بانجھ پن زنانہ | Female Infertility
بانجھ پن یا عقیم کا مطلب بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی یا بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا ہے ۔بانجھ پن کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک سال تک نارمل مباشرت ہوتے رہنا اور اس دوران کوئی مانع طریقہ اختیار نہ کرنے کے باوجود حمل قرار نہ پانا بانجھ پن کہلاتا ہے۔ بانچھ پن کا شکار مرد بھی ہو سکتا ہے اور عورت بھی اس مرض میں مبتلا ہو سکتی ہے۔بانجھ پن دوطرح کا ہو تا ہے
1- ابتدائی بانجھ پن Primary Infertility
2- ثانوی بانجھ پن Secondary Infertility
ابتدائی بانجھ پن Primary Infertility
ابتدائی بانجھ پن PrimaryInfertility کی مریض وہ خواتین ہیں جنہیں پہلے کبھی حمل نہیں ہوا۔
ثانوی بانجھ پن Secondary Infertility
ثانوی بانجھ پن Secondary Infertility
کی مریض وہ خواتین ہیں جنہیں پہلے حمل ہوچکا ہو ۔ ایک اور اصلاح Sterility سے مراد بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا مرد یا عورت میں مکمل طور پر ختم ہونا ۔ بانجھ پن میں مبتلا جوڑوں میں 40 فیصد وجو ہات مردوں میں پائی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود مباشرت میں قصور وار صرف عورت کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ عورت کےلئے بانجھ پن ہونا ایک گالی بن جاتا ہے۔
حمل کے لئے شرائط
حمل کے لئے مرداور عورت دونوں کاصحت من ہونا بہت ضروری ہے ۔جس طرح مردوں میں ضعف باہ کو مرض نہیں ہونا چائیے اور مادہ منویہ Semen نارمل اور اس میں تولیدی خلیوں یا سپرم Sperm کی شرح مناسب ہونی چائیے اسی طرح عورت کو بھی تندرست ہونا چائیے ۔عورت کو ورم رحم ، سیلان رحم Leucorrhea ، ماہواری کی بے قاعدگی ، ہارمونز کے توازن میں خرابی ، ماہواری یا حیض کی تنگی وغیرہ کا شکار نہیں ہونا چائیے اندورنی اعضائے تولید 4 حصوں پر مشتمل ہیں ۔
1 ۔مہبلVagina
2َ ۔رحم یا بچے دانی Uterus
3۔قاذف نالیاںFallopian Tubes
4۔Uterine Tubes
استقرار حمل
استقرار حمل نر و مادہ دونوں کے تولیدی اعضاء کی سلامتی پر موقوف ہے۔ اس لئے علاج سے پہلے ان دونوں کے تولیدی اعضاء کی طبعی کار کردگی اور نقائص کی معلومات فراہم کرنا ضروری ہے اور طبیب کو ان اعضاء کے طبعی افعال
(Normal function)
سے واقفیترکھنا ضروری ہے. اس لئے چاہیے کہ نظام تولید کی تشریح اور منافع سے متعلق کتابوں کا کافی مطالعہ کرے تاکہ طبعی افعال
(Normal function)
کو غیرہ طبعیافعال
(Abnormal function)
سے امتیاز دے سکے. ہم مردانہ اور زنانہ امراض کو لکھنے سے پہلے انکے تولیدی اعضاء کی اجمالی تشریح و منافع کو ذکر کر چکے ہیں جو کہ افعال تولید
(Reproductive function)
میں خاص رول ادا کرتے ہیں، چاہے وہ بالخصوص تولیدی اعضاء ہوں یا اعضائے تولید کے لئے معاون و مددگار کی حیثیت رکھتے ہوں. لہذا اس مرض کے معالجہ سے پہلے تشریح و منافع کو پڑھیں تا کہ بیماری کے سبب کو پہچان سکیں۔
اسباب: مرد میں قضیب اور یوریتھرا (پیشابی نالی )کا پیدائشی یا اکتسابی نقص، ہائی پوتھائیرائیڈزم یا ذیابیطس شکری کی وجہ سے خصیوں کی ناقص فعلیت اور خصیوں کا ورم(Orchitits)
اور عورتوں میں رحم کا نہ ہونا یا چھوٹا ہونا، بچہ دانی کا اپنی جگہ سے ٹل جانا، ویجائنا (اندام نہانی) کا تنگ ہونا، لیکوریا، کیمیائی ادویہ کا کثرت سے استعمال، سوزاک، آتشک، بچہ دانی میں رسولی، مبیض
(Ovary)
کا ورم، فیلوپین (قاذفین) نالیوں کا ورم یا ان میں رکاوٹ ہونا، ماہواری کی بے قاعدگی
(Menstrual irregularity)
، بچہ دانی پر چربی چڑھ جانا، ہارمون کی گڑبڑی جیسے ہائپر ایڈرینوکارٹی سزم (Hyperadinocorticism)
، پولی سسٹک اورین ڈیسیز
(Polysystic ovarian disease)
یعنی کثیر التعداد کیسہ والی مبیض کی بیماری، ہائپر پرولیکٹی نیمیا
(Hyperprolactinamia)
اور کروسومی انحراف
(Chromosomal aberration)
جیسے کلائن فلٹر سنڈروم
(Klien felter syndrome)
یعنی ایسا شخص جس میں
آٹوسوم اور ٣ جنسی کروموسوم، ایکس ایکس وائی کروموسوم ہوں. اس طرح کل ٤٧ کروموسوم ہوتے ہیں، جس میں ایک ایکس کروموسوم زائد ہوتا ہے. فرد نر دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے بڑے پستان، چھوٹا عضو تناسل، ناقص خصیہ ہوتے ہیں. یہ شخص بانجھ، تناسلی عورت اور عملی مرد ہوتا ہے. اس کے علاوہ دوسرے کروموسومی انحراف جیسے ٹرنرز سنڈروم وغیرہ، مادہ ٔمنویہ کے کرم کا نقص اور قلت خون. اس لئے علاج شروع کرنے سے پہلے بیماری کی اصل علت یا سبب کو جان لینا نہایت ضروری ہے۔
جنین (Zygot)
اگر عورت کی معمولی آزمائش سے کسی بیماری کا پتا نہ ملے تو مرد کو چاہیے کہ پانچ دن جنسی ارتباط قائم نہ کرے. اس کے بعد جماع کرے. جب منی خارج ہو تو اس کو چوڑے منہ کی شیشی میں ڈال کراور ڈھکن لگا کر پیتھولوجی لیبوریٹری میں اس کی جانچ کرائے کیوں کہ تولید مثل میں نر و مادہ دونوں برابر کے شریک ہیں اور دونوں کے تولیدی خلیات کے ملاپ سے ہی جنین (Zygot)تشکیل پاتا ہے۔درحقیقت منی بعض غدد سے ریزش کرنے والا سیال ہے جو کرم منی
(Spermatozoon)
یا نر تولیدی خلیات
(Male reproductive cells)
پر مشتمل ہوتا ہے. کرم منی یا اسپرمس منی کی کل مقدار کا ٥ فیصدی حصہ ہوتے ہیں جو خصیتین (Testicles)
میں پیدا ہوتے ہیں. منی کا لگ بھگ ٦٠ فیصدی حصہ منی
(Seminal vesicles)
سے آتا ہے. یہ گاڑھا ناقابل رد عمل یا تھوڑا الکلائن سیال معمولاً کچھ پیلا سا یا خفیف گہرے رنگ کا ہوتا ہے. جس کا رنگ اس کے اندر موجود مادوں سے بنتا ہے. غدۂ قدامیہ (Prostate gland)
سے منی کا ٢٠ فیصدی حصہ بنتا ہے . غدہ ٔ قدامیہ سے ریزش کرنے والا سیال دودھ جیسا کچھ تیزابی رد عمل والا ہوتاہے جس کا پی.ایچPh6.5اکثر اس کے اندر موجودسائٹرک ایسڈ کے سبب ہوتا ہے. غدۂ قدامیہ سے آنے والے سیال میں پرٹیولائی ٹک انزائم
(Proteolytic enzyme)
اور ایسڈ فاسفیٹیز
(Acid phosphatase)
جیسے مادے بھی ہوتے ہیں. یہ انزائم مادۂ منویہ کے جمنے، سوکھنے یا سائل رہنے کا ذمہ دار ہے جو ابھی تک یہ سمجھا جا رہاہے، چونکہ واضح طور پر اس کا عمل معلوم نہیں ہوسکا ہے.١٠ سے ١٥ فیصدی مادۂ منویہ کا حصہ ایپی ڈائی ڈیمس
(Epididymis)
(خصیوں کے ساتھ لگی ساختیں) واسا ڈفرنشیا، پیشابی نالی کے بلب یا جڑ اور پیشابی نالیوں کے غدد سے ملکر بنتا ہے۔مادۂ منویہ کی آزمائش کا اہم مقصد اس کے اندر موجود اسپرم یا کرم منی کی تعداد اور ان کی مختلف حالتوں کا پتا لگانا ہے، کیونکہ تولید کی اساس اور بنیاد کرم منی کی طبعی حالت جیسے تعداد، تحرک اور طبعی شکل ہے۔ڈاکٹری معاینہ اورلیباریٹری جانچ: زنانہ امراض کی تشخیص اور معالجہ کے لئے نسوانی اعضاء کا ٹھیک سے معاینہ کرنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ معاینہ کے بغیر درست تشخیص ممکن نہیں ہے اور بغیر تشخیص کے اندھادھند علاج نہ صرف یہ کہ بیماری میں تخفیف کا باعث نہیں ہوتا بلکہ مضر ثابت ہوتا ہے۔یہاں بڑے بڑے اسپتالوں میں کس طرح عورتوں کا معاینہ کیا جاتا ہے تفصیلاً لکھا جارہا ہے۔
پوشیدہ نسوانی اعضاء کا معاینہ کرنے سے پہلے عورت کو پیشاب کرا کے یا کیتھیٹر سے پیشاب اتار کر مثانہ اور پاخانہ کرا کے یا انیما دیکر آنتوں کو خالی کر لیا جائے کیونکہ مثانہ اور آنتوں کے بھرا ہونے کی وجہ سے نسوانی تناسلی اعضاء کے معاینے کے نتائج غلط ہو سکتے ہیں۔
معاینہ کے لئے عورت کو لٹانے کی حالت
سب سے پہلے ڈاکٹر عورت کے بیرونی تناسلی اعضاء کو دیکھے، توجہ سے دیکھے کہ کہ تناسلی اعضاء کا رنگ سالم حالت سے بدلا تو نہیں ہے، گھاؤ، لالی، ورم اور چوٹ تو نہیں ہے، پیشابی راستے میں زیادہ لالی تو نہیں ہے۔لڑکی کا پردۂ بکارت ثابت ہے یا پھٹ چکا ہے، بظر بہت چھوٹا یا اس میں کوئی نقص تو نہیں، اندام نہانی نیچے تو نہیں آچکا یا باہر نکل آیا ہے، بچہ دانی باہر یا نیچے تونہیں آچکی، عورت کے پیشابی راستے کی خلفی دیوارگر کر اندام نہانی میں تو نہیں اتر آئی،عورت کے مبرز کے اندر اور باہر بواسیر کے مسے تو نہیں یا مبرز باہر تو نہیں آچکا ہے، عورت کا مبرز چرا، پھٹا یا اس میں ناسور تو نہیں ہے؟اس کے بعد عورت کے پیشابی سوراخ کا معاینہ کریں. ورم اور سرخ ہونے کے سبب پیشابی سوراخ اونچا تو نہیں ہے. اب اس سوراخ کو دونوں طرف انگلیوں سے دبا کر دیکھیں. دبانے سے اندر سے گاڑھی پیپ ملی رطوبت تو نہیں آتی. اس کے بعد عورت کے اندام نہانی میں ایک یا دو انگلیاں(جس کو کسی بے جراثیم چکنائی سے اچھی طرح چکنا کر لیا گیا ہو)اندام نہانی میں داخل کریں۔عورت کو نیچے تولیدی اعضاء پر زور لگانے کو کہیں، اس سے اندام نہانی میں رسولی، بچہ دانی باہر یا نیچے آجانے یا مبرز نیچے آجانے سے معاینہ کرنے میںمدد ملتی ہے۔کنواری لڑکی جس کا پردۂ بکارت پورا ہوتا ہے، اس کے اندام نہانی میں انگلیاں ڈال کر معاینہ کرنا ناممکن ہوتا ہے یا ایسا کرنے پر لڑکی کو بہت درد اور تکلیف ہوتی ہے۔اکثر ڈاکٹر ایسی لڑکی کے مبرز میں انگلی ڈال کربچہ دانی اور آس پاس کے دوسرے تولیدی اعضاء کا معاینہ کر لیتے ہیں، ان کو اندام نہانی میں انگلیاں ڈال کر معاینہ کرنے ضرورت نہیں پڑتی۔ڈاکٹر اندام نہانی میں انگلی ڈال کر بچہ دانی کی گردن
(Cervix uteri)
کو ٹٹول کر اس کی شکل اور سائز، عنق رحم کس طرف کو جارہی ہے، عنق رحم چھلی یا چری ہوئی تو نہیں، بہٹ بڑی تو نہیں ہے، اس پر کوئی رسولی، ابھار، مسا، کینسر، سختی تو نہیں ہے، عنق رحم کو دبانے یا ٹٹولنے پر اس سے خون تو نہیں نکلتا، (عنق رحم پر مسا یا کینسر ہونے پر اس کو دبانے پر خون بہنے لگتا ہے) وغیرہ کی معلومات لیتے رہیں۔انگلیوں سے ٹٹول کر بچہ دانی کا سائز، شکل اور اس کی حالت کا معاینہ کریں. اس کی جانچ کے لئے ڈاکٹر اپنے دوسرے ہاتھ کی انگلیا ں بچہ دانی پر پیڑو کے اوپر کھڑی کر کے ان کو نیچے کی طرف دبائے، ایسی حالت میں اس سے پیڑو پردبائی انگلیوں اور اندام نہانی میں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے بیچ میں بچے دانی صاف صاف محسوس ہوتی ہے۔بچہ دانی کی جانچ کر تے وقت عورت کو منہ سے سانس لینے کو کہیں. اس سے پیڑو کے عضلات ڈھیلے ہوجاتے ہیں اور بچہ دانی پیڑو پر دبائے ہاتھ اور اندام نہانی میں انگلیوں کے بیچ قابو میں آجاتی ہے، ماہر ڈاکٹر اس طرح معاینہ کرتا ہے کہ عورت کو درد یا مشقت نہیں ہوتی ہے، لیکن عورت موٹی ہونے پر پیڑو کی دیوار بہت موٹی ہوجانے پر اس روش سے معاینہ کرنے میں دبلی پتلی عورت کی بہ نسبت مشقت ہوتی ہے۔ڈاکٹر جب اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں اندام نہانی میں ڈال کر اور دوسرا ہاتھ عورت کے پیڑو پر رکھ کر تناسلی اعضاء کا معاینہ کرتا ہے تو اس کو دو دستی معاینہ (Bimanual examination)
کہتے ہیں. یہ جانچ بھی پہلے لکھی گئی حالت میںعورت کو لٹا کر کی جا سکتی ہے. اگر عورت کی جانچ، اس کو ان دونوں حالتوں میں یعنی پہلے پیٹھ پر لٹا کر اور بعدمیں بائیں کروٹ لٹا کر کی جائے تو معاینہ کرنے میں غلطی ہونے کا امکان نہیں رہتا. دونوں حالتوں میں معاینہ کرنے سے پہلے عورت کو پیشاب اور پاخانہ کرا لیں یا کیتھیٹر سے پہلے پیشاب اتار کر مثانہ خالی کر لیں اور انیما سے آنت خالی کر لیں تاکہ معاینہ کرتے وقت اس کا مثانہ اور اس کی آنتیں بالکل خالی ہوں. ڈاکٹر اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں عورت کے اندام نہانی میں ڈالے اور بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پیڑو پر رحم کے اوپر رکھ کر معاینہ کرے۔
اس معاینے سے ڈاکٹر اپنے دونوں ہاتھوں کے بیچ میں رحم کو چھونے اور ٹٹولنے کی کوشش کرے، ڈاکٹر کی دونوں انگلیاں اندام نہانی کے آخری سرے کے سامنے مبرز کو چھو رہی ہوں اور پیڑو پر بائیں ہاتھ کی انگلیاں پیڑو کے بیچ کی ہڈی
(Symphysis pubis)
کے اوپر ہو. ایسی حالت میں اگر بچہ دانی اپنی حقیقی جگہ اور حالت میں ہو تو یہ دونوں ہاتھو ں سے بھی ٹٹولا جا سکتا ہے۔
اس طریقے سے آپ رحم کو ٹٹول کر رحم کا سائز معلوم کر سکتے ہیں. رحم بڑا ہو چکنے پر عورت کو حمل ہو سکتا ہے. اس طریقے سے رحم سخت، ٹیڑھا یا جا بجا ہوجانے کی معلومات اس کو ٹٹول کر معاینہ کرنے سے حاصل ہوتی ہے. رحم اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے کہ نہیں، معاینہ کرنے پر عورت کو درد تو نہیں ہوتا، ان باتوں کی جانکاری حاصل کریں بعد میںانگلیوں کو اندام نہانی کے آخری سرے کی پچھلی طرف لے جائیں، اس حصے کو ٹٹولنے پر انگلیوں کو رحم کی سوجن محسوس ہو سکتی ہے. اگر رحم الٹ یا اپنے مقام سے ہٹ چکا ہے تو اس طریقے سے اس کا معاینہ بھی کیا جاسکتا ہے. آپ انگلیوں سے ٹٹول کر مبیض اور قاذفین کی سوجن کا بھی معاینہ کر سکتے ہیں۔
اس طریقے سے آپ یوریٹر (حالب) جو گردے سے مثانے میں آ رہا ہے. اگر اس کی دیواریں بہت موٹی ہو چکی ہیں یا اس میں پتھری ہے تو آپ کی انگلیوں کو محسوس ہو سکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی عورت کے پستانوں کا بھی امتحان کر لیا جائے کیونکہ کبھی کبھار ہائپر پرولیکٹی نیما، ہائی پو گوناڈزم اور دوسری ہارمونل خرابیوں سے حمل نہیں ہوتا ہے. پستانوں کی آزمائش سے ان خرابیوں کا اندازہ ہو سکتا ہے.
خوردبینی جانچ
اس جانچ میں خورد بین کے ذریعے منی میں موجود کیڑوں کی تعداد، ان کی حرکت اور شکل کا مطالعہ کیا جاتا ہے ان کی طبعی حالت کچھ اس طرح ہونی چاہیے۔
تعداد
(Count)
کرم منی کی تعداد٦ کروڑ سے ١٥ کروڑ فی ملی لیٹر ہونی چاہیے.٦کروڑ سے نیچے غیر طبعی مانا جاتا ہے۔
تحرک(Motility)
کرم منی کا ٨٠ فیصد یا اس سے زیادہ متحرک ہونا ضروری ہے۔
شکلیات (Morphology)
٨٠ سے ٩٠ فیصد کرم کا شکل کے لحاظ سے طبعی شکل میں ہونا تولید کے لئے طبعی مانا گیا ہے٣٠ فیصد سے کم طبعی غیر نارمل ہے۔
تولیدی صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لئے جماع کے بعد کی جانچ
(Post coital test)
کی جاتی ہے جس سے نر و مادہ دونوں کی آمیزش کے بعد ان کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے یہ جانچ سمس ہبنر کی روش
(Sims Hubnur’s method)
سے شریکین کے جنسی روابط قائم کرنے کے بعد انجام دی جاتی ہے جس کے لئے بہترین وقت عورتوں کے بیضہ ریزی (یعنی جب انڈے پھوٹ رہے ہوں) کے بیچ کا زمانہ ہوتا ہے۔جانچ کے لئے ہدایات و طریقہ: دونوں جنسی شریک ایک دو سرے سے جنسی ملاپ برقرار کریں۔
١۔ ملاپ سے پہلے دونوں جنسی شریک کو چاہیے کہ اپنے تولیدی اعضاء کو کسی ضد عفونی دوا جیسے ایکری فلیوین، ڈیٹول یا بٹاڈین سے دھوکر تصفیہ شدہ ڈاکٹری روئی سے صاف کر کے خشک کر لیں تاکہ کسی جراثیمی، فنجی اور دیگر آلودگی سے تولیدی خلیات تباہ نہ ہو جائیں اور نتیجةً جانچ میں غلطی ہو۔
٢۔ نر جنسی پارٹنر کو چاہیے کہ عورت کے بظر کو جو کہ فرج کے اوپری جانب چھوٹے لبوں کے اتصال پر ایک مٹر کے برابر ابھار ہوتاہے ، مسلے تاکہ عورت کے بارتھولین غدود سے نکلنے والا سیال افزائش کے ساتھ نکل جائے، جب یہ سیال نکلے تو اسے تصفیہ شدہ ڈاکٹری روئی سے صاف کرتا جائے کیونکہ یہ سیال تیزابی رد عمل رکھتا ہے اور مادۂ منویہ سے ملنے پر اس کے تولیدی خلیات تباہ کر دیتا ہے، اس لئے اس کا برطرف کرنا ضروری ہے تاکہ جانچ کا نتیجہ غلط نہ آئے اور مسلنے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ عنق رحم
(Cervix uteri)
کی ریزش میں افزائش ہوتی ہے اور اس سیال میں تولیدی خلیات کی عمر بڑھ جاتی ہے۔
٣۔ نر جنسی شریک کو چاہیے کہ اپنے قضیب کولکوڈ پیرافین سے چکنا کر لے کیونکہ بارتھولین سیال کی صفائی سے اندام نہانی کی چکنائی ختم ہوجاتی ہے، ایسا کرنے سے ازدواجی عمل میں سہولت اور لطف ملتا ہے، نیز نر جنسی شریک صبر سے کام لے تاکہ مادہ جنسی شریک کو دیر تک لذت ملے اور ریزش کی مقدار بڑھ جائے. جانچ میں مقدار بھی خاص اہمیت رکھتی ہے. کم مقدار، نظام تولید کے نقص کی علامت ہے. یہ بات دھیان میں رہے کہ ہمبستری کے بعد عورت تب تک لیٹی رہے جب تک مخاط نہ نکال لیا جائے۔
٤۔ عورت کو جماع کے ٨ گھنٹے بعد ہی فوراً جاکر جانچ کرانی پڑتی ہے جس میں اس کے عنق رحم کے طاقوں میں جمع شدہ مخاط لیکر لیباریٹری میں بھیجا جاتا ہے۔
مخاط نکالنے کا طریقہ:چاہیے کہ عورت کو موزے کے مانندبدن سے چپکا رہنے والا چست گارمنٹ (Garment)
پہننے کو دیا جائے جس میں سرنج ڈالنے کے لئے ایسا راستہ بنا ہوتا ہے کہ بدن کا کوئی حصہ نہ دکھائی دے اس طرح اندام نہانی میں سرنج داخل کر کے عنق رحم یا سروکس کے طاقوں(Fornix uteri)
میں موجود لعاب کو کھینچ کرتصفیہ شدہ شیشی میں رکھتے جائیں. اس طرح سارا مخاط بہ آسانی نکالا جا سکتا ہے۔
قاذفین یعنی فیلوپین ٹیوب کے کھوکھلے پن کی جانچ
یہ جانچ بانجھ پن کے مریضوں میں تشخیصی اور شفائی دونوں اہمیت کی حامل ہے. اس جانچ کا بہترین وقت بیضہ ریزی سے پہلے کا زمانہ
(Preovulatory period)
ہے. اس جانچ سے فیلوپین ٹیوب میں رکاوٹ کا پتا لگایا جاتا ہے. رکاوٹ ہونے پر بیضہ کا ملن کرم منی سے نہیں ہو پاتا ہے۔
عورتوں میں بیضہ ریزی کا وقت معلوم کرنے کا طریقہ
بیضہ ریزی کا وقت معلوم کرنا بھی ایک فرض ہے. اور یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ عورت کو بیضہ ریزی ہوتی بھی ہے یا نہیں؟ جن عورتوں میں بیضہ ریزی نہیں ہوتی انھیں حمل نہیں ہوسکتا ہے. صرف بیضہ ریزی ہی کے وقت میںاستقرار حمل ممکن ہے. بیضہ نکلنے پر ٣٦ گھنٹے کے اندر جماع کرنے پر مرد کی منی کا کرم اس بیضہ میں گھس جاتا ہے تو حمل ہوجاتا ہے. جب رحم میں بیضہ نہیں ہوگا تو جماع کرنے پر کرم منی اس میں نہیں گھس سکتا ، اس لئے بیضے کے بغیر حمل ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔جن عورتوں کو ٢٨ دن کے بعد خون حیض آتا ہے، ان میں ماہواری کے ١٣ویں اور ١٦ ویں دن پر ہی اکثر بیضہ پیدا ہوتا ہے . اس لئے بیضہ پیدا ہونے کے ٣٦ گھنٹے بعدتک ہی عورت کو حمل ٹھہر سکتا ہے. دئیے گئے جدول کو پڑھ کر عورت میں بیضہ ریزی کا دن معلوم کر سکتے ہیں لیکن یہ وقت حساب اور اندازہ پر موقوف ہے، اس لئے دقیق نہیں ہے۔
ماہواری چکر کی مدت حمل ہونے کا زیادہ چانس خون آنے کے بعد
٢٦ دن والی عورتوں میں ١١ویں دن سے ١٤ویں دن تک
٢٧ دن والی عورتوں میں ١٢ ویں دن سے ١٥ ویں دن تک
٢٨ دن والی عورتوں میں ١٣ ویں دن سے ١٦ ویں دن تک
٣٩ دن والی عورتوں میں ١٤ ویں دن سے ١٧ ویں دن تک
٣٠ دن والی عورتوں میں ١٥ ویں دن سے ١٨ ویں دن تک
مصنوعی زرخیز کاری
طریقۂ کار یہ ہے کہ بیضہ ریزی نہ کرنے والی
(Anovulatory)
عورت کے لئے کسی دوسری عورت کا بیضہ لیا جاتا ہے یا عورت کو بیضہ ریزی تو ہوتی ہے لیکن کسی وجہ سے مرد کا کرم منی اس کو فرٹی لائز نہ کر پارہا ہو تو اس طریقے کو عمل میں لایا جاتا ہے اور نر تولیدی خلیہ کو مادہ تولیدی خلیہ سے ملا کربچہ دانی میں مستقر کر دیا جاتا ہے. اب تک جو تجربات میں آیا ہے، یہ ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ نر تولیدی خلیہ کو سوئی کے ذریعے مادہ تولیدی خلیے
(Ovum)
میں ڈالا جائے بلکہ کرم منی کو بعض محلول جیسے سوڈیم فاسفیٹ
(Sdium phosphate)
کے محلول میںطاقتور بناکر دونوں کو ایک ٹسٹ ٹیوب میں ایک دوسرے کے نزدیک ٩٩ ڈگری فارن ہائٹ حرارت پر رکھ دینے سے اکثر اوقات کرم منی خود بخود بیضہ (انڈے) میں گھس جاتا ہے. جب نر و مادہ دونوں خلیے ایک ہو جائیں تو بارور خلیے کو بچہ دانی میں ڈال دیا جائے۔
مرد کے مادۂ منویہ میں کرم منی کم
(Oligoospermia)
یا کمزور
(Asthenospermia)
ہونے کی صورت میں مصنوعی طریقے سے شوہر کا منیعورت کی بچہ دانی میں چھوڑنے
(AIH)
سے استقرار حمل ہوجاتا ہے۔جب مادۂ منویہ بالکل ناکارہ ہو اور اے آئی ایچ
(AIH)
سے کامیابی کی امید نہ ہو تو کسی دوسرے مرد کے مادۂ منویہ کو عورت کی بچہ دانی میں پہنچا نے
(AID)
سے حمل ہونا یقینی ہوجاتا ہے. یہ عمل عورت کی بیضہ ریزی کے زمانے میں انجام دیا جائے۔