Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

نمک کے طبی فوائد

نمک کے طبی فوائد
نمک اندرونی طور پر باریک باریک کیڑوں کو ہلاک کرتا ہے۔ سلور نائٹریٹ زہر کا تریاق ہے۔ اس کو غیر محلول کلوارئیڈ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ غالباً اسی لئے تاجدار مدینہ نے بچھو کاٹنے پر نمک کا محلول لگایا ہے۔ اندرون جریان خون اور نفث الدام (خون تھوکنے) کو بند کرتا ہے۔

  نمک بدن کے ہیموگلوبن کو محلول حالت میں رکھتا ہے اور ہم مسلسل اس کو پسینہ، پیشاب اور آنسوؤں وغیرہ سے خارج کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے نمک کی ضرورت یا کمی نہ صرف امراض کا باعث ہو گی بلکہ موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

 معدی لعابات اور ہضمی غدودود میں ترشحات بڑھ جاتے ہیں۔ اس لئے بھوک کم لگتی ہے۔

 ہضم کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ خصوصاً ترکاریوں کے ہضم میں۔

 پیاس بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے پتلی غذاؤں کے جذب ہونے میں مدد ملتی ہے۔

 نمک محلول میں خون کے البومن اور گلو بیونس کو حل کرتا ہے۔

 گوشت کو نمک لگا کر کباب کی شکل میں محفوظ اور مذیدار بنایا جا سکتا ہے۔

 اعتدال کی صورت میں یہ ایک ٹناک ہے۔ معمول صورتوں میں غذا کا اہم جز ہے اور ذائقہ اور مصالحہ کے بطور استعمال ہوتا ہے۔

 

Read More

ملح ۔ نمک

ملح ۔ نمک
سورہ فرقان 53 اور سورہ فاطر 35۔ 3 میں نمک کا ذکر موجود ہے۔ کھانے کو ذائقہ دار بنانے کے لئے نمک ضروری ہے۔ اوسط درجہ قوی آدمی کے لئے دن رات 2۔ 3 گرام نمک کی مقدار ضروری ہے۔احادیث میں اس کا ذکر
تاجدار مدینہ نے فرمایا۔ “تمہارے سالن کا سردار نمک ہے۔“ یہ حدیث ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حضرت انس کی مرفوع حدیث ذکر کی ہے۔ حضرت علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم راوی ہیں کہ حضور اکرم نے فرمایا۔ “کھانا نمک سے شروع اور نمک پر ہی ختم کرو کیونکہ اس میں ستر بیماریوں سے شفاء ہے۔ جن میں جذام، برص درد حلق، درد دنداں اور درد شکم شامل ہیں۔“ (نزہتہ المجالس۔ جلد اول)
امام صادق نے فرمایا۔ “جو شخص اپنے لقمہ پر نمک چھڑکے تو چہرے سے سفید و سیاہ پھنسیاں مٹ جائیں گی۔“
امام رضا نے اپنے اصحاب سے پوچھا۔ کونسا سالن ضروری ہے ؟ کسی نے کہا، گوشت۔ کسی نے کہا، گھی۔ فرمایا، نہیں وہ “نمک“ ہے۔ فرمایا، ایک تفریح میں ہم نمک لینا بھول گئے، باوجود سب کچھ ہونے کے ہر چیز بے مزہ تھی۔
مسند فردوس میں لکھا ہے کہ تاجدار انبیاء نے حضرت عائشہ سے فرمایا۔ “جو شخص کھانے سے پہلے اور بعد میں نمک چکھے، وہ تین سو تیس قسم کی بلاؤں سے بچ جائے گا۔ سب سے کمتر “جذام“ ہے۔

نماز کی شرطوں کی تفصیل اور احکام

نماز کی شرطوں کی تفصیل اور احکام

اب نماز کی چھ شرطوں کی تفصیل اور اس کے تعلق سے شرعی احکام پیش خدمت ہیں۔

نماز کی پہلی شرط طہارت

 نمازی کا بدن حدثِ اکبر سے پاک ہو یعنی جنابت ، حیض وغیرہ سے پاک ہونے کے لئے غسل واجب نہ ہو ۔

  نمازی کا بدن حدث اصغر سے پاک ہو یعنی بے وضو نہ ہو۔

 نمازی کا بدن نجاست غلیظہ و خفیفہ بقدرِ مانع سے پاک ہو یعنی نجاست غلیظہ درہم کی مقدار سے زیادہ لگی ہوئی نہ ہو اور نجاست خفیفہ کپڑا یا بدن کے جس حصہ پر لگی ہو اس حصہ یا عضو کی چوتھائی سے زیادہ لگی ہوئی نہ ہو ۔

 نمازی کے کپڑے نجاست غلیظہ و خفیفہ بقدرِ مانع سے پاک ہوں۔

 جس جگہ پر نماز پڑھنا ہو وہ جگہ پاک ہو۔

طہارت کے تعلق سے کچھ اہم مسائل

مسئلہ: جس جگہ نماز پڑھنا ہو اس کے پاک ہونے سے مراد قدم کی جگہ اور موضع سجود کی جگہ کا پاک ہونا ہے یعنی سجدہ کرتے وقت بدن کے جو اعضاء زمین سے لگتے ہیں ان اعضاء کے زمین سے لگنے کی جگہ کا پاک ہونا ہے ۔ درمختار

مسئلہ: نماز پڑھنے والے کے ایک پاؤں کے نیچے درہم کی مقدار سے زیادہ نجاست ہے تو نماز نہ ہوگی یونہی دونوں پاؤں کے نیچے تھوڑی تھوڑی نجاست ہے کہ جمع کرنے سے ایک درہم کے مقدار ہو جائے گی تو بھی نماز نہ ہوگی ۔ درمختار

مسئلہ: پیشانی پاک جگہ ہے اورناک نجس جگہ پر ہے تو نماز ہوجائے گی کیونکہ ناک درہم کی مقدار سے کم جگہ پرلگتی ہے اور بلا ضرورت و مجبوری یہ بھی مکروہ ہے -رد المحتار

مسئلہ: اگر سجدہ کرنے میں کرتہ و قمیص کا دامن وغیرہ نجس جگہ پر پڑتے ہوں تو حرج نہیں -ردالمحتار

مسئلہ: اگر نجس جگہ پر اتنابارےک کپڑا بچھاکر نماز پڑھی کہ وہ کپڑا ستر کے کام میں نہیں آسکتا یعنی اسکے نیچے کی چیز جھلکتی ہو تو نماز نہ ہوئی اور اگر شیشہ  پر نماز پڑھی اور اسکے نیچے نجاست ہے ، اگرچہ نمایاں ہو تو بھی نماز ہوجائے گی -ردا لمحتار

مسئلہ: اگر موٹا کپڑا نجس جگہ پر بچھاکرنماز پڑھی اور نجاست خشک ہے کہ کپڑے میں جذب نہیں ہوتی اور نجاست کی رنگت اور بدبو محسوس نہیں ہوتی تو نماز ہوجائے گی کہ یہ کپڑا نجاست اور نمازی کے درمیان فاصل ہوجائے گا بہارشریعت

نوٹ :  اگر پاک و صاف جگہ میسر ہے تو نجس جگہ پر کپڑا بچھا کر نماز نہ پڑھے ۔ مذکورہ بالا مسائل حالتِ مجبوری کی صورت کے ہیں ۔

 

Read More

ناخن ترشوانا

ناخن ترشوانا
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ تاجدار مدینہ سرور قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عظمت نشان ہے، جو موئے زیر ناف کو نہ مونڈے اور ناخن نہ ترشوائے اور مونچھ نہ کاٹے وہ ہم میں سے نہیں (مسلم شریف)
یہ کتنا افسوس ناک امر ہے کہ بعض مرد اور خصوصاً عورتیں ناخن بڑھا کر فطرت سے جنگ کرنا چاہتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ناخن پالش بھی لگاتی ہیں کہ یہ حرام ہے۔ اس لئے کہ پینٹ کے رنگ کی وجہ سے پانی ناخن کے جرم اور سطح تک نہیں پہنچتا اور اس کے لگانے والوں اور والیوں کا غسل وضو طہارت سب ناقص اور باطل رہ جاتے ہیں کیونکہ ان مقامات کے بال کے برابر جگہ خالی رہ جائے تو وضو یا غسل نہیں ہوگا۔ البتہ مہندی کی سرخی جو کسی قسم کے جرم یا تہہ سے خالی ہوتی ہے عورتوں کے ہاتھوں اور مردوں کی سفید داڑھیوں کو رنگ مزین کرنے کیلئے جائز ہے۔ بہرحال زیادہ بڑھے ہوئے ناخن جراثیموں کی پناہ گاہ اور اکثتر متعدی بیماریوں مثلاً ٹائیفائیڈ، اسہال، پیچش، ہیضہ اور آنتوں کے کیڑے انسانی ناخن میں پوشیدہ ہیں اور جب انسان کھانا کھاتا ہے تو یہ غذا میں شامل ہو کر پیٹ کے اندر چلے جاتے ہیں اور اندر ہی اندر پھیلتے اور پھولتے رہتے ہیں

نیند سے بیداری پر پہلے ہاتھوں کی صفائی

نیند سے بیداری پر پہلے ہاتھوں کی صفائی
حکم ہے کہ جب کوئی شخص سو کر اٹھے تو جب تک تین بار ہاتھ نہ دھو لے اس کو کسی پانی کے برتن میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہئیے کیونکہ سوتے وقت نا معلوم اس کا ہاتھ کہاں کہاں پڑا ہو گا۔نیند سے بیدار ہونے پر ہاتھوں کی صفائی یعنی (دھونا) نہایت معقول اور سائنٹیفک حکم ہے جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس طرح غیر مطہر ہاتھ یا ہاتھ کی انگلیاں اگر صاف پانی میں ڈبو دی جائیں تو یقیناً اس کو ملوث یا نجس کر دیں گی۔ اس لئے تاکید فرمائی گئی۔ اس ہدایت سے معلوم ہوا کہ اسلامی تعلیمات میں ہر ہر عضو کی پاکیزگی کا کتنا اہتمام کیا گیا ہے اور امراض کے نہ صرف ایک دوسرے سے لگنے بلکہ خود اپنے دبن کے ایک حصہ سے دوسرے حصہ میں منتقل ہونے کے امکانات کو ان کے اپنے ابتدائی مرحلوں میں ہی نہایت موثر طریقہ سے بے اثر کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہیں صحت کو متاثر کرنے والی اور روز مرہ کام آنے والی احتیاطیں جن کے صرف نظر کرنے پر صحت کے متاثر ہو جانے کے قوی امکانات ضرور موجود رہتے ہیں۔ تمام انبیاء علیہم السلام کی بھی سنت رہی ہے یہ مقامات ایسے ہیں جن کی صحت و صفائی طبی نقطہ نظر سے ضروری ہیں اور جس کو دین فطرہ نے بھی رموز فطرات قرار دیا ہے احادیث مبارکہ کی روشنی میں کم و بیش (دس) امور فطرت معلوم ہوتے ہیں۔ (بخاری و مسلم شریف)

جسم کی صفائی اور میڈیکل سائنس

جسم کی صفائی اور میڈیکل سائنس

یہ امر تحقیق شدہ ہے کہ تمام امراض کی اصل وجہ “جراثیم“ (وہ خوردبینی اجسام) ہیں جو حجم میں ایک ملی میٹر کے ہزارویں حص سے بھی کم ہوتے ہیں اور جو مختلف حیوانی یا نباتاتی اجسام سے اپنا تغذیہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں کیمیاوی تبدیلیوں کی وجہ جراثیمی سمیت پیدا ہوتی ہے جو نہایت مضر بلکہ خطرناک امراض پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ (بحوالہ علم الجراثیم)

جراثیم میلی کچیلی جگہوں پر مختلف طریقوں سے پیدا ہوتے ہیں یہ کثافت و غلاظت میں نشوونما پاتے ہیں اور طرح طرح کی خطرناک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔

طہارت و صفائی کی اہمیت

طہارت و صفائی کی اہمیت
بیمار جسم میں نہ صحت مند دماغ رہ سکتا ہے اور نہ صحیح روح کام کرتی ہے۔ اس لئے کہ جسم کی صفائی سے دل و دماغ میں بلند خیالات اور پاکیزہ تصورات جنم لیتے ہیں دل بھی اچھے اور نیک کاموں کی طرف مائل ہوتا ہے اور عبادت تلاوت کی طرف رجوع ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس دور کے تمدن کا اصل اصول صفائی ہے مگر اس اہمیت کے جاننے کے باوجود جدید طرز تمدن میں جسمانی طہارت کا کوئی ضابطہ عمل مقرر نہیں ہے اور نہ خیالات فاسد کی اصلاح کیلئے کوئی اصول مدون ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ صحت خوبصورتی ہے اور خوبصورتی بھی خوب صحت کی آئینہ دار ہے اس میں شک نہیں ہے کہ ایک صحت مند آدمی کی وجاہت بیمار کے مقابلہ میں بہتر ہوتی ہے اور یہ بات حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی
اسلامی عقائد میں جو اہمیت توحید کی ہے وہی حیثیت عبادت میں “طہارت“ کی ہے جیسے توحید کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہو سکتا، ویسے ہی طہارت کے بغیر کوئی عبادت قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ غرض جس طرح ہم توحید کو مذہبی اعتقادات کا اصل الاصول سمجھتے ہیں اسی طرح طہارت پر اپنی عبادت کا دارو مدار مانتے ہیں۔ اس لئے تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ النظافۃ من شعبۃ الایمان (ترجمہ) نظافت و پاکی ایمان کا ایک اہم شعبہ (ٹکڑا حصہ) ہے۔

مذید فرمایا اے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ پوری طہارت کیا کرو تاکہ تمہاری عمر دراز ہو۔ (کیمیائے سعادت) گویا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے درازی عمر کیلئے طہارت و صفائی کو لازم قرار دیا اور ہمیشہ باوضو رہنے کو سراہا گیا۔ (ترمذی شر یف) اب دیکھنا یہ ہے کہ طہارت ہے کیا ؟ اور اسلام نے اس کے متعلق کیا احکامات دئیے ہیں۔ عام طور پر طہارت کے معنی پاکیزگی یا صفائی کے ہیں لیکن علامہ غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے لکھا ہے کہ اسلامی طہارت میں ظاہری و باطنی دونوں قسم کی پاکی شام ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں ظاہری صفائی یہ ہے کہ جسم کسی قسم کی نجاست سے آلودہ نہ ہو باالفاظ دیگر جسم ہر قسم کی نجاست سے چاہے وہ حقیقی ہو (جو بظاہر نظر آئے جیسے بول و براز وغیرہ یا حکمی ہو (جو نظر نہ آئے) جیسے (حدث ہوا کا اخراج) ان تمام کو دور کرنے کا نام طہارت ہے۔ اسی طرح جسم کے علاوہ لباس اور مقام عبادت وغیرہ کی ہر قسم کی نجاست سے پاک ہونا شرط عبادت ہے۔ یعنی ایسی طہارت کے بغیر عبادت ناقص اور ناقابل قبول ہے، طہارت باطنی کا زیاہ تعلق چونکہ دل سے ہے اس لئے ارشاد ہے کہ بے شک اللہ تعالٰی تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے صورتوں کو نہیں دیکھتا، یہ کہ خیالات کو فاسد عقائد سے پاک کیا جائے اور دل کو کفر و شرک ریا، بغض و کینہ اور حسد جیسی نجاستوں سے پاک کیا جائے اسلام نے دل کی طہارت کے ساتھ جسم اور لباس کی صفائی و پاکیزگی پر بہت زور دیا ہے اور ان دونوں کو پاک و صاف رکھنے کی تاکید فرمائی ہے حتٰی کہ جسم اور لباس کی صفائی کو داخل عبادت قرار دیا ہے
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

 

تربوز سے پیٹ کی گرمی کا علاج

تربوز سے پیٹ کی گرمی کا علاج
تربوز کا ہر حصہ مدربول ہے۔ پیٹ سے جلن اور سوزش کو رفع کرتا ہے۔ خون کی تیزی اور صفرا کو تسکین دیتا ہے۔ اس کا جوس پیاس کو بجھاتا ہے اور تپ محرقہ میں مفید ہے۔ اس میں غذائی عناصر کی مقدار اسے جسم کے لئے مقوی بلکہ وزن کو بڑھانے والا بنا دیتی ہے اور معدے میں غلاظت کو نکال کر پیٹ کو صاف کرتا ہے۔
تربوز کا استعمال پتھری میں مفید ہےتربوز پیشاب آور ہونے کی وجہ سے گردہ اور مثانہ کی پتھری کو نکالتا ہے، نیز سوزش بول اور سوازک میں بھی پلایا جاتا ہے۔ اس کے جوس میں کھانڈ اور زیرہ ملا کر گردہ و مثانہ کی پتھری اور پیشاب او پیشاب کی نالی کی سوزشوں میں مفید ہے۔تربوز معدہ اور آنتوں کے زخم مندمل کرتا ہےتربوز کھانے سے معدہ اور آنتوں کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں۔ اس میں بہی کی طرح Pectin کی موجودگی اسے اسہال اور پیچش میں بھی مفید بنا دیتی ہے۔ سندھ میں پایا جانے والا جنگلی تربوز کڑوا ہوتا ہے مگر وہ بھوک بڑھاتا ہے اور قبض میں مفید ہے۔ تربوز کے گودہ میں مواد لحمیہ، شحمیہ، معدنی مواد شکر و نشاستہ پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تربوز میں پکٹین کافی مقدار میں ہوتی ہے۔

تربوز کے بیج کے افعال

مذکورہ افعال کی طرح تخم تربوز کو لاغری، جسم، لاغری گردہ، جوش خون، زیادتی صفراء، شدت عطس، سوزش معدہ، نفث الدم، حمیات حارہ میں زیادہ تر شیرہ نکال کر ہلایا جاتا ہے۔ مرد، مرطب ہونے کے باعث پیوست دماغ اور سل دق میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مدر بول ہونے کے باعث سوزش بول، سوازک اور عسر البول جو کہ گرمی خشکی کی وجہ سے ہو میں استعمال کیا جاتا ہے

تربوز

تربوز
تربوز دنیا کے اکثر گرم ملکوں میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ مشرق وسطٰی کے ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ ہندو پاکستان میں بھی عام ملتا ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا کا تربوز اپنی سرخی اور حلاوت میں مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ رتیلے علاقوں کا تربوز اپنی سرخی اور حلاوت میں مشہور ہے۔ تربوز کی عمدگی اس کے گودے کی سرخی اور مٹھاس پر قرار دی جاتی ہے۔ ملاوٹ کے اس دور میں دیکھا گیا ہے کہ پھل فروش سرخ رنگ میں سکرین ملا کر تربوزوں میں انجکشن لگا کر ان کو مصنوعی طور پر سرخ اور میٹھا کر لیتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ افریقہ کا پھل ہے جو سیاحوں کی بدولت دنیا بھر میں مقبول ہو گیا۔ آج کل پاکستان میں چین کے درآمدی بیج سے چھوٹے حجم کے ایسے تربوز کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں جو لذیذ بھی ہیں۔ پھل وزنی ہونے کی وجہ سے اس کا پودا زمین پر رینگنے والا ہے۔ بیج بونے سے چار ماہ میں پھل پک کر تیار ہو جاتا ہے۔ پکے ہوئے پھل کی پہچان میں کہا جاتا ہے کہ اگر اس پر ہاتھ ماریں تو جواب میں مدھم آواز عمدگی کی علامت ہے۔
محدثین کی اکثریت تربوز کے بارے میں صرف ایک حدیث کو ثقہ قرار دیتی ہے۔
حضرت سہیل بن سعد سے روایت ہے کہ تاجدار مدینہ تازہ پکی ہوئی کھجوروں کے ساتھ تربوز کھایا کرتے تھے۔
اس حدیث کے الفاظ میں سنن ابی داؤد میں یہ اضافہ ملتا ہے۔
اور فرمایا کہ اس کی گرمی اس کی ٹھنڈک مار دیتی ہے اور اس کی ٹھنڈک کو اس کی گرمی مار دیتی ہے۔ مذید فرمایا کہ تربوز کھانا بھی ہے اور مشروب بھی یہ مثانہ کو دھو کر صاف کر دیتا ہے اور باہ میں اضافہ اور چہرے کو نکھارتا ہے۔ (ذہبی، مسند فردوس)
اکثر محدثین نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم کو پھلوں میں انگور اور تربوز بہت پسند تھے اور وہ انہیں شوق سے کھاتے ہیں

احادیث میں گوشت کی اہمیت

احادیث میں گوشت کی اہمیت
حضرت ابو الدرداء روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” نے فرمایا۔ “دنیا اور جنت کے رہنے والوں کے کھانے کا سردار گوشت ہے۔“ (ابن ماجہ شریف)حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” کی خدمت میں گوشت آیا۔ وہ دستی کا تھا کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم” کو پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم” اس میں سے دانتوں کے نوچ کر تناول فرما رہے تھے۔
(ابن ماجہ۔ ترمذی شریف)گوشت کے بارے میں رسول اللہ کے ارشاادات گرامی کا خلاصہ کریں تو ان کو بکرے کا گوشت اور پائے پسند تھے۔ اس میں سے بھی وہ دستی اور شانہ زیادہ پسند کرتے تھے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں پر ریشے موٹے نہیں ہوتے اور گوشت جلد گلتا اور ملائم ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کی پسند پشت کا گوشت تھا جس کا ریشہ ان سے کم موٹا مگر اس میں خون پیدا کرنے والے اجزاء ملتے ہیں۔ انہوں نے شکار کے جانور اور پرندے زیادہ پسند فرمائے کیونکہ قرآن مجید نے پرندوں کے گوشت کو بہترین گوشت قرار دیا ہے۔ آج کل بھی پرندوں کے گوشت کو سفید گوشت کے نام سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مرغ شوق سے کھایا لیکن گائے کے گوشت کو بیماریوں کا باعث قرار دیا ہے۔

 

Read More