل کا سلوک کرے۔ گویا ایک سے زائد شادیوں کا قرآنی فرمان حکم نہیں بلکہ اجازت ہے جو بعض حالات میں ناگزیر ہوجاتی ہیں جنگ، حادثات، طبی اور طبعی حالات بعض اوقات ایسی صورت پیدا کردیتے ہیں کہ معاشرے میں اگر ایک سے زائد شادیوں پر پابندی عائد ہو تو وہ سنگین سماجی مشکلات کا شکار ہو جائے جس کے اکثر نظائر ان معاشروں میں دیکھے جاسکتے ہیں جہاں ایک سے زیادہ شادیوں پر قانونی پابندی ہوتی ہے۔ تاہم یہ اسلام کا تصور عدل ہے۔ وہ معاشرہ جہاں ظہور اسلام سے قبل دس دس شادیاں کرنے کا رواج تھا اور ہر طرح کی جنسی بے اعتدالی عام تھی اسلام نے اسے حرام ٹھرایا اور شادیوں کو صرف چار تک محدود کر کے عورت کے تقدس اور سماجی حقوق کو تحفظ عطا کر دیا۔

(2) خیارِ بلوغ کا حق

نابالغ لڑکی یا لڑکے کا بلوغت سے قبل ولی کے کیے ہوئے نکاح کو بالغ ہونے پر رد کر دینے کا اختیار خیارِ بلوغ کہلاتا ہے۔ اسلام نے خواتین کو ازدواجی حقوق عطا کرتے ہوئے خیارِ بلوغ کا حق عطا کیا جو اسلام کے نزدیک انفرادی حقوق کے باب میں ذاتی اختیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ احناف کے نزدیک اگر کسی ولی نے نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح کیا ہو تو وہ لڑکا یا لڑکی بالغ ہونے پر خیارِ بلوغ کا حق استعمال کرکے نکاح ختم کرسکتے ہیں۔

جس طرح بالغ خاتون کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر ولی نے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کیا ہو تو عدم رضا کی بناء پر اسے اس نکاح کو تسلیم نہ کرنے اور باطل قرار دینے کا اختیار حاصل ہے، اسی طرح ایک نابالغہ کو بھی جس کا نکاح نا بالغی کے زمانہ میں کسی ولی نے کیا ہو، بلوغ کے بعد عدم رضا کی بناء پر خیار بلوغ حاصل ہے۔

خیارِ بلوغ کے حق کی بناء پر حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ایک حدیث مبارکہ ہے جس میں قدامہ بن مظعون نے اپنی بھتیجی اور حضرت عثمان بن مظعون کی صاحب زادی کا نکاح حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے کر دیا تھا اور وہ لڑکی بوقت نکاح نابالغ تھی۔ بلوغت کے بعد اُس لڑکی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا :

عن عبداﷲ بن عمر، قال : توفي عثمان بن مظعون، و ترک ابنة له من خويلة بنت حکيم بن أمية بن حارثة بن الأوقص، قال : و أوصي إلي أخيه قدامة بن مظعون، قال عبداﷲ : و هما خالاي، قال : فخطبت إلي قدامة بن مظعون ابنة عثمان بن مظعون، فزوجنيها، ودخل المغيرة بن شعبة. يعني إلي أمها. فأرغبها في المال، فحطت إليه، و حطت الجارية إلي هوي أمها، فأبتا، حتي ارتفع أمرهما إلي رسول اﷲ صلد الله عليه وآله وسلم، فقال قدامة بن مظعون : يا رسول اﷲ! ابنة أخي، أوصي بها إلي، فزوجتها ابن عمتها عبداﷲ بن عمر، فلم أقصر بها في الصلاح ولا في الکفاءة، و لکنها امرأة، و إنما حطت إلي هوي أمها. قال : فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : هي يتيمة، ولا تنکح إلا باذنها. قال : فانتزعت واﷲ مني بعد أن ملکتها، فزوجوها المغيرة

عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ عثمان بن مظعون فوت ہوئے اور پسماندگان میں خویلہ بنت حکیم بن امیہ بن حارثہ بن اوقص سے ایک بیٹی چھوڑی اور اپنے بھائی قدامہ بن مظعون کو وصیت کی۔ راوی عبداﷲ کہتے ہیں : یہ دونوں میرے خالو تھے۔ میں نے قدامہ بن مظعون کو عثمان بن مظعون کی بیٹی سے نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے میرا نکاح اس سے کرا دیا اس کے بعد مغیرہ بن شعبہ اس لڑکی کی ماں کے پاس آیا اور اسے مال کا لالچ دیا۔ وہ عورت اس کی طرف مائل ہو گئی اور لڑکی بھی اپنی ماں کی خواہش کی طرف راغب ہو گئی پھر ان دونوں نے انکار کر دیا یہاں تک کہ ان کا معاملہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا۔ قدامہ بن مظعون نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے اور میرے بھائی نے مجھے اس کے متعلق وصیت کی تھی پس میں اس کی شادی اس کے ماموں زاد عبداﷲ بن عمر سے کر دی۔ میں نے اس کی بھلائی اور کفو میں کوئی کمی نہ کی لیکن یہ عورت اپنی ماں کی خواہش کی طرف مائل ہو گئی اس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ یتیم ہے، لہٰذا اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ راوی کہتے ہیں : اس کے بعد میرا اس کے مالک بننے کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا اور اس نے مغیرہ سے شادی کر لی۔

1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 130، رقم : 6136 2. دارقطني، السنن، 3 : 230 3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 113، 120، رقم : 13434، 13470 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 280

ایک دوسری سند کے ساتھ مروی حدیث مبارکہ میں ان الفاظ کا اضافہ ہے

فأمره النبي صلي الله عليه وآله وسلم أن يفارقها، وقال : لا تنکحوا اليتامٰي حتي تستأمروهن فإن سکتن فهو إذنهن

پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی علیحدگی کا حکم دیا اور فرمایا : یتیم بچیوں کا نکاح ان کے اجازت کے بغیر نہ کیا جائے پس اگر وہ خاموش رہیں تو وہی ان کی اجازت ہے۔

بيهقي، السنن الکبري، 7 : 121

(3) مہر کا حق

اسلام نے عورت کو ملکیت کا حق عطا کیا۔ عورت کے حق ملکیت میں جہیز اور مہر کا حق بھی شامل ہے۔ قرآن حکیم نے مردوں کو نہ صرف عورت کی ضروریات کا کفیل بنایا بلکہ اُنہیں تلقین کی کہ اگر وہ مہر کی شکل میں ڈھیروں مال بھی دے چکے ہوں تو واپس نہ لیں، کیونکہ وہ عورت کی ملکیت بن چکا ہے

وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناًO

اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم بہتان تراشی کے ذریعے اور کھلا گناہ کر کے وہ مال واپس لو گےo

القرآن، النساء، 4 : 20

لاَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَO

تم پر اس بات میں (بھی) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نے (اپنی منکوحہ) عورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں (ایسی صورت میں) مناسب خرچہ دیدو، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق (لازم) ہے اور تنگدست پر اس کی حیثیت کے مطابق (بہرطور) یہ خرچ مناسب طریق پر دیا جائے، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہےo

القرآن، البقره، 2 : 236

(4) حقوقِ زوجیت

مرد پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ حتی الوسع حقوق زوجیت ادا کرنے سے دریغ نہ کرے۔ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر خاوند بیوی کو دق کرنا چاہتا تو قسم کھا لیتا کہ میں بیوی سے مقاربت نہیں کروں گا اسے اصطلاح میں ایلاء کہتے ہیں۔ اس طرح عورت معلقہ ہو کر رہ جاتی ہے، نہ مطلقہ نہ بیوہ (کہ اور شادی ہی کر سکے) اور نہ شوہر والی۔ کیونکہ شوہر نے اس سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ یہ رویہ درست نہیں کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے حلال ٹھہرائی ہے، انسان کا کوئی حق نہیں کہ اسے اپنے اُوپر حرام قرار دے لے۔ قرآن کہتا ہے

لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO

جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں تو ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے۔ پھر اگر وہ اس مدت کے اندر رجوع کر لیں اور آپس میں ملاپ کر لیں تو اللہ رحمت سے بخشنے والا ہےo

القرآن، البقره، 2 : 226

یعنی اگر بیوی کی کسی غلطی کی وجہ سے تم نے یہ قسم کھائی ہے تو عفو و درگزر کرتے ہوئے اسے معاف کر دو، اور اگر کسی معقول سبب کے بغیر تم نے یوں ہی قسم کھالی تھی تو قسم کا کفارہ دے کر رجوع کر لو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیوں کو بخش دے گا۔ اگر خاوند چار ماہ تک رجوع نہ کرے، تو پھر بعض فقہاء کے نزدیک خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

قال النبي : صلي الله عليه وآله وسلم إنک لتصوم الدهر و تقوم اليل. فقلت : نعم، قال : انک اذا فعلت ذلک هجمت له العين، و نفهت له النفس، لا صام من صام الدهر، صوم ثلاثة أيام صوم الدهر کله. قلت : فاني أطيق أکثر من ذلک، قال فصم صوم داؤد عليه السلام، کان يصوم يوما و يفطر يوما

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہمیشہ روزہ رکھتے اور ہمیشہ قیام کرتے ہو؟ میں عرض گزار ہوا : جی۔ فرمایا : اگر ایسا کرتے رہو گے تو تمہاری آنکھوں میں گڑھے پڑ جائیں گے اور تمہارا جسم بے جان ہو جائے گا، نیز ہر مہینے میں تین روزے رکھنا گویا ہمیشہ روزہ رکھنا ہے۔ میں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا : داؤد علیہ السلام والے روزے رکھ لیا کرو جو ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو پیٹھ نہیں دکھاتے تھے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم داود، 2 : 698، رقم : 1878 2. مسلم، الصحيح، کتاب الصوم، باب نهي عن صوم الدهر، 2 : 813، رقم : 1159 3. ترمذي، السنن، کتاب الصوم عن رسول اﷲ، باب ما جاء في سرد الصوم، 3 : 140، رقم : 770 4. دارمي، السنن، 2 : 33، رقم : 1752 5. ابن حبان، الصحيح، 6 : 325، رقم : 2590، 14 : 118، رقم : 6226 6. ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 181، رقم : 1145 7. بيهقي، السنن الصغري، 1 : 477، رقم : 838 8. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 193 9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 530

عبادت میں زیادہ شغف بھی بیوی سے بے توجہی کا باعث ہوسکتا ہے۔ اگر خاوند دن بھر روزہ رکھے اور راتوں کو نمازیں پڑھتا رہے تو ظاہر ہے کہ وہ بیوی کے حقوق ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی لیے صوم وصال یعنی روزے پر روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے اور زیادہ سے زیادہ صوم داؤدی کی اجازت دی ہے کہ ایک دن روزہ رکھو، ایک دن نہ رکھو۔

اسی طرح عبادت میں بھی اعتدال کا حکم فرمایا

عن عون بن ابي حجيفه، عن ابيه قال : اخي النبي صلي الله عليه وآله وسلم بين سلمان و ابي الدرداء فزار سلمان ابا الدرداء فرأي ام الدرداء متبذلة، فقال لها : ماشانک؟ قالت : اخوک ابوالدرداء ليس له حاجة في الدنيا، فجاء ابوالدرداء فصنع له طعاما، فقال : کل. قال : فاني صائم، قال : ما انا باٰکل حتي تاکل، قال : فاکل، فلما کان الليل ذهب ابوالدرداء يقوم. قال : نم، فنام ثم ذهب يقوم. فقال : نم، فلما کان من اخر الليل قال سلمان، قم الان فصليا. فقال له سلمان : ان لربک عليک حقا ولنفسک عليک حقا ولاهلک عليک حقا فاعط کل ذي حق حقه. فاتي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فذکر ذلک له فقال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : صدق سلمان.

حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابودرداء رضی اﷲ عنہما کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا تھا۔ حضرت سلمان ایک روز حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے مکان پر گئے۔ اُم درداء کو غمگین دیکھا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا : کہو، یہ کیا حال کر رکھا ہے؟ اُم درداء کہنے لگیں : تمہارے بھائی ابودرداء کو دُنیا کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنے میں ابودرداء آ گئے، کھانا تیار کروایا گیا اور کہا کہ آپ کھائیں۔ سلمان بولے میرا روزہ ہے۔ ابودرداء نے کہا جب تک تم نہیں کھاؤ گے میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ جب رات ہوئی (اور دونوں نے کھانا کھا لیا) تو ابودرداء نماز کے لیے اُٹھنے لگے۔ سلمان بولے سو جاؤ۔ اس پر ابودرداء سو گئے۔ (رات گئے پھر کسی وقت) اُٹھے اور (نماز کے لیے) جانے لگے تو سلمان نے پھر کہا سو جاؤ۔ ابودرداء پھر سو گئے۔ اخیر رات میں سلمان نے کہا، اب اُٹھو۔ چنانچہ دونوں نے اُٹھ کر نماز ادا کی۔ پھر سلمان کہنے لگے، تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے، اور نفس کا بھی، اور گھر والوں کا بھی۔ لہٰذا ہر ایک حقدار کا حق ادا کرو۔ دن میں جب ابودرداء حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سلمان نے سچ کہا۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب من أقسم علي أخيه، 2 : 694، رقم : 1867 2. ترمذي، السنن، کتاب الزهد، باب منه، 4 : 608، رقم : 2413 3. ابويعليٰ، المسند، 2 : 193، رقم : 898 4. واسطي، تاريخ واسط، 1 : 233 5. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 2 : 637 6. زيلعي، نصب الراية، 2 : 465

اسی طرح کا واقعہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے متعلق بیان ہوا ہے۔ حضرت عثمان بہت عبادت گزار اور راہبانہ زندگی بسر کرنے والے تھے۔ ایک دن ان کی بیوی خولہ بنت حکیم حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس آئیں، تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہ ہر طرح کے زنانہ بناؤ سنگھار سے عاری ہیں۔ پوچھا کہ کیا سبب ہے؟ بولیں کہ میرے میاں دن بھر روزہ رکھتے ہیں، رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں۔ میں سنگھار کس کے لیے کروں؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے قصہ بیان کیا۔ اس پر حضور علیہ السلام عثمان کے پاس گئے اور اُن سے فرمایا

يا عثمان! ان الرهبانية لم تکتب علينا، أفمالک في أسوة؟

عثمان ہمیں رہبانیت کا حکم نہیں ہوا ہے۔ کیا تمہارے لیے میرا طرزِ زندگی پیروی کے لائق نہیں؟

1. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 226، رقم : 25935 2. ابن حبان، الصحيح، 1 : 185، رقم  9 3. عبدالرزاق، المصنف، 6 : 168، رقم : 10375 4. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 150، رقم : 12591 5. طبراني، المعجم الکبير، 9 : 38، رقم : 8319 6. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 313، رقم : 1288 7. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 452

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بارے میں صحابہ سے خاص طور پر فرمایا

واﷲ! اني لأخشاکم ﷲ و اتقاکم له لکني أصوم وأفطر وأصلي وأرقد، واتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني

خدا کی قسم، میں تمہاری نسبت خدا سے بہت زیادہ ڈرتا ہوں اور بہت متقی ہوں۔ اس کے باوجود روزہ بھی رکھتا ہوں، اور افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز بھی پڑھتا ہوں، سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب ترغيب النکاح، 5 : 1949، رقم : 4776 2. مسلم، الصحيح، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح، 2 : 1020، رقم : 1401 3. نسائي، السنن، کتاب النکاح، باب النهي عن التبتل، 6 : 60، رقم : 3217 4. ابن حبان، الصحيح، 1 : 190، رقم : 14 5. ابن حبان، الصحيح، 2 : 20، رقم : 317 6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 77، رقم : 13226 7. احمد بن حنبل، مسند، 2 : 158، رقم : 6478 8. عبد بن حميد، مسند، 1 : 392، رقم : 1318 9. بيهقي، شعب الايمان، 4 : 381، رقم : 5377 10. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 30، رقم : 2953 11. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 4 : 358، رقم : 7030 12. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 105

اس کے مقابلے میں عورت کو بھی یہ حکم دیا کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔ ارشاد فرمایا

لا تصوم المرأة وبعلها شاهد إلا باذنه

اپنے خاوند کی موجودگی میں عورت (نفلی) روزہ نہ رکھے مگر اس کی اجازت سے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم المرأة، 5 : 1993، رقم : 4896 2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الصوم، باب ما جاء في کراهية، 3 : 151، رقم : 782 3. ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب المرأة تصوم، 2 : 230، رقم : 2458 4. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 247، رقم : 3289 5. دارمي، السنن، 2 : 21، رقم : 1720 6. ابن حبان، الصحيح، 8 : 339، رقم : 3572 7. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 319، رقم : 2168 8. حاکم، المستدرک، 4 : 191، رقم : 7329 9. بيهقي، السنن الکبريٰ، 4 : 192، رقم : 7639 10. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 200

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کے حق کی اہمیت کو اپنی سنت مبارکہ سے واضح فرمایا۔ آپ کا طریقہ مبارک یہ تھا کہ کسی سفر یا غزوہ پر تشریف لے جاتے تو بیویوں میں قرعہ ڈالتے اور جس کے نام قرعہ نکل آتا، اُسے ساتھ لے جاتے۔

بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب القرعة بين النساء، 5 : 1999، رقم : 4913

ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ حسبِ معمول شہر میں گشت کر رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک عورت کی زبان سے یہ شعر سنے

تطاول هذا الليل تسري کواکبه وارَّقني ان لاضجيع ألاعبه

فواﷲ لولا اﷲ تخشي عواقبه لَزُحزِحَ من هذا السرير جوانبه

(یہ رات کس قدر لمبی ہو گئی ہے۔ اور اس کے کنارے کس قدر چھوٹے ہو گئے ہیں اور میں رو رہی ہوں کہ میرا شوہر میرے پاس نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ہنس کھیل کر اس رات کو گزار دوں۔ خدا کی قسم خدا کا ڈرنہ ہوتا تو اس تخت کے پائے ہلا دیئے جاتے۔ )

سيوطي، تاريخ الخلفاء : 139

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سُن کر افسوس کیا اور فوراً اپنی صاحبزادی اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس گئے اور پوچھا بیٹی! ایک عورت شوہر کے بغیر کتنے دن گزار سکتی ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا : چار ماہ۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کر دیا کہ کوئی شخص چار ماہ سے زیادہ فوج کے ساتھ باہر نہ رہے۔ خود قرآن حکیم نے یہ معیاد مقرر کی ہے

لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO

جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ پھر اگر وہ (اس مدت کے اندر) رجوع کر لیں (اور آپس میں میل ملاپ کرلیں) تو اللہ رحمت سے بخشنے والاہےo

القرآن، البقره، 2 : 226

گویا یہاں قرآن حکیم نے اس امر کو واضح کر دیا کہ خاوند اور بیوی زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک علیحدہ رہ سکتے ہیں، اس سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ اگر وہ اس دوران صلح کر لیں تو درست ہے۔ اس سے زیادہ بیوی اور شوہر کا الگ الگ رہنا دونوں کے لیے جسمانی، روحانی اور اخلاقی لحاظ سے مضر ہے۔ یہی حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے جواب کا مقصود تھا اور اسی کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم نافذ کیا۔

(5) کفالت کا حق

مرد کو عورت کی جملہ ضروریات کا کفیل بنایا گیا ہے۔ اس میں اُس کی خوراک، سکونت، لباس، زیورات وغیرہ شامل ہیں

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ

مرد عورتوں پر محافظ و منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔

القرآن، النساء، 4 : 34

وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلََى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَ تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَهَا لاَ تُضَآرَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاً عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُواْ أَوْلاَدَكُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّآ آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌO

اور مائیں اپنے بچوں کو دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ کے ذمہ ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُسے خوب دیکھنے والا ہےo

القرآن، البقره، 2 : 233

وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَO

اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہےo

القرآن، البقره، 2 : 241

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ.

اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں۔

القرآن، الطلاق، 65 : 1

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىO لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًاO

تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کردو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گیo صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہیے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کردیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گاo

القرآن، الطلاق، 65 : 6، 7

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں عورت کے اس حق کی پاسداری کی تلقین فرمائی

1. فاتقو اﷲ في النساء فإنکم اخذتموهن بامان اﷲ واستحللتم فروجهن بکلمة اﷲ، ولکم عليهن ان لا يوطئن فرشکم احدا تکرهونه، فان فعلن ذلک فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن عليکم رزقهن و کسوتهن بالمعروف

عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر اپنے ماتحت کیا ہے اور اللہ کے کلمہ (نکاح) سے انہیں اپنے لیے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ کسی آدمی کو تمہارا بستر نہ روندنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم اُن کو ایسی سزا دو جس سے چوٹ نہ لگے اور ان کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم انہیں دستور (شرعی) کے موافق خوراک اور لباس فراہم کرو۔

1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 889، رقم : 1218 2. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب حجة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 1025، رقم : 3074 3. ابن حبان، الصحيح، 4 : 311، 9 : 257 4. دارمي، السنن، 2 : 69، رقم : 1850 5. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 336، رقم : 14706 6. عبد بن حميد، المسند، 1 : 343، رقم : 1135 7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 144، رقم : 13601 8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 295، رقم : 14502 9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 272 10. ابن حزم، المحلي، 9 : 510، 10 : 72 11. ابن قدامه، المغني، 3 : 203 12. اندلسي، حجة الوداع، 1 : 169، رقم : 92 13. محمد بن اسحاق، اخبار مکة، 3 : 127، رقم : 1891 14. ابونعيم، المسند، 3 : 318، رقم : 2828 15. ابوطيب، عون المعبود، 5 : 263 16. ابن حبان، الثقات، 2 : 128 17. اندلسي، تحفة المحتاج، 2 : 161

2حکیم بن معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں

أن رجلا سأل النبي صلي الله عليه وآله وسلم : ما حق المرأة علي الزوج؟ قال : أن يطعمها إذا طعم، و أن يکسوها إذا اکتسي، ولا يضرب الوجه، ولا يقبح، ولا يهجر إلا في البيت

ایک آدمی نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : عورت کا خاوند پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے، اس کے منہ پر نہ مارے، اُسے برا نہ کہے اور گھر کے علاوہ تنہا کہیں نہ چھوڑے۔

1. ابن ماجه، السنن، کتاب النکاه، باب حق المرأة، 1 : 593، رقم : 1850 2. ابو داؤد، السنن، کتاب النکاح، باب في حق المرأة، 2 : 244، رقم : 2142 3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الرضاع، باب ماجاء في حق المرأة، 3 : 466، رقم : 1162 4. نسائي، السنن الکبري، 5 : 373، رقم : 1971 5. نسائي، السنن الکبري، 6 : 323، رقم : 11104 6. ابن حبان، الصحيح، 9 : 482، رقم : 4175 7. بيهقي، السنن الکبري، 7 : 295 8. هيثمي، موارد الظمآن : 313، رقم : 1286

3حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ہندہ کے اپنے خاوند کی کنجوسی کی شکایت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

خذي ما يکفيک و ولدک بالمعروف

تو (ابوسفیان کے مال سے) اتنا مال لے سکتی ہے جو تجھے اور تیرے بچوں کے لیے باعزت طور پر کافی ہو۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب النفقات، باب إذا لم ينفق الرجل، 5 : 2052، رقم : 5049 2. ابن ماجه، السنن، کتاب التجارات، باب التغليظ في الرباء 2 : 769، رقم : 2293 3. دارمي، السنن، 2 : 211، رقم : 2259 4. ابن راهويه، المسند، 2 : 224، رقم : 732 5. ابويعليٰ، المسند، 8 : 98، رقم : 4636 6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 270، رقم : 2187 7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 8 : 237 8. ابن قدامه، المغني، 8 : 156، 161؛ 10 : 276 9. شوکاني، نيل الاوطار، 7 : 131

اگر نفقہ واجب نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے ابوسفیان کی اجازت کے بغیر مال لینے کی اجازت نہ فرماتے۔

مسلم فقہاء نے عورت کے اس حق کو نہ صرف قرآن و سنت بلکہ اجماع و عقلی طور پر بھی ثابت قرار دیا۔ الکاسانی کے مطابق

جہاں تک اجماع سے وجوبِ نفقہ کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں پوری امت کا اجماع ہے کہ خاوند پر بیوی کا نفقہ واجب ہے۔

عقلی طور پر شوہر پر بیوی کا نفقہ واجب ہونا اس طرح ہے کہ وہ خاوند کے حق کے طور پر اس کی قید نکاح میں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی قید نکاح کا نفع بھی خاوند ہی کو لوٹ رہا ہے لہٰذا اس کی کفالت بھی خاوند کے ذمہ ہی ہونی چاہئے۔ اگر اس کی کفالت کی ذمہ داری خاوند پر نہ ڈالی جائے اور نہ وہ خود خاوند کے حق کے باعث باہر نکل کر کما سکے تو اس طرح وہ ہلاک ہو جائے گی لہٰذا اس کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قاضی کا خرچہ مسلمانوں کے بیت المال سے مقرر کیا گیا ہے کیونکہ وہ انہی کے کام میں محبوس (روکا گیا) ہے اور کسی دوسرے ذریعے سے کمائی نہیں کرسکتا لہٰذا اس کے اخراجات ان کے مال یعنی بیت المال سے وضع کیے جائیں گے۔ اسی طرح یہاں (عورت کے نفقہ میں) ہے۔

کاساني، بدائع الصنائع، 4 : 46

(6) اِعتماد کا حق

عورت کا مرد پر یہ بھی حق ہے کہ وہ عورت پر اعتماد کرے، گھر کے معاملات میں اس سے مشورہ کرتا رہے۔ خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اس معاملے میں یہی تھا۔ قرآن حکیم میں ہے

وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ.

اور جب نبیء (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنی ایک زوجہ سے ایک رازدارانہ بات ارشاد فرمائی، پھر جب وہ اُس (بات) کا ذکر کر بیٹھیں اور اللہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اسے ظاہر فرما دیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس کا کچھ حصّہ جِتا دیا اور کچھ حصّہ (بتانے) سے چشم پوشی فرمائی۔

القرآن، التحريم، 66 : 3

گھریلو معاملات میں عورت، مرد کی راز دان ہے لیکن اگر عورت غلطی یا نادانی سے کوئی خلاف مصلحت کام کر بیٹھے تو مرد کو چاہیے کہ اس کی تشہیر نہ کرے، نہ اسے اعلانیہ ملامت کرے، جس سے معاشرے میں اس کی سبکی ہو۔ عورت کی عزت و وقار کی حفاظت مرد کا فرض اوّلین ہے کیونکہ یہ خود اس کی عزت اور وقار ہے۔ عورت کی سبکی اُس کی عزت اور وقار کے مجروح ہونے کا باعث بنتی ہے۔ مرد کوچاہیے کہ اسے اس کی غلطی سے آگاہ کر دے اور آئندہ کے لیے اسے محتاط رہنے کا مشورہ دے۔ قرآن حکیم نے عورت اور مرد کے تعلقات کو ایک نہایت لطیف مثال کے ذریعے بیان کیا ہے۔

هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ.

عورتیں تمہارے لیے لباس (کا درجہ رکھتی) ہیں اور تم ان کے لیے لباس (کا درجہ رکھتے) ہو۔

القرآن، البقره، 2 : 187

اور لباس سے متعلق ایک دوسری جگہ کہا

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا.

اے لوگو! ہم نے تمہیں لباس دیا ہے، جو تمہارے عیب ڈھانکتا ہے اور تمہاری زینت (اور آرائش کا ذریعہ ) ہے۔

القرآن، الاعراف، 7 : 26

یعنی مرد اور عورت ایک دوسرے کی خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرنے والے ہیں۔ مرد کا فرض ہے کہ وہ عورت کی غلطیوں پر پردہ ڈالے اور عورت کو چاہیے کہ وہ مرد کے نقائص ظاہر نہ ہونے دے۔

(7) حسنِ سلوک کا حق

ازدواجی زندگی میں اگر مرد اور عورت کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں تو ذمہ داریاں بھی ہیں۔ پہلے مرد کو حکم دیا

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.

عورتوں کے ساتھ معاشرت میں نیکی اور انصاف ملحوظ رکھو۔

القرآن، النساء، 4 : 19

اسلام سے پہلے عرب میں عورت کی خاندانی زندگی نہایت قابل رحم تھی۔ قدر و منزلت تو درکنار اسے جانوروں سے زیادہ وقعت نہیں دی جاتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

ان کنا في الجاهلية ما نعد للنساء امرا حتي انزل اﷲ تعالي فيهن ما انزل و قسم لهن ما قسم

خدا کی قسم زمانہ جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی، حتیٰ کہ خدا نے ان سے متعلق جو احکام نازل کرنا چاہے نازل کر دیئے اور جو حقوق ان کے مقرر کرنا تھے، مقرر کر دیئے۔

1. مسلم، الصحيح، کتاب النکاح، باب حکم العزل، 2 : 1108، رقم : 1479 2. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب تبتغي مرضاة، 4 : 1886، رقم : 4629 3. ابوعوانه، المسند، 3 : 167 4. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 658، رقم : 4629 5. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 281

اور تو اور عورت، جانوروں اور دوسرے ساز و سامان کی طرح رہن تک رکھی جاسکتی تھی۔

بخاري، الصحيح، کتاب الرهن، باب رهن السلاح، 2 : 887، رقم : 2375

وہ رہن ہی نہیں رکھی جاتی تھی بلکہ فروخت بھی کی جاتی تھی غرضیکہ وہ محض مرد کی خواہشات نفسانی کی تسکین کا ذریعہ تھی اور مرد پر اس کی طرف سے کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی۔ اسلام نے بتایا کہ عورت کے بھی مرد پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مرد کے عورت پر ہیں اور وہ ہر طرح کے انصاف اور نیک سلوک کی حقدار ہے۔

اسلام نے نکاح کو ایک معاہدہ قرار دے کر بھی اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے

وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًاO

اور تمہاری عورتیں تم سے مضبوط عہد لے چکی ہیںo

القرآن، النساء، 4 : 21

اس مضبوط عہد کی تفسیر خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں یوں فرمائی

اتقوا اﷲ في النساء فانکم اخذتموهن بامانة اﷲ

عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور امانت لیا ہے۔

1. ابوداؤد، السنن، کتاب المناسک، باب صفة حجةالنبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 185، رقم : 1905 2. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب حجة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 1025، رقم : 3074 3. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 421، رقم : 4001 4. ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 251، رقم : 2809 5. دارمي، السنن، 2 : 69، رقم : 1850 6. عبد بن حميد، المسند، 1 : 343، رقم : 1135 7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 8 8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 144، 295، 304 9. ابن قدامه، المغني، 3 : 203

گویا نکاح کو ایک امانت قرار دیا ہے اور جیسے ہر ایک معاہدے میں دونوں فریقوں کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اور ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں، اسی طرح امانت کا حال ہے۔ چونکہ نکاح ایک معاہدہ اور ایک امانت ہے، اس لیے جیسے مرد کے عورت پر بعض حقوق ہیں، ویسے ہی عورت کی طرف سے اس کے ذمے بعض فرائض بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے عورتوں سے گھریلو زندگی میں نیکی اور انصاف کا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

خيرکم خيرکم لأهله

تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنے اہل (یعنی بیوی بچوں) کے لیے اچھا ہے۔

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فضل أزواج النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5  907، رقم : 3895 2. ابن ماجه، السنن، کتاب النکاح، باب حسن معاشرة النساء، 1 : 636، رقم : 1977 3. ابن حبان، الصحيح، 9 : 484، رقم : 4177 4. دارمي، السنن، 2 : 212، رقم : 2260 5. بزار، المسند، 3 : 197، رقم : 974 6. طبراني، المعجم الکبير، 19 : 363، رقم : 853 7. قضاعي، مسند الشهاب، 2 : 227، رقم : 1243 8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 468

(8) تشدد سے تحفظ کا حق

خاوند پر بیوی کا یہ حق ہے کہ وہ بیوی پر ظلم اور زیادتی نہ کرے

وَلاَ تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لَّتَعْتَدُواْ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلاَ تَتَّخِذُواْ آيَاتِ اللّهِ هُزُوًا

اور ان کو ضرر پہنچانے اور زیادتی کرنے کے لئے نہ روکے رکھو۔ جو ایسا کرے گا اس نے گویا اپنے آپ پر ظلم کیا اور اللہ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو۔

القرآن، البقره، 2 : 231

یہ آیت ان احکام سے متعلق ہے جہاں خاوند کو بار بارطلاق دینے اور رجوع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ بعض خاوند بیوی کو دق کرنا چاہتے ہیں اس لئے اسے معروف طریقے سے طلاق دے کر آزاد نہیں کر دیتے، بلکہ طلاق دیتے ہیں اورپھر رجوع کر لیتے ہیں، پھر طلاق دیتے ہیں اور پھر کچھ دن کے بعد رجوع کر لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت ایک دائمی اذیت میں مبتلا رہتی ہے۔ یہ گویا اللہ کے احکام اور رعایتوں سے تمسخر ہے۔ اس سے منع فرمایا گیا کہ ان کو ظلم اور زیادتی کے لئے نہ روک رکھو۔ اس آیت مبارکہ میں یہاں ایک عام اصول بیان کر دیا ہے کہ عورت پر ظلم اور زیادتی نہ کرو۔ ظلم اور زیادتی کی تعیین نہیں کی، کیونکہ یہ جسمانی بھی ہوسکتی ہے، ذہنی اور روحانی بھی۔

(9) بچوں کی پرورش کا حق

اس امر میں اُمتِ مسلمہ کا اجماع ہے کہ بچہ کی پرورش کی مستحق سب سے پہلے اُس کی ماں ہے۔ البتہ اس اَمر میں اختلاف ہے کہ بچہ یا بچی کی پرورش کا حق ماں کو کتنی عمر تک رہتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک جب بچہ خود کھانے پینے، لباس پہننے اور استنجاء کرنے لگے تو اُس کی پرورش کا حق ماں سے باپ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ لڑکے کی اس حالت کو پہنچنے کی عمر کا اندازہ علامہ خصاف نے سات آٹھ سال بیان کیا ہے، البتہ ماں کو لڑکی کی پرورش کا حق اس کے بالغ ہونے تک ہے۔ یہی قول امام ابو یوسف کا ہے۔ امام محمد کے نزدیک جب لڑکی میں نفسانی خواہش ظاہر ہو تو اس وقت تک ماں کو پرورش کا حق حاصل ہے۔ متاخرین احناف نے امام محمد کے قول کو پسند کیا ہے۔

1. داماد آفندي، مجمع الانهر، 1 : 481، 482 2. کاساني، بدائع الصنائع، 4 : 42 3. ابن همام، فتح القدير، 3 : 316

ماں کو بچہ کی پرورش کا حق حاصل ہونے کے بارے میں قرآن کریم میں کوئی آیت ظاہر نص کے طور پر تو موجود نہیں مگر اقتضاء نص کے طور پر فقہاء کرام نے آیتِ رضاعت۔ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ.  سے ثابت کیا ہے کہ صغر سنی میں بچہ کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے۔

فقہاء کرام نے مذکورہ آیت مبارکہ کے ساتھ ساتھ درج ذیل احادیث سے بھی استدلال کیا ہے

1 جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کے بعد نکلے تو حمزہ کی بیٹی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعاقب کیا اور آواز دی : اے چچا! اے چچا! پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بچی کا ہاتھ پکڑ لیا اور سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے کہا : اپنے چچا کی بیٹی کو لو۔ چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے اُسے اُٹھا لیا۔ اس بارے میں حضرت زید، علی اور جعفر رضی اللہ عنھم کا جھگڑا ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے اسے لے لیا ہے کیونکہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور جعفر نے کہا : وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے جبکہ زید نے کہا کہ وہ میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا

الخالة بمنزلة الأم

خالہ ماں کے درجہ میں ہے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصلح، باب کيف يکتب هذا، 2 : 960، رقم : 2552 2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب عمرة القضاء، 4 : 1551، رقم : 4005 3. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب من أحق بالوالد، 2 : 284، رقم : 2280 4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 127، 168، رقم : 8456، 8578 5. بيهقي، السنن الکبري، 8 : 5، 6 6. مقدسي، الأحاديث المختاره، 2 : 392، 393، رقم : 779

2حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا

يا رسول اﷲ! ان ابني هذا، کان بطني له وعاء، و ثديي له سقاء، و حجري له حواء، و إن أباه طلقني و أراد أن ينتزعه مني

اے اﷲ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے جس کے لئے میرا پیٹ ظرف تھا اور میری چھاتی مشکیزہ اور میری گود اس کے لئے پناہ گاہ تھی۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے لے لے۔

اس پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

أنت أحق به ما لم تنکحي

تو اپنے بچہ کی زیادہ مستحق ہے جب تک کہ تو (دوسرا) نکاح نہ کرلے۔

1. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب نفقة، 2 : 283، رقم : 2276 2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 182 3. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 153، رقم : 2276 4. دارقطني، السنن، 3 304، 305 5. حاکم، المستدرک، 2 : 225 6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 4، 5

3حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک انصاری عورت اُمِ عاصم کو طلاق دی۔ عاصم اپنی نانی کے زیرِ پرورش تھا۔ اُس کی نانی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تنازعہ پیش کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا

أن يکون الولد مع جدته، والنفقة علي عمر، وقال : هي أحق به

لڑکا اپنی نانی کے پاس رہے گا، عمر کو نفقہ دینا ہو گا۔ اور کہا : یہ نانی اس بچہ کی (پرورش کرنے کی) زیادہ حق دار ہے۔

1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 5 2. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 155، رقم : 12602

ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس لڑکے کی ماں کے حق میں فیصلہ کیا پھر فرمایا کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا

لا توله والدة عن ولدها

والدہ کو اس کے بچہ سے مت چھڑاؤ۔

بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 5

عبدالرحمن بن ابی زناد اہل مدینہ سے فقہاء کا قول روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خلاف ان کے بیٹے عاصم کے حق میں فیصلہ کیا کہ اس کی پرورش اس کی نانی کرے گی یہاں تک کہ عاصم بالغ ہوگیا، اور اُم عاصم اُس دن زندہ تھی اور (دوسرے شخص کے) نکاح میں تھی۔

بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 5

ابو حسین مرغینانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

ولأن الأم أشفق وأقدر علي الحضانة، فکان الدفع إليها أنظر، و إليه أشار الصديق رضي الله عنه بقوله ريقها خير له من شهد و عسل عندک يا عمر

یعنی اس لئے کہ ماں بچہ کے حق میں انتہا سے زیادہ شفیق ہوتی ہے اور نگرانی و حفاظت پر مرد کی نسبت زیادہ قدرت رکھتی ہے۔ اسی شفقت کی طرف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول میں اشارہ کیا ہے : اے عمر! بچے کی ماں کا لعاب دہن بچے کے حق میں تمہارے شہد سے بھی زیادہ شیریں ہو گا۔

مرغيناني، الهداية، 2 : 37

مرغینانی مزید لکھتے ہیں

باپ کی نسبت ماں اس لئے زیادہ شفیق ہوتی ہے کہ حقیقت میں بچہ ماں کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات بچہ کو قینچی کے ذریعے کاٹ کر ماں سے جدا کیا جاتا ہے اور عورت اسی پرورش میں مشغول ہونے کی وجہ سے حضانت پر زیادہ حق رکھتی ہے بخلاف مرد کے کہ وہ مال حاصل کرنے پر زیادہ قدرت رکھتا ہے۔

اسی طرح امام شافعی نے استدلال میں یہی احادیث پیش کی ہیں اور والدہ کے تقدم کی علت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے

فلما کان لا يعقل کانت الأم أولي به علي أن ذلک حق للولد لا لأبوين، لأن الأم أحني عليه و أرق من الأب

پس جب کہ بچہ نا سمجھ ہو تو ماں اس کی پرورش کی زیادہ حق دار ہے کیونکہ یہ بچہ کا حق ہے نہ کہ والدین کی محبت و الفت و شفقت کے درجات کا۔

شافعي، الأم، 8 : 235

ابن قدامہ حنبلی اپنی کتاب المغنی (7 : 613، 614) میں لکھتے ہیں

الأم أحق بکفالة الطفل و المعتوة إذا طلقت. . . ولأنها أقرب إليه و أشفق عليه ولا يشارکها في القرب إلا أبوه، و ليس له مثل شفقتها، ولايتولي الحضانة بنفسه و إنما يدفعه إلي امرأته و أمه أولي به من أم أبيه

بچے اور عدیم العقل کی پرورش کی ماں زیادہ حق دار ہے جبکہ اُسے طلاق دے دی گئی ہو۔ ۔  کیونکہ بچہ سے زیادہ قریب اور زیادہ شفقت رکھنے والی ماں ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ اس قرب و شفقت میں باپ کے علاوہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا مگر اس کے باوجود حقیقت تویہ ہے کہ باپ بھی ماں جیسی شفقت نہیں رکھتا، اور نانی دادی کی نسبت سے اولیٰ ہو گی۔

ابن قدامہ مزید لکھتے ہیں

و الحضانة إنما تثبت لحظ الولد فلا تشرع علي وجه يکون فيه هلاکه و هلاک دينه

اور حضانت بچے کی بہبود و فلاح کے پیش نظر مقرر کی گئی ہے، لہٰذا کسی ایسے طریقے پر درست نہ ہو گی جس سے بچے کی ذات اور دین ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔

(10) خلع کا حق

اگر عورت اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن نہ ہو اور اپنے شوہر کی بداخلاقی، مکاری یا اُس کی کمزوری سے نالاں ہو جائے اور اُسے ناپسند کرے اور اُسے خوف ہو کہ حدود اللہ کی پاسداری نہ کر سکے گی تو وہ شوہر سے خلع حاصل کر سکتی ہے اور یہ کسی عوض کے بدلے ہو گا جس سے وہ اپنی جان چھڑائے۔ اس کی دلیل یہ آیت قرآنی ہے

فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ.

پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو (اندریں صورت) ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی حاصل کر لے۔

القرآن، البقره، 2 : 229

شریعتِ مطہرہ نے طلاق کو صرف شوہر کا حق قرار دیا ہے، کیونکہ شوہر ہی خاص طور سے رشتہ زوجیت قائم رکھنے کا خواہاں ہوتا ہے اور وہ زوجیت کی بناء پر کافی مال خرچ کر چکا ہوتا ہے، اس لئے وہ طلاق نہ دینے کو ترجیح دیتا ہے کیوں کہ طلاق کی صورت میں اسے مؤخر شدہ مہر اور عورت کے دوسرے مالی حقوق ادا کرنا پڑتے ہیں۔

چونکہ بیوی پر شوہر کے کوئی مالی حقوق واجب نہیں ہوتے، اس لئے شریعت نے طلاق کا حق مرد کو دیا ہے اور عورت کے لئے خلع کا حق رکھا ہے تاکہ اس کے پاس بھی تفریق کا حق موجود ہو۔

عورت کے اس حق کو احادیث مبارکہ میں یوں بیان کیا گیا

عن ابن عباس : أن امرأة ثابت بن قيس أتت النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقالت : يا رسول اﷲ. ثابت بن قيس، ما اعتب عليه في خلق ولا دين، ولکني اکره الکفر في الاسلام. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أتردين عليه حديقته؟ قالت : نعم. قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : اقبل الحديقة و طلقها تطليقة

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس کی اہلیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں : یارسول اللہ! میں کسی بات پر ثابت بن قیس سے ناخوش نہیں ہوں، نہ ان کے اخلاق سے اور نہ ان کے دین سے، لیکن میں اسلام میں احسان فراموش بننا ناپسند کرتی ہوں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تم ان کا باغ واپس دینا چاہتی ہو؟ اُنہوں نے کہا : ہاں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کا باغ دیدو اور ان سے طلاق لے لو۔

بخاري، الصحيح، کتاب الطلاق، باب الخلع 5 : 2021، رقم : 4971

تاہم اگر شوہر صحیح ہو اور عورت کے تمام شرعی حقوق پورے کرتا ہو تو اس حالت میں خلع لینا دُرست نہیں ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

ايما امرأة سألت زوجها الطلاق ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة

جو کوئی عورت اپنے شوہر سے بلاوجہ طلاق مانگے اُس پر جنت کی خوشبوحرام ہے۔

احمد بن حنبل، المسند، 5 : 277، رقم : 22433

خلع عورت کا ایسا حق ہے کہ جب عورت خلع لے لیتی ہے تو اپنے نفس کی مالک ہو جاتی ہے اور اُس کا معاملہ خود اُس کے ہاتھ میں آجاتا ہے، کیونکہ اس شخص کی زوجیت سے آزادی کے لئے اس نے مال خرچ کیا ہے۔

خلع کو عورت کے لئے مرد سے چھٹکارے کا ذریعہ بنایا گیا ہے کہ جب وہ اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہو اور اُس کے ساتھ رہنا نہ چاہتی ہو گویا یہ طلاق کی طرح عورت کے پاس ایک حق ہے اس میں عورت کو شوہر سے لیا ہوا مہر واپس کرنا ہوتا ہے۔

وہ چند صورتیں جن میں عورت کی طرف سے طلاق یا خلع واقع ہوتا ہے، درج ذیل ہیں

1نکاح کے وقت عورت نے اپنے لئے طلاق کا حق رکھا ہو اور شوہر نے اُس پر موافقت کی ہو۔ اس شرط کو استعمال کرنا اُس کا حق ہے۔

2جب وہ شوہر کی مخالفت کے باعث اپنے نفس پر نافرمانی کے گناہ میں پڑنے کا خوف کرے۔

3اس سے شوہر کا سلوک برا ہو، یعنی وہ اس پر اُس کے دین یا جان کے بارے میں ظلم روا رکھے اور عورت اس سے مال دے کر طلاق حاصل کرنا چاہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے

فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ.

پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے۔

القرآن، البقره، 2 : 229

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بیوی سے ناروا سلوک کرنے والے شوہر کے لئے اس سے مہر لینا بھی مکروہ سمجھتے ہیں، کیونکہ اسلام دین مروت ہے وہ عورت سے برا سلوک قبول نہیں کرتا کہ جب اُسے طلاق دے تو اُس کا مال بھی لے لے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :۔

وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناًO

اور جب تم ایک کی جگہ دوسری بیوی لانے کا ارادہ کرو اور تم اُن میں سے کسی کو سونے کے ڈھیر بھی دے چکے ہو تو اُس میں سے کچھ نہ لو بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اُس سے واپس لو گےo

القرآن، النساء 4، : 20

4شوہر اپنی بیوی سے جنسی تعلق پر قادر نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے گی، قاضی اُسے ایک سال کی مہلت دیگا کہ (وہ علاج کرائے) اس کے بعد اگر وہ جنسی تعلق پر قادر نہ ہو سکے اور عورت علیحدگی کا مطالبہ کرے تو قاضی اُن کے درمیان علیحدگی کرا دے گا۔

5شوہر مجنون ہو جائے یا اُسے برص یا جزام (کوڑھ) کی بیماری لاحق ہو جائے تو بیوی کے لئے یہ حق ہے کہ وہ عدالت میں معاملہ اُٹھائے اور علیحدگی کی مطالبہ کرے، اس پر قاضی اُن میں علیحدگی کرا سکتا ہے۔

مرغيناني، الهدايه، 3 : 268

الغرض عورت کو ہر سطح پر اسلام نے وہ تحفظ اور عزت و احترام عطا کیا جس کی نظیر ہمیں کسی دوسرے نظام زندگی میں نہیں ملتی۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری

کن حالات میں مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے

کن حالات میں مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے

کن حالات میں مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے

مندرجہ ذیل اوقات میں مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے

دن کے وقت مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس وقت مباشرت کرنے سے اگر حمل ٹھہر چائے تو اولاد بدصورت اور بدچلن پیدا ہو گی

کھانے کے فورا معد یا خالی پیٹ مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اس سے دونوں فریق پر برا اثر پڑتا ہے اور محتلف قسم کی بیماریاں لگ جاتی ہیں

بخار یا نزلہ و زکام کی حالت میں مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اگر اس حالت میں حمل قرار پا گیا تو اولاد میں دائمی نزلہ زکام ہونے کا قوی امکان ہے

غم وغصہ یا خوف وغیرہ کی حالت میں مباشرت نہیں کرنی چاہیئے

زیادہ گرمی کے موسم میں مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے

دوران حیض مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اس سے مہلک قسم کی بیماری پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے

حمل کے دوران مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے لیکن اگر اس دوران فطری طور پر خواہش پیدا ہو تو مباشرت کے لیے ایسا طریقہ اپنانا چاہیئے جس سے عورت کے پیٹ پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور وہ تکلیف محسوس نہ کرے

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

مینوپاز|سن یاس

menopause

مینوپاز (سنِ یاس ) کیا ہے ؟

-سن یاس ایک عورت کی زندگ کاوہ موڑ ہے جہاں اس کی ماہواری کا ہر ماہ آنا دائمی طوربند ہوجاتاہے ۔ ’ماہواری‘ دھیرے دھیرے یا اچانک بند ہوسکتی ہے ۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے سن یاس کے بعد عورت بچے کو جنم نہیں دے سکتی ہے ۔

سن یاس 35برس کی عمر سے لے کر 58برس کی عمر کے وقفہ کے دوران شروع ہو سکتا ہے  قدرتی سن یاس کی شرح یوں ہے

25 فیصد عورتوں میں….47سال کی عمر میں

50فیصد عورتوں میں….50سال کی عمرمیں

75فیصد عورتوں میں….52 سال کی عمرمیں

95فیصد عورتوں میں….55سال کی عمر میں

جن عورتوں میں ماہانہ قاعدگی کی مدت کم ہوتی ہے وہ دوسری عورتوں (جن میں ماہانہ قاعدگی کی مدت نارمل ہوتی ہے ) کے مقابلے میں دوسال پہلے ہی سنِ یاس میں قدم رکھتی ہیں ۔ سگریٹ وتمباکو نوشی کرنے والی عورتوں میں بھی سنِ یاس دوبرس پہلے ہی شروع ہوجاتاہے جن عورتوں کی بچہ دانی بشمول بیضہ دانیاں بذریعہ جراحی نکالی گئی ہوں میں ان میں سنِ یاس ”اچانک“ شروع ہوتاہے اسے ”جراحی سن یاس“ کہاجاتاہے ۔ بعض عورتوں میں غیر مشخص وجوہات کی بناءپر کچھ مہینوں یا برسوں تک ماہانہ قاعدگی بند ہوجاتی ہے اسے ”عارضی سن یاس“کہاجاتاہے ۔

سن یاس کیوں ہوتاہے ؟

زنانہ ہارمون ایسٹروجن کی پیداوار سے ہر ماہ ایک عورت کو حیض آتاہے ۔ سن یاس آنے کی وجہ یہ ہے کہ بیضہ دانیاں(Ovaries) ایسٹروجن ہارمون بنانا بند کرتی ہیں اس سے ماہانہ قاعدگی ہمیشہ کے لئے بند ہوتی ہے اور عورت کی زندگی کا ایک ”نیا دور“ شروع ہوتاہے

سن یاس کی علامتیں کیا ہیں ؟

-جب ایک عورت سن یاس کی دہلیز پرکھڑا ہوجاتی ہے تو وہ دھیرے دھیرے یا اچانک درج ذیل طبیعی اورنفسیاتی علامتیں محسوس کرتی ہے۔

طبیعی علامات

ماہانہ قاعدگی میں خلل

دورانِ ماہواری میں کمی یا زیادتی

خون کے بہاﺅ یں کمی یا زیادتی

بدن میں گرمی کا احساس۔

چہرے پر گرم لو کے تھپیڑے (نارہ چپاژ)۔

راتوں کو پسینہ آنا۔

دل کی دھڑکنوں میں تیزی اور بے اعتدالی ۔

مزاج میں تبدیلی ۔

چڑچڑاپن ۔

نیند کا کم یا غائب ہونا۔

اکثر آنسو بہانے کی خواہش۔

جنسی خواہش میں کمی ۔

شرمگاہ کا خشک ہونا۔

زور زور سے ہنستے یا چھینکتے وقت بے اختیاری  ادرار۔

حاجت پیشاب کا بار بارمحسوس ہونا۔

جلد میں خارش اور کھردراپن۔

عضلات میں بڑھتا ہوا دباﺅ۔

پستانوں میں درد اور بھاری پن ۔

سردرد۔

وزن میں اضافہ( موٹاپا)۔

سر،بغل اور شرمگاہ کے اطراف کے بالوں کا جھڑنا۔

چہرے پر اضافی بال نمودا رہونا۔

مسووڑوں کے مسائل اور ان سے خون بہنا ۔

جسم کی ”بو“ میں تبدیلیاں۔

ناخنوں میں دراڑیں اورٹوٹ جانے کے آثار۔

کانوں میں شور، سرچکرانا ۔

ہاتھوں او رپیروں کا سن ہوجانا۔

نظام ہاضمہ سے وابستہ کچھ علائم ۔

بھوک میں کمی ۔

اُبکائی ، الٹی ، بدہضمی۔

پیٹ میں گیس ۔

قبض ۔

نفسیاتی مسائل

پریشانی ،خوف ، کسی کام میںدل نہ لگنا، گھٹن ، بے قراری۔

ہروقت تھکاوٹ کا احساس۔

ذہنی تضاد ….ہر وقت ذہن میں ”ٹکراﺅ“۔

کسی چیز پر توجہ مرکوز نہ کرنے میں ناکامی ۔

مایوسی ….ڈپریشن ۔

گرم لو کے تھپیڑے ( نارہ ¿ چپاژہ) کیا ہے اور کیوں محسوس ہوتے ہیں ؟

اچانک پورے بدن میں گرمی کی شدید لہر دوڑنااور پھر پسینے میں شرابورہونا ،چہرے پر سرخی چھاجانا ایک عام علامت ہے جو ہر عورت سن یا س کے قریب پہنچتے پہنچتے محسوس کرتی ہے اور کیا جاتاہے کہ ایسا ایسٹروجن ہارمون کے بند ہونے سے ہوتاہے۔

کیا یہ علامتیں اب باقی ماندہ زندگی تک رہیں گی ؟

یہ ضروری نہیں کہ ہر عورت سبھی علامتیں محسوس کرے ۔بعض عورتیں کچھ مہینوں تک کچھ علاماتیں محسوس کرتی ہیں ۔اکثر عورتیں سن یاس کی علامتیں ایک مختصر وقت تک محسوس کرتی ہے۔اگرعورت ایک منظم ومرتب زندگی گذارنے کے علاوہ ایک مثبت روّیہ اپنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ ایک صحتمند زندگی گذار سکتی ہے ۔

کیا جنسی خواہش میں ”بدلاﺅ“ نارمل ہے ؟
-اکثر عورتیں یہ کہتی ہیں کہ سن یاس کے بعد ان کی جنسی خواہش کم ہوجاتی ہے ۔ اکثر عورتوں میں اس کی وجہ ”جسمانی“ ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر زنانہ ہارمون ایسٹروجن کی کمی سے جنسی اعضاءپر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ شرمگاہ خشک رہنے سے جنسی عمل کے وقت تکلیف سے بچنے کے لئے اکثرعورتیں جنسی عمل سے دوری اختیار کرتی ہیں ۔ اس کے لئے کسی ماہر امراضِ زنانہ سے مشورہ کرنا ضروری ہے تاکہ یہ دیکھاجاسکے کہ جنسی خواہش کی کمی کی وجہ جسمانی یا نفسیاتی ہے ۔

میرے کھانے پینے کے عادات بدلے تو نہیں مگر حال ہی میں میرا وزن بڑھ گیا ہے ۔ کیایہ سن یاس کی وجہ سے ہے ؟

-ہوسکتاہے! ۔ سن یاس کے آغاز اور بعد میں جسم کے تحولات (مٹابولزم)میں تبدیلی نمودارہوتی ہے ۔چونکہ یہ تبدیلی دھیرے دھیرے وجود میں آتی ہے اس لئے اسے کھانے پینے پر اثر انداز ہونے میں تھوڑا وقت لگ سکتاہے تاکہ یہ وزن پر اثر انداز ہو،اس لئے کھانے پینے کی طرف خصوصی توجہ دینے کے علاوہ باقاعدہ ورزش کو اپنا معمول بنانا بے حد ضروری ہے ۔

پ:-سن یاس میرے طرزِ زندگی اور ”روزمرہ کے معمولات“ پر کس طرح اثر انداز ہوگا۔

-یہ ہرعورت کی اپنی شخصیت پر منحصر ہے کہ وہ زندگی کے اس سنہری دور کو کس زاویے سے دیکھے ۔ سن یاس عورت کی زندگی کا ایک نارمل حصہ ہے۔یہ کوئی بیماری یا بحران نہیں ہے ۔ یہ عورت کی زندگی میں ”بڑھاپے“ کا آغاز بھی نہیں ہے ۔شاید اسی لئے صحیح زاویے سے سوچنا ضروری ہے کہ سن یاس کے بعد آپ کے روزمرہ کے معمولات اور طرزِ زندگی پر کیا کیا اثرات پڑسکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک مثبت روّیہ اپنا کر ، باقاعدہ ورزش کے ساتھ ساتھ مناسب وموزوں تغذیہ کی طرف دھیان دیں تو آپ نہ صرف ایک کامیاب اور خوشحال زندگی گذارسکتی ہیں بلکہ ایسٹروجن کی کمی سے پیدا ہونے والی دُور رَس پیچیدگیوں (دل کی بیماریاں ، ہڈیوں کی مسام داربیماری- اوسٹیوپوروسس) سے بھی بچ سکتی ہیں ۔

ہرکوئی یہ کہتاہے کہ سن یاس میںقدم رکھنے کے بعد عورتیں ”مُوڈی “ ہوتی ہیں ، کیا یہ سچ ہے ؟

-جی نہیں ! یہ صحیح نہیں ہے ۔ ہاں بعض عورتیں مزاجی کیفیت میں بدلاﺅ محسوس کرنے کے علاوہ ”ڈپریشن “ میں مبتلا ہوجاتی ہیں ۔ اس کا سن یاس کے ساتھ براہ راست کوئی ربط نہیں ہے ۔ ہارمونوں کی پیداوار میں اُتارچڑھاﺅاکثر عورتوں میں ذہنی دباﺅ کے لئے راہ ہموار کرتاہے جس وجہ سے وہ زندگی کی راہ میں آنے والے نشیب وفراز کے ساتھ پوری طرح یا صحیح طور سمجھوتہ کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔ سن یاس میں ڈپریشن ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جسے سنجیدگی سے لینا ضروری ہے اور کسی ماہر امراضِ نفسیات سے مشورہ کے بعد ضد ڈپریشن ادویات کا استعمال لازمی ہے ۔

-کیا سن یاس کے بعد میری یاداشت کمزور ہوجائے گی اور میں ”بھولنے لگوں گی “؟

-جی نہیں ! یہ ایک باطل عقید ہے اس کے لئے کوئی ٹھوس سائنسی شہادت موجود نہیں۔

پ:-کیا میری جنسی زندگی کا ”دی اینڈ “( The End) ہوگیا۔

-جی نہیں ! بعض عورتیں (اور مرد بھی)عمر رسیدگی کے ساتھ ساتھ ”مخصوص وجوہات“ کی وجہ سے جنسی خواہش یا فعالیت میں کمی محسوس کرتے ہیں ۔سن یاس کے بعد ایسٹروجن ہارمون کی کمیابی سے ”شرمگاہ “ خشک ہوجاتی ہے جس سے جنسی عمل تکلیف دہ ہوسکتاہے ۔ دورِ حاضرہ میں اس کا مو ¿ثر علاج دستیاب ہے ۔ تحقیقات سے ثابت ہواہے کہ سن یاس کے بعد جنسی میل ملاپ کا واسطہ براہ راست خوشحال ازدواجی زندگی سے ہے ۔ سن یاس کے بعد ایک عورت کی جنسی زندگی پر کوئی بھی منفی اثر نہیں پڑتاہے ۔ بشرطیکہ اس کا شریک حیات صحیح معنوں میں ”شریک حیات “ ہو ۔

س یاس کا آغاز ہوتے ہی جب علامات شروع ہوں تو کیا کرسکتی ہوں ؟

-سبھی علامات عارضی ہوتے ہیں ، وہ دھیرے دھیرے خودبخود دور ہوجائیں گی ۔ انہیں اپنی نارمل زندگی کا نارمل حصہ مان لینا اور سہنا ضروری ہے ۔بعض علامات کی شدت سے بچاجاسکتاہے ۔

گرم لو کے تھپڑے یا پورے بدن میں گرمی کا احساس….غور کیا کریں کہ چہرے پر گرمی کب ، کیوں اور کس وقت ظاہرہوتی ہے اور ان محرکات سے بچنے کی کوشش کریں ۔ گرم مشروبات (چائے کافی )، تیز مصالحے دار غذائیں ، اچار ،فاسٹ فوڈ ، شراب نوشی سے مکمل پرہیز کریں ۔ کمرے کا درجہ حرارت اپنے مزاج کے موافق کریں ۔روزانہ ورزش کرنے کی عادت ڈالیں ۔

جلد کی خشکی اور کھردرا پن دُور کرنے کے لئے نرم کریم یا سن سکرین لوشن استعمال کریں ۔ دھوپ کی تمازت سے بچنے کی ہرممکن کوششیں کریں، اس سے جلد کی خشکی اور کھردار پن دورہوگا۔

نیند میں خلل ہو تو ایک مرتب ومنظم زندگی گذارنے کی کوشش کریں ۔ مقررہ اوقات پر جاگنے اور سونے کے علاوہ مقررہ اوقات پر کھایا پیا کریں۔ کیفین والے مشروبات(کوک چائے اور کوفی) کا استعمال ترک کریں ۔ شام کے وقت ورزش کیا کریں ۔

وزن میں اضافہ : اپنی تغذیہ کی طرف خصوصی دھیان دیں ۔ دن میں چھ بار کم مقدار میں غذا کھانے کی عادت ڈالیں ۔ اپنی غذا میں اسی فیصد سبزیاں اور میوہ جات شامل کریں او رباقاعدہ ورزش کواپنی عادت بنالیں ۔

ڈپریشن ، پریشانی اور مزاجی کیفیت میں اختلا ل سے پیچھا چھڑانے کے لئے باقاعدہ عبادت کریں۔ اپنے آپ کودن بھر مصروف رکھنے کی کوشش کریں۔ اپنے لئے کسی اچھے مشغلے کا انتخاب کریں ، رشتہ داروں اور سہیلیوں کے ساتھ وقت گذاریں ، اچھی کتابوں کا مطالعہ کریں اپنی پسند کے میوزک سے دل بہلائیں ،ریڈیو اور ٹی وی سے مزاحیہ پروگرام سننے او ر دیکھنے کو ترجیح دیں ۔

خطراتی محرکات سے کیسے نپٹ لیا جائے ؟

سن یاس کے بعد اکثر عورتوں کی ہڈیاں مسام دار ہوجاتی ہیں ۔ ان کاوزن اورحجم کم ہو جا تا ہے اور ان کی شکستگی کے امکانات میں کئی گنا اضافہ ہوجاتاہے ۔ اس لئے ہر عورت کو ز ندگی کے اس پڑاﺅ کے بعد مقررہ مقدار میں کیلشیم اور وٹامن ڈی کے علاوہ پوٹاشیم ، میگنشیم جیسے نمکیات لینے چاہئیں تاکہ ہڈیوں کی صحت پر منفی اثرات نہ پڑیں ۔ سن یاس میں ہرعورت کو روزانہ 1500ملی گرام کیلشیم اور 800 iuو ٹا من ڈی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وٹامن ڈی نہ صرف کیلشیم کو جذب کرنے میں مدد دیتاہے بلکہ اس کے تحول کے لئے بھی لازمی ہے ۔

امراض قلب

سن یاس میں قدم رکھنے کے بعدعورت کے جسم کے خون میں کولسٹرول کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔ خون میں مضر کولسٹرول (LDL)کی سطح بڑھ جانے سے برین اور ہارٹ اٹیک میں مبتلا ہونے کے امکانات میں کئی گنا اضافہ ہوتاہے ۔برین ہمریج اور ہارٹ اٹیک سے بچنے کے لئے اپنی غذامیں تازہ سبزیاں اور پھل ، سالم اناج اور سویابین شامل کریں ، چربی والی غذا ئیں کم استعمال کریں اور ہر روز چالیس منٹ پیدل چلا کریں ۔

تغذیہ

سن یاس میں قدم رکھنے کے بعد ہرعورت کو اپنی غذا کی طرف خصوصی دھیان دینا چاہئے تاکہ وہ صحت مند زندگی گذارسکے ۔

وافر مقدار میں تازہ سبزیاں ، تازہ پھل او رقلیل مقدار میں خشک میوے کھانا اپنا معمول بنالیں ۔

مرکب کاربوہائیڈریٹس ،کم مقدار میں چاول ، اوٹس (Oats) ،سالم اناج (گندم ،جو ، مکئی ) کی روٹی ، دالیں ، مٹر ، چنے اور سویابین کھانے کی عادت ڈالیں تاکہ آپ کو قدرتی ذرائع سے ایسٹروجن ہارمون مل سکے ۔

جن غذاﺅں میں چربی حدسے زیادہ ہو ،ان کا استعمال نہ کریں ۔

فاسٹ فوڈ ، جنک فوڈ ، مرغن غداﺅں اور حد سے زیادہ میٹھی چیزوں سے پرہیز کریں ۔

ریشہ دار غذاﺅں کا استعمال زیادہ کریں ۔

کیفین والے مشروبات کا استعمال بہت کم کریں ۔

سگریٹ ، تمباکو نوشی اورشراب نوشی سے مکمل پرہیز کرنا لازمی ہے ۔

دن میں وزن کے حساس سے (کم از کم دس گلاس )پانی پیا کریں

جنسی مسائل اور الجھی ازدواجی زندگی

 

جنسی مسائل اور الجھی ازدواجی زندگی

(صرف مردوں کے لیے)

زندگی کی ساری راحتیں اور مسرتیں صحت وتندرستی کے ساتھ ہیں، صحت نہیں تو نہ کھانے پینے کا کوئی مزہ نہ سیر و تفر یح کا کوئی لطف، نہ عزیزوں اور دوستوں کی انجمن آرائی سے کوئی خوشی اور نہ بیوی بچوں کے درمیان کوئی راحت، زندگی اپنی ساری آسائشوں کے باوجود دردِمجسم بن کررہ جاتی ہے، کون ہے جو جانتے بوجھتے زندگی بھر کے اس عذاب کو مول لینے کے لیے تیارہو۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں صحیح معنوں میں صحت مند وتندرست لوگوں کاتناسب بہت حقیر ہے، ہر طرف زردچہرے پچکے گال اور نحیف ولاغر جسم، زندہ لاشوں کی صورت میں چلتے پھرتے نظرآتے ہیں، سکون ومسرت کی دولت سے محرومی نے ہر ایک کوزندگی سے بیزار کررکھاہے، خصوصیت کے ساتھ عورتوں میں تو سومیں ایک بھی ایسی نہیں ملتی جو یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہے
یہ ایک عظیم قومی مسئلہ ہے لیکن ہمارے یہاں شاید سب سے کم توجہ اگر کسی چیز کی طرف دی گئی ہے تو وہ یہی مسئلہ ہے اور اس کا نتیجہ نہایت خطرناک شکل میں اب ہمارے سامنے آرہاہے۔ گھریلو زندگی کا امن وسکون غارت ہوگیا ہے، آمدنی کا ایک کثیر حصہ ڈاکٹروں حکیموں کی نذر ہوجاتاہے، گھروں میں عورتوں کی بیماری سے گھر کاشیرازہ درہم برہم ہوتاہے، بچوں کی دیکھ بھال اورتربیت کی طرف توجہ نہیں دی جاسکتی اور اولاد ماں کے پیٹ سے ہی طرح طرح کے امراض ساتھ لے کر پیدا ہوتی ہے، مردوں کی بیماری گھر کواقتصادی تباہی میں مبتلا کرتی ہے، بچوں کا مستقبل تاریک ہوجاتاہے اور بحیثیت مجموعی قومی تعمیر وترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، اس مسئلہ کا مفصل اور ہر جہتی جائزہ لینا تو اُن لوگوں کا کام ہے، جوانسانی جسم کی مشینری کی تمام جزئیات پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے بعض پہلو ایسے بھی ہیں جن پر روزمرہ کے مشاہدات وتجربات کی روشنی میں ہم جیسے عامی بھی کچھ نہ کچھ رائے قائم کرتے اور اظہار خیال کرسکتے ہیں میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے روگ محض اس لیے جانوں کو چٹ کر جاتے ہیں کہ لوگ اپنی خوراک اوراپنی جنسی زندگی کے بارے میں بعض نہایت بنیادی معلومات وحقائق سے ناآشنا اور بے بہرہ رہتے ہیں اور لاعلمی وجہالت کے سبب ایسی اعتدالیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کہ اُن کی جسمانی مشینری کے سارے کل پُرزے ڈھیلے ہوجاتے ہیں، اور وہ اپنی عمر سے بہت بوڑھے ہوکر ناکارہ ہوجاتے ہیں، عورتیں گھریلو مُسرت سے حقیقتاً کبھی آشناہی نہیں ہوپاتیں کیونکہ ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی وہ طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہوتی ہیں جن کی والدین کوخبر بھی نہیں ہونے پاتی اور شادی کے بعد پتہ چلتاہے کہ جس کو صحت مند تصورکیاجاتاتھا اس کی جان کو کیسے کیسے مہلک اورپرانے روگ لگے ہوئے تھے۔لیکن یہ صورت حالات ہمیشہ سے یوں ہی نہیں ہے بلکہ اب سے صرف پچاس ساٹھ سال پہلے حالات بالکل مختلف تھے اس وقت نہ لوگوں کی صحت کا ایسا تباہ حال تھا اور نہ ہر ایک اپنی جان سے بیزار نظر آتاتھا، اس وقت خاندانی نظام کی گرفت مضبوط اوربزرگوں کی رہنمائی اور ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھانے کی ساری سہولتیں موجود تھیں۔ خاندانی روایات کا پاس واحترام اور حفظ مراتب کالحاظ کیاجاتاتھا، گھر کے بڑے بوڑھے اپنی عمر بھر کے تجربات بلکہ پشت ہاپشت سے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی نصیحتوں اورہدایات کی روشنی میں گھر کے نظام کو چلاتے تھے اور یہ نظام زندگی کے سارے معاملات پر اس طرح محیط اور حاوی ہوتاتھا کہ گھر کے افراد کے صبح سے شام تک کے ساتھ معمولات ایک قاعدے اور ضابطے کے پابند ہوجاتے تھے۔ اس ضابطہ بندی میں جسمانی ذہنی اور اخلاقی صحت کے سارے بنیادی اصول اور اس سلسلے کی ضروری احتیاطیں اس طرح سمودی جاتی تھیں کہ کسی خارجی امداد کی احتیاج ہی باقی نہ رہتی تھی انقلابات زمانہ کے طفیل آج نہ تو خاندانی نظام کی شیرازہ بندی باقی رہی اور نہ وہ بزرگ ہی رہے جو زندگی کی پر پیچ راہوں میں انتہائی شفقت ورحمت کے ساتھ ہماری رہنمائی اور ہمارے معمولات زندگی کی ضابطہ بندی کرتے تھے، نئی پود کو سرے سے گھر کی درس گاہ ہی نصیب نہیں ہوتی، مرد سارادن معاش کے کولھو میں بیلوں کی طرح جتے رہتے ہیں اور رات کو جب تھکے ماندے گھر آتے ہیں تو انہیں اپنی سُدھ بُدھ نہیں رہتی، عورتیں الگ بیماری اوربچوں کی ریں ریں میں گھر سے بیزار اور موت کی طلبگار رہتی ہیں، ایسے میں کسی کو بچوں کی طرف نہ توجہ کا موقع نصیب ہوتاہے نہ ذہن اس لائق رہتے ہیں، والدین کی اپنی زندگی کسی ضابطہ کی پابند نہیں رہتی تو بچوں کی زندگی میں باقاعدگی کیوں کر پیدا ہو جو جی چاہتا ہے اور جب جی چاہتاہے، کھاتے اور مناسب نگرانی ورہنمائی نہ ہونے کے سبب اُن کی نہ صرف جسمانی صحت تباہ برباد ہوتی ہے بلکہ ذہنی وجنسی صحت بھی بے اعتدالی کی نذر ہوجاتی ہے، اور موقع پرست نیم حکیم اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر ایسے لوگوں کوخوب خوب بیوقوف بناتے اوران کی رہی سہی صحت کو بھی تباہ کرڈالتے ہیں
یہ ہے وہ صورت حال جو یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ہمارے ارباب فکروفن اس طرف توجہ دیں اور اس خلاءکوپُر کریں جوخاندانی نظام میں انتشار اور بڑے بوڑھوں کے تجربہ ورہنمائی سے محرومی کی وجہ سے پیدا ہو رہاہے
اس سلسلے میں ہماری سب سے بڑی کمزوری جنسی مسائل ومعاملات ہیں، ایک طرف اخلاقی حدود اوراحترام اورشرم وحیا کی بچی کچھی روایات کااثر یہ ہے کہ ہم دنیا زمانے کے ہرمسئلے پرزبان کھول سکتے ہیں اور قلم اٹھاسکتے ہیں، لیکن یہ موضوع ایسا شجر ممنوع ہے کہ اُس کی طرف ادنیٰ سا اشارہ بھی طبائع لطیف پرگراں گزرتاہے، اُدھر اسی تصویر کا دوسرارُخ یہ ہے کہ سینما فحش لڑیچر اور روز افزوں عُریانی جذبات جنسی میں بے پناہ اشتعال پیدا کرکے ناقابلِ تصور بے اعتدالیوں اور برائیوں کا دروازہ کھول چکی ہے اورانجان وناتر اشیدہ نئی پودنتائج وعواقب سے بے خبربڑی تیزی کے ساتھ تباہی کے غار کی طرف پیش قدمی کررہی ہے
اب ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو ہم بے جاقسم کی شرم میں پڑے رہیں اورزندگی کے اس ہم پہلو کو راز سربستہ ہی رکھنے پر مصررہیں تاکہ ہم خود بھی اس کارگہ حیات میں ایک رازبن کرتاریخ کے اوراق میں مستور ہوجائیں اوریایہ ہم حالات کے چیلنج کوپورے عزم واعتماد کے ساتھ قبول کریں اور نئی نسل کی اس طرح ذہنی تربیت کریں کہ جنس اس کے لیے راز سربستہ نہ ہو بلکہ زندگی میں بھی وہ اپنے بُرے اور بھلے میں امتیاز کرنے کے قابل ہوجائے اور اُسے یہ معلوم ہو کہ اُسے کن چیزوں کوقبول واختیار کرناچاہیے اور کن چیزوں میں احتیاط واجتناب کی روشنی اختیار کرنی چاہیے، ہوسکتاہے کہ بعض لوگ اور احباب کویہ بُری انوکھی سی بات معلوم ہولیکن میرے نزدیک جب قرآن مجید میں انسان کی جنسی زندگی کے بارے میں ضروری پہلو کاذکر آسکتاہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان فیض ترجمان نے ان مسائل کی عقدہ کشائی میں کسی بے جاتکلف سے کام نہیں لیا تو ہمارے لیے کیا اس معاملے میں اُن کااسوہ،مشعل راہ نہیں ہوسکتا، اخلاقی ضوابط کاپورا احترام ہوناچاہیے، حیااورشرم کوکماحقہ، ملحوظ رکھا جا نا چاہیے، لیکن ان معاملات میں ہمیں اپنے لیے من گھڑت قاعدے اورضابطے بنانے صحیح نہیں اور ان مسائل پرہمارے اہل علم وفن قرآن وحدیث کے اسلوب بیان کا ابتاع کرتے ہوئے نئی پود کی تعلیم وتربیت کابڑا کام کرسکتے ہیں، یقیناً یہ کام بڑا مشکل ہے اور شاید اسی وجہ سے آج تک اس سے اجتناب وپرہیز بھی کیاگیا ہے لیکن اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ وقت کے چلینج کوقبول کرنا ہی پڑے گا۔ اوران مسائل کو بھی موضوع فکر ونظر بنانا ہی ہوگا

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal