امریکی و یورپی معاشروں میں انسان کی موجودہ زندگی کو ہی مکمل حیات سمجھا جاتا ہے اور مذہبا عیسائی کہلانے کے باوجود اس معاشروں میں حیات بعد الموت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسی دنیا کو جنت بنانے پر تلے ہیں اور اس روش میں وہ کسی بھی قسم کا جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بھی مغربی نظریات کی بوچھاڑ میں بہنے والے طبقہ کی اکثریت آخرت کو بھلا بیٹھی ہے اور اسی زندگی کو کل سمجھ کر روپیہ پیسہ کمانے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ کو روا رکھے ہوئے ہے۔
جنسی تعلیم کے حوالے سے مغربی معاشرے میں یہ نظریہ عام ہے کہ زندگی صرف مزے لینے کے لئے بنی ہے اور انسان شتر بےمہار کی طرح جب چاہے جو چاہے کرے۔ چنانچہ ان کے مطابق انسان جنسی تعلق بنانے میں مکمل طور پر آزاد ہے۔ ان کے معاشرے میں فرد کو شادی کی ضرورت نہیں۔ وہ بناء شادی کئے جنسی تعلقات بنانا چاہے تو کوئی قانون اسے روک نہیں سکتا۔ ان کے ہاں کسی قسم کے جنسی عمل کے لئے لڑکے اور لڑکی کی رضامندی ہی کافی ہے۔ اگر جنسی عمل دونوں کی مرضی سے ہو رہا ہے تو اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح ہم جنس پرستی کو بھی بیشتر ممالک نے قانونی حیثیت دے رکھی ہے۔ اگر کوئی دو لڑکے میاں بیوی کے طور پر جنسی تعلقات بنانا چاہیں تو وہ آزاد ہیں، یہی حالت لڑکیوں کی بھی ہے۔ نوبت بایں جا رسید کہ یورپ کی کسی گلی میں ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈالے کھڑے لڑکوں یا لڑکیوں کو اگر کوئی بزرگ اس واہیات حرکت پر ٹوکے تو وہ وہیں کھڑے کھڑے پولیس کو کال کر دیتے ہیں اور پولیس اس بزرگ کو سرزنش کرتی ہے کہ تم ان کی آزادی میں ٹانگ اڑانے والے کون ہوتے ہو!!!
مغربی ممالک میں عام طور پر جو جنسی تعلیم دی جاتی ہے، اس میں اس قسم کی منفی تعلیم بھی شامل ہوتی ہے:
* اپنے دوستوں سے جنسی ملاپ کی صورت میں کیا احتیاطیں کی جائیں؟
* جنسی ملاپ سے پہلے کون سی ادویات کھا لینے سے حمل نہیں ہوتا؟
* کنڈوم کیسے استعمال کیا جاتا ہے؟ اور کس قسم کا کنڈوم معیاری ہوتا ہے؟
* جنسی ملاپ سے اگر حمل ہو جائے تو اسے کیسے گرایا جائے؟
اس قسم کی منفی جنسی تعلیم کے دوران اصلاح کی بجائے انتہائی سطح کا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ مخلوط تعلیم کے دوران نوجوان لڑکے لڑکیاں بعض اوقات ایک دوسرے کو اپنے جنسی تجربات سے بھی آگاہ کرتے اور جنسی عمل کے دوران زیادہ مزہ لینے کے مختلف طریقے (Sex Positions) بھی دہراتے ہیں۔
مشرقی معاشروں کی ضرورت
مغربی نظریات کی یلغار کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مشرقی معاشروں میں بھی مرد عورت کو اپنی شہوانی خواہشات کی آگ بجھانے کا ایک خوبصورت آلہ سمجھنے لگا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت کو انسان کی نسل برقرار رکھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ قدرت نے اسے مرد کی مونس و غمخوار اور ساتھی بنا کر بھیجا ہے۔ اس لئے مرد کو چاہیئے کہ وہ اسے صحیح اور جائز طریقے سے استعمال کر کے اپنی زندگی کو بہشت کا نمونہ بنائے اور تندرست و توانا اولاد پیدا کر کے اپنی نسل کو بہتر بنائے۔ اس حوالے سے عورت کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے آپ کو بالکل بے کس اور مجبور خیال نہ کرے یا اپنے آپ کو بالکل ہی مرد کی دست نگر تصور نہ کرے، بلکہ مرد کی ہم پلہ بن کر اپنے آپ کو صیحح معنوں میں نصف بہتر بنائے۔
لڑکی کے والدین کو چاہیئے کہ وہ شروع سے ہی اپنی بیٹی میں ایسے اوصاف پیدا کریں، جن سے وہ مرد کے لیے وبال جان نہ بنے بلکہ اس کی اچھی شریک حیات ثابت ہو۔
اکثر اوقات مرد یہ سمجھتے ہیں کہ عورت میں جنسی خواہشات مرد کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہیں اور وہ تقریباً ہر وقت مباشرت کے لئے تیار رہتی ہے، حالانکہ حقیقت کا اس سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ عورت بے چاری تو خواہش کے نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے خاوند کو خوش کرنے کے لئے مباشرت کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے مرد یہ سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی پر شہوت کا غلبہ رہتا ہے اور وہ خاوند کا اشارہ پاتے ہی اس آگ کو بجھانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ جو لوگ عورت کو وقت بے وقت ستاتے رہتے ہیں اور کثرت سے مباشرت کرتے ہیں، وہ عورت کے لئے بہت بڑی آزمائش بن جاتے ہیں۔