Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

کھیرا ۔ قتاء

کھیرا ۔ قتاء
جو مشہور پھل ہے وہ ایک بالشت یا اس سے کم و بیش لمبا ہوتا ہے اور اس کو ککڑی کے مانند تراش کر کھایا جاتا ہے۔ اطباء ہند کھیرے اور ککڑی کو خیارین کہتے ہیں۔ لغت کی بعض کتابوں میں قتاء سے مراد ککڑی لی گئی جبکہ عرب میں قتاء کا نام کھیرے کے طور پر استعمال ہوتا دیکھا گیا۔احادیث میں کھیرا کا ذکرحضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ وہ کھجوروں کے ساتھ کھیرے کھا رہے تھے۔ (بخاری۔ مسلم۔ ابن ماجہ۔ ترمذی)

تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو کھوجر کے ساتھ کھیرا کھاتے دیکھنے کا مشاہدہ صحابی نے بیان کیا۔ اب اس مرکب کا فائدہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی زبان مبارک سے جا سنئے۔ “میری والدہ چاہتی تھیں کہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤں تو موٹی ہو کر جاؤں۔ (کیونکہ عرب موٹی عورتوں کو پسند کرتے تھے۔) اس غرض کے لئے متعدد دوائیں دی گئیں مگر فائدہ نہ ہوا پھر میں نے گھیرا اور کھجور کھائے اور خوب موٹی ہو گئی۔“ (بخاری ۔ مسلم۔ ابن ماجہ۔ نسائی)

کھیرا اور پیٹ کی سوزش

کھیرا کھانے سے معدہ اور آنتوں کی سوزش ختم ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اسے آتش حدت کو بجھانے والا قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثانہ کی سوزش اور جلن اور پیشاب کی جلن کو دور کرتا ہے۔ پیشاب آور ہے۔ گرمی کے دستوں کو فائدہ دیتا ہے۔

صفراوی امراض اور یرقان میں نافع

کھیرے کا ایک پاؤ پانی نکال کر اس میں تین تولہ مصری ملا کر پینے سے معدہ اور آنتوں کے تمام صفراوی مادے نکل جاتے ہیں۔ یرقان کو نفع دیتا ہے اور حیض اور پیشاب لاتا ہے۔ کھیرے کے بیج پیشاب آور ہونے کے ساتھ نالی کی جلن کو دور کرتے ہیں۔ ورم جگر اور تلی تحلیل کرتے ہیں۔ کھیرا، ککڑی، خربوزہ اور کدو کے بیج میں سے ہر ایک کو اونس بھر لے کر ان کے ساتھ تخم کانسی دو اونس کھانڈ 10 اونس اور پانی ایک پونڈ ملا کر خوب پکائیں۔ پھر چھان کر ان کا قوام بنائیں اور سرکہ شامل کرکے شربت بنالیں۔ اس شربت میں ایک گھونٹ پانی ملا کر دن میں تین چار مرتبہ پیشاب کی جلن اور گرم بخاروں میں مفید ہے۔ اکثر اطباء کا خیال ہے کہ اس میں ٹھنڈک کی زیادتی بعض جسموں کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اس کو متعدل بنانے کیلئے کوئی گرم چیز دینی مناسب رہتی ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ کھجور کھاتے تھے۔ اگر کھجور میسر نہ ہو تو اصلاح کے لئے منفی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بعض محدثین کھیرے کو شہد کے ساتھ کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کھیرا امراض کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔

پتھری اور اعصابی کمزوری کا علاج

کھیرا میں ایک جوہر Pepsin پایا جاتا ہے جو غذا کو ہضم کرتا ہے اور پیشاب آور ہے۔ پھل میں حیاتین ب اور ج کی قسم پائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے اعصابی کمزوری میں مفید ہے اور امراض کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لحمیات کو ہضم کرنے والا جوہر از قسم Oxidase Succinic and Malic پائے جاتے ہیں جو جسم کے اندر متعدد عوامل کے فعل کو کار آمد ہیں۔

کھیرے کے رس کو زیتون کے تل میں ملا کر اتنا پکائیں کہ صرف تین رہ جائے۔ یہ تیل مثانہ کی پتھری نکالنے کے لئے پلایا جاتا ہے اور اعصابی کمزوری میں اس کی مالش مفید بتائی جاتی ہے۔

 

Read More

چغلی اور حسد سے دل کے امراض

چغلی اور حسد سے دل کے امراض
جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ گناہ کرنے سے پریشانی، تذبذب اور نفسیاتی امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔ دراصل گناہ سے خون میں ہسٹامین کی زیادتی ہو جاتی ہے جن سے برین سیل بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور انسان بے شمار مہلک امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بعض گناہوں کی نحوست کے اثرات ذہنی بیماریوں کی شکل میں سامنے آتے ہیں اور بعض کے جسمانی بیماریوں کی صورت میں اور بعض گناہوں کی نحوست سے جسم میں درد، تھکان اور بے چینی محسوس ہوتی ہے۔ جسم کے عضلات کھینچے جاتے ہیں۔ دماغ بوجھل بوجھل اور ہاتھ پاؤں میں کمزوری آ جاتی ہے۔ گناہوں کی وجہ سے خوف، گھبراہٹ، مایوسی، چڑچڑاپن اور وحشت ناک خواب وغیرہ آنے لگتے ہیں۔ ہاضمہ خراب اور نیند کم آتی ہے۔ پڑھنے لکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ نیز اعصابی اور جنسی کمزوری آ گھیرتی ہے۔ پھر ڈاکٹروں اور حکیموں کے چکروں میں پھنس کر جیب کا صفایا بھی ہو جاتا ہے۔
چغلی اور حسد کرنے سے دل کی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے۔ دل کی کمزوری جسم کے دوسرے اعضاء پر اثر انداز ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گناہ سے انسان میں حوصلہ اور ہمت کم ہو جاتی ہے۔ ناامیدی اور بزدلی آ جاتی ہے۔ لیکن گناہ سے بچنے والے نیک لوگوں کا دل مضبوط ہوتا ہے اس میں بے پناہ ہمت اور حوصلہ ہوتا ہے ان کے عزم پتھر کی چٹانوں کی طرح ہوتے ہیں لیکن ان میں قوت ایمانی اور گناہوں سے بچنے کے سبب اتنی دلیری اور حوصلہ تھا کہ انہوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کے تختے الٹ دئیے۔ بڑے بڑے جابر حاکموں کے سامنے کلمہ حق سنایا۔ ان کی کامیابی کا راز صرف یہی تھا کہ یہ لوگ گناہوں سے بچے اور اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی زندگی بسر کی۔

وضو سے متعدد امراض کا علاج

وضو سے متعدد امراض کا علاج
وضو کا مطلب صرف جسمانی پاکیزگی نہیں بلکہ روحانی پاکیزگی بھی ہے ہمارے شعبہ روحانیت نے مشاہدہ کیا ہے کہ جن خواتین و حضرات نے باوضو رہنے کی پابندی کی ہے وہ ذہنی پراگندگی سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔اس سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ جسم کی صفائی اور پاکیزگی ذہن کو بھی پاک اور صاف رکھ سکتی ہے۔ وضو ایک ایسا عمل ہے جو کسی بھی مذہب میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے ذریعے سے بدن کے وہ حصے صاف ہوتے ہیں یا یوں کہیے کہ وضو محافظ ہے ان راستوں کا جن کے ذریعے صحت کا دشمن بدن میں داخل ہوتا ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق بہت سی بیماریوں کا سبب جراثیم ہیں یہ جراثیم ہمیں چاروں اطراف سے گھیرے ہوئے ہیں ہوا زمین الغرض استعمال کی ہر چیز پر یہ مسلط ہیں۔ جسم انسانی کی حیثیت ایک قلعہ کی مانند ہے کوئی دشمن اس میں داخل نہیں ہو سکتا سوائے زخموں یا سوراخوں کے۔ منہ اور ناک کے سوراخ ہر وقت جراثیم کی زد میں ہیں اور ہمارے ہاتھ ان جراثیم کو اندر لے جانے میں مدد کرتے ہیں وضو کی بدولت ہم نہ صرف ان سوراخوں کو بلکہ اپنے جسم کے ہر حصے کو جو کپڑے سے ڈھکا ہوا نہیں ہے اور آسانی سے ان جراثیم کی آماجگاہ بن سکتا ہے، دن میں کئی بار دھوتے ہیں اس طرح وضو بہت سے امراض سے بچاؤ کی عمدہ تدبیر ہے۔ قدرت کا یہ عجیب سر بستہ راز ہے کہ انسان کے اندر بجلی پیدا ہوتی رہتی ہے اور پورے جسم میں دورہ کر کرے پیروں کے ذریعہ ارتھ ہو جاتی ہے۔تو جب بندہ وضو کرتا ہے تو روشنیوں کا بہاؤ عام راستہ سے ہٹ کر اپنی راہ تبدیل کر لیتا ہے وضو کے ساتھ ہمارے اعضاء سے برقی روئیں نکلنے لگتی ہیں اور اس عمل سے جسمانی اعضاء کو ایک نئی طاقت اورق وت حاصل ہوتی ہے۔

آپ کو یہ معلوم کرکے حیرت ہو گی کہ ایک خاص وقت کا وضو اندرون جسم کے ایک خاص عضو پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر ظہر کے وقت کے وضو کا اثر خاص طور پر قلب و دماغ پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی طرح وضو کا اثر اندرونی اعضاء پر بھی ہونے سے جسم کا اکثر اندرونی بیماریوں پر اعصاب کا کنٹرول مضبوط ہوتا رہتا ہے جس کی وجہ سے عضلات بدن میں چستی اور طاقت قائم رہتی ہے جس کو حیاتیاتی توازن کہا جاتا ہے

 

Read More

چہرے کی چھائیاں وغیرہ کا علاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

چہرے کی چھائیاں وغیرہ کا علاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے اس وقت چہرے پر ایلوا لگا رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ ام سلمہ یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ ایلوا ہے۔ اس میں خوشبو نہیں ہے۔ اس پر تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ یہ چہرے کو صاف اور خوبصورت بناتا ہے۔ اس لئے اگر لگانا ہو تو رات کو لگایا کرو اور دن میں لگانے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ خوشبو اور مہندی سے بال نہ سنوارو۔ میں نے عرض کیا کہ کنگھا کرنے کے لئے کیا چیز سر پر لگاؤں ؟ ارشاد فرمایا کہ بیری کے پتے سر پر تھوپ لیا کرو۔ (ابو داؤد۔ نسائی)
علماء طب کے نزدیک بیری کے پتوں سے سر دھونے سے بال لمبے، ملائم اور خوشنما ہو جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں چہرے کے داغ، دھبے، کیل، چھائیاں دور کرنے کے لئے بڑے بڑے لوشن استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر ان تمام لوشنوں کی بجائے صرف ایلوا استعمال کیا جائے تو خاطر خواہ فائدہ ہوتا ہے

جسم میں بیماری پیدا ہونے کی چار وجوہات

جسم میں بیماری پیدا ہونے کی چار وجوہات

 بدنگاہی کرنا

زیادہ گفتگو یعنی بے مقصد باتیں کرنا
  زیادہ کھانا زیادہ سونابدنگاہی کرناجدید سائنسی تحقیق کے مطابق نگاہیں جس جگہ جمتی ہیں پھر ان کا اچھا اور بُرا اثر اعصاب، دماغ اور ہارمونز پر پڑتا ہے

شہوت کی نگاہ سے دیکھنے سے ہارمونری سسٹم کے اندر خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ان نگاہوں کا اثر زہریلی رطوبت کا باعث بن جاتا ہے اور ہارمونز گلینڈز ایسی تیز اور خلاف جسم زہریلی رطوبتیں خارج کرتے ہیں جس سے تمام جسم درہم برہم ہو
جاتا ہے اور آدمی بے شمار امراض و علل میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
بہر حال نگاہوں کی حفاظت نہ کرنے سے آدمی ڈپریشن، بے چینی اور مایوسی کا شکار ہوتا ہے جس کا علاج ناممکن ہے کیونکہ نگاہیں انسان کے خیالات اور جذبات کو منتشر کرتی ہیں ایسی خطرناک پوزیشن سے بچنے کے لئے صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کا سہارا لینا پڑے گا۔ یعنی چلتے پھرتے اپنی نگاہوں کو نیچا رکھنے کی عادت بنائیں اور دل میں اللہ عزوجل کا خوف پیدا کریں کہ اللہ عزوجل مجھے دیکھ رہا ہے جس قدر اللہ عزوجل کا خوف زیادہ ہوگا اتنا ہی حرام چیزوں سے بچنا آسان ہوگا۔

یاد رکھئے ! اگر اجنبی یا نامحرم عورت پر اچانک نظر پڑ جائے تو دوبارہ دیکھنا گناہ ہے قیامت کے روز ایسی آنکھ میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا حرام اشیاء کو دیکھنا ہے۔ (بخاری۔ مسلم)

تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا “اللہ عزوجل دیکھنے اور دکھانے والی دونوں پر لعنت فرمائے۔“ (بیہقی)

2زیادہ باتیں کرنا

حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؛۔
جب تم اپنے دل میں قساوت (سنگ دلی) بدن میں سستی اور رزق میں تنگی محسوس کرو تو سمجھ لو کہ تم سے کہیں فضول کلمے نکل گئے ہیں جس کا یہ نتیجہ ہے۔
بدن میں سستی اور دل کی سختی سے بیسیوں روحانی اور جسمانی امراض جنم لیتے ہیں۔

3زیادہ کھانا

یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ زیادہ کھانا متعدد امراض کا سبب بنتا ہے اور معدہ کی خرابی بہت سے امراض کی جڑ ہے۔ جن میں سے زیادہ خطرناک شوگر، بلڈ پریشر، فالج اور موٹاپا ہیں۔ کم کھانے سے طبیعت ہلکی پھلکی اور دماغ روشن رہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بوجھل پیٹ کے ساتھ کوئی شخص اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ ترقی کی راہ گامزن نہیں ہو سکتا۔ جب کہ اصول یہ ہے کہ تھوڑی سی بھوک رکھ کر دسترخوان سے ہاتھ کھینچ لینا چاہئیے۔

سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کھانے پینے کی کثرت کرکے دلوں کو نہ مارو، کیونکہ اس سے دل مُردہ ہو جاتا ہے۔ جیسے پانی کی کثرت کے باعث کھیتی مر جاتی ہے۔ تباہ ہو جاتی ہے۔ (مکاشفۃ القلوب)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کی ڈکار سنی تو ارشاد فرمایا:۔
“اپنی ڈکار کم کر کیونکہ قیامت کے روز سب سے زیادہ بھوکا وہ ہوگا جو دنیا میں زیادہ پیٹ بھرتا ہے۔“ (ترمذی)
مذید فرمایا “آدمی نے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرا، ابن آدم کو چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا کر دیں اگر زیادہ کھانے کی ضرورت ہو تو تہائی پیٹ کھانے کیلئے ارو تہائی پانی کیلئے اور تہائی سانس کیلئے رکھے۔“ (ترمذی و ابن ماجہ)

یہ حدیث خوراک کی متوازن مقدار کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ معدہ میں غذا پانی اور رطوبتوں کے عمل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بنتی ہے اور یہ معدہ کے اوپر والے حصہ میں آ جاتی ہے اگر معدہ کے اس حصے کو بھی خوراک سے بھر دیا جائے تو گیس کیلئے جگہ نہ ہوگی۔ یہ عمل معدہ کی بہت سی بیماریوں کا باعث اور سانس میں دشواری پیدا کرتا ہے۔

4زیادہ سونا
زیادہ سونا اعصاب اور دماغ کو کند کر دیتا ہے اور دوران خون کم و بیش نہ ہونے سے دل اور اعصاب کے کئی عوارض پیدا ہو جاتے ہیں۔ قبض اور ہاضمہ کی خرابی بڑھنی شروع ہو جاتی ہے خصوصاً کھانے کے فوراً بعد سو جانا معدہ اور آنتوں کی سنگین بیماریوں پیدا کرتا ہے۔

پرہیز اور احتیاط کے بارے میں احکامات

پرہیز اور احتیاط کے بارے میں احکامات
علاج حقیقت میں دو چیزوں پر عمل کرنے کا نام ہے۔ ایک پرہیز، دوسرے حفظان صحت۔ تیسرے جب کبھی صحت کے گڑ بڑ ہونے کا خطرہ ہو تو مناسب استفراغ سے کام لیا جائے۔ الغرض طب کا دار و مدار انہی تین قواعد پر ہے۔ پرہیز دو طرح کے ہوتے ہیں۔
ایسا پرہیز جس سے بیماری پاس نہ پھٹکے۔
  ایسا پرہیز جس سے مذید اضافہ بیماری نہ ہو بلکہ مرض جس حال میں ہے، کم از کم ایسی جگہ رہ جائے۔
پہلے پرہیز کا تعلق تندرستوں سے اور دوسرے کا مریضوں سے ہے۔ اس لئے کہ جب مریض پرہیز کرتا ہے تو اس کی بیماری بجائے بڑھنے کے رک جاتی ہے اور قوتوں کو اس کے دفاع کا موقع ملتا ہے۔ پرہیز کے سلسلے میں قرآن کی یہ آیت ہے۔ (مائدہ6)
“تم بیمار ہو یا سفر کر رہے ہو یا تم میں سے کوئی پاخانہ سے واپس ہو یا تم نے عورتوں سے جماع کیا ہو اور تم کو پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔“ یہاں مریض کو پانی سے پرہیز کی ہدایت ہے۔ اس لئے کہ مریض کو اس سے ضرر کا اندیشہ ہے۔ حدیث سے بھی پرہیز کی تائید ہوتی ہے۔
 چنانچہ ام المنذر بنت قیس انصاریہ کی یہ حدیث میں ہے۔ آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے جو بیماری کی وجہ سے کمزور و ناتواں تھے۔ ہمارے یہاں کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر اس کے کھانے میں مشغول ہو گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سے چن کر کھانے لگے۔ اس پر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا۔ “اے علی (رضی اللہ عنہ) ! تم بہت ناتواں ہو۔“ یہاں تک کہ حضرت علی نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ راویہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے جو اور چقندر کے آمیزش سے آش تیار کیا تھا۔ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اسے لو، یہ تمہارے لئے بہت نفع بخش ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مذکور ہے کہ اس میں لگ جاؤ کیونکہ یہ تمہارے لئے زیادہ مناسب ہے۔سنن ابن ماجہ میں بھی حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت مذکور ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے روٹی اور کھجور رکھی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ قریب آ جاؤ اور کھاؤ۔ میں نے ایک کھجور اٹھائی اور کھانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کھجور کھا رہے ہو جبکہ تم کو آشوب چشم ہے۔ میں نے عرض کیا، اے اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دوسرے جانب سے کھا رہا ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مسکرا پڑے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھجور کے خوشوں سے چن کر کھجور کھانے سے اس لئے منع فرمایا کہ آپ مرض سے اٹھے تھے، لٰہذا آپ کا روکنا اور پرہیز کرانا اعلٰی درجے کی تدبیر تھی، اس لئے کہ دوالی تازہ کھجور کے ان خوشوں کو کہتے ہیں جو گھروں میں کھانے کے لئے لٹکائے جاتے ہیں۔ جیسے انگور کے خوشے لٹکائے جاتے ہیں اور پھل ایسے کمزور شخص کے لئے جو مرض سے ابھی اٹھا ہو، سرعت استحال اور ضعف طبیعت کی وجہ سے مضر ہوتا ہے۔ اس لئے کہ نقاہت کی وجہ سے کسی غذا کا جواز جو قسم پھل ہو، جلد ہی استحالہ ہو جاتا ہے اور طبیعت ضعف کی وجہ سے اس کا دفاع نہیں کر پاتی۔ اس لئے کہ اسے ابھی پہلی جیسے قوت حاصل نہیں ہوئی۔ دوسرے ابھی وہ بیماری کے اثرات مٹانے میں اور بدن سے پوری طرح اس کا ازالہ کرنے میں مشغول ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ تازہ کھجور میں ایک قسم کی کثافت ہوتی ہے جو معدے پر گراں ہوتی ہے۔ اس لئے کھجور کھانے کے بعد معدہ اس کی درستی اور طبیعت، اس کی اصلاح میں لگ جاتی ہے جبکہ طبیعت کو ابھی مرض کے آثار مٹانے کا پورے طور پر موقع نہیں ملا ہے۔ ایسی صورت میں یہ باقی کام یا تو ادھورا رہ جاتا ہے یا اس میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن جونہی آش جوو چقندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے کا حکم فرمایا۔ اس لئے کہ یہ ناتواں و کمزور کے لئے بہترین غذا بھی ہے کیونکہ آش جو میں تبرید کے ساتھ غذائیت بھی ہوتی ہے اور لطیف و تلقین کی قوت بھی ہوتی ہے۔ طبیعت کو جو کمزور و ناتواں کے لئے بہت ضروری چیز ہے۔ خصوصاً جب ماء الشعرا اور چقندر کی جڑ کو پکار کر استعمال کیا جائے تو ضعف معدہ کے لئے نہایت عمدہ غذا ثابت ہوتی ہے اور اس سے ایسے اخلاط رونما ہوتے جس سے صحت کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو۔

زید بن اسلم نے بیان کیا کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک مرض کو پرہیز کرایا۔ یہاں تک کہ مریض پرہیز کی سختی کی وجہ سے کھجور کی گھٹلیاں چوستا تھا۔ کھانا اس کے لئے بالکل ممنوع تھا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ پرہیز بیماری سے پہلے سب سے بہتر اور کار گر نسخہ ہے جس سے آدمی بیمار کم ہی ہوتا ہے۔ اگر بیمار ہو جائے تو پرہیز سے یہ نفع ہوتا ہے کہ مرض میں زیادتی اور اس کے پھیلنے پر قدغن لگ جاتی ہے اور مرض بڑھنے نہیں پاتا۔

حارث بن کلدہ کا قول ہے کہ سب سے بڑا علاج پرہیز ہے۔ اطباء کے نزدیک پرہیز کا مطلب یہ ہے کہ تندرست کو ضرر سے بچانا ایسا ہی ہے جیسے مریض اور ناتواں و کمزور کے لئے مضر چیز کا استعمال کرانا۔ مرض کے سبب سے جو شخص کمزور و ناتواں ہو گیا ہو، اسے پرہیز سے بہت زیادہ نفع ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس کی طبیعت مرض کے بعد ابھی پوری طرح سنبھل نہیں پاتی اور قوت ہاضمہ بھی ابھی کمزور ہی ہوتی ہے۔ نیز طبیعت میں قبولیت و صلاحیت ہوتی ہے اور اعضاء ہر چیز لینے کے لئے مستعد رہتے ہیں۔ اس لئے مضر چیزیں استعمال کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ مرض کو دوبارہ دعوت دی جائے۔ یہ مرض کی ابتدائی صورت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

نیند نہ آنے کا علاج

نیند نہ آنے کا علاج
سونے سے پہلے وضو کرو۔ (بخاری) اور اس کے بعد پوری سورہ اخلاص اور سورہ فلق اور سورہ ناس کو پڑھ کر دونوں ہاتھ پر دم کریں اور تمام بدن پر پھیریں۔ (بخاری)
سونے سے پہلے یہ دعاء ضرور پڑھیں۔
اللھم باسمک اموت واحی۔ (بخاری و مسلم)
جس کو نیند نہ آتی ہو وہ کم از کم ایک پوری سورہ النساء کی تلاوت کرے اور پھر وجعلنا نومکم سباتا کو بار بار پڑھے انشاءاللہ عزوجل جلدی ہی نیند آ جائے گی۔

تمام قسم کے پھوڑے، پھنسی، مرہم کا نسخہ

تمام قسم کے پھوڑے، پھنسی، مرہم کا نسخہ
نسخہ الشفاء : کلونجی 50 گرام، روغن زیتون 50 گرام، شہد 200 گرام
کلونجی پیس کر باکل میدہ کر دیں اور پھر اس کو شہد اور زیتون میں ملا کر مرہم تیار کریں اور محفوظ رکھیں۔
فوائد : تمام قسم کے پھوڑے، پھنسی، داد، زخم چوٹ اور اعصابی کھچاؤ کیلئے مفید ہے۔ (دو وقت مرہم لگائیں۔)
یہ نسخہ جوڑوں کے دردوں کے مریضوں کیلئے آزمایا جا چکا ہے ایسے مریض ایک چمچ اسی مرہم کا کھائیں دن میں تین بار پانی یا نیم گرم دودھ کے ہمراہ مستقل۔فالج، لقوہ اور پرانے کمر، جوڑوں کے دردوں کیلئے لاجواب دوا ہے۔
ایسے مریض اسی مرہم کی مالش یا لیپ کرکے اور اوپر کپڑا یا پلاسٹک کا لفافہ باندھ لیں۔ نسخہ کی قدر کریں بہت لاجواب فارمولہ ہے۔ حتٰی کہ اسے معدے، گیس اور تبخیر کے مریضوں میں اکسیر پایا ہے۔

اعصابی دردوں کا علاج

اعصابی دردوں کا علاج
نسخہ الشفاء
:میتھرے کے بیج 10 گرام، کلونجی 10 گرام، اجوائن 10 گرام

تمام ادویات کو کوٹ چھان کر سفوف تیار کریں۔
  ایک چھوٹا چائے والا چمچ  دن میںدو  بار پانی کے ہمراہایک ماہ مستقل استعمال کریں انشاءاللہ عزوجل بدن کے بے شمار امراض میں حاکم بدن ہے۔
تمام اعصابی دردوں، کمزوری، ریح بادی کے امراض، گیس، تبخیر اور جوڑوں کے درد وغیرہ کیلئے اکسیر لاجواب ہے۔

کرب و بے چینی کا علاج

کرب و بے چینی کا علاج

بعض مرتبہ کسی طویل بیماری سے صحتیاب ہونے کے بعد یا ویسے ہی کبھی ظاہراً کوئی بیماری بھی نہیں ہوتی لیکن ایک بے چینی کی کیفیت اور اکتاہٹ سی ہوتی ہے۔اس مرض کے دفیعہ کے لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کرب و غم اور بے چینی کے وقت یہ دعاء پڑھ لیا کرو۔لآ اِلٰہَ اِلاَ اللہُ العَظِیمُ الحَلِیمُ لاَ اِلٰہَ اِلاَ اللہُ رَبُ العَرشِ الکَرِیم (مدارج النبوۃ)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے کرب و غم کو دور کرنے کے لئے یہ دعاء تعلیم فرمائی۔  اَللٰھُمَ رَحمَتِکَ اَرجُوا فَلاَ تَکِلنِی اِلٰی نَفسِی طَرفَتَ وَاَصلِح لِی شَافِی کُلہ لاَ اِلٰہَ اِلاَ اَنتَ (مدارج النبوۃ، سن سنن ابی داؤد)

جامع دعاء :   حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “بلا شبہ اور بالیقین میں ایسے کلمہ کو جانتا ہوں کہ اگر کوئی بھی مصیبت زدہ اسے پڑھے تو اللہ تعالٰی اسے اس مصیبت سے نجات عطا فرما دیتا ہے۔ وہ کلمہ میرے بھائی حضرت یونس علیہ السلام کا ہے جس سے انہوں نے تاریکیوں میں ندائی تھی۔
لاَ اِلٰہَ اِلاَ اَنتَ سُبحَانَکَ اِنِی کُنتُ مِنَ الظٰلِمِینَ ہ (مدارج النبوۃ)

ترمذی شریف میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پڑھنے والے کی دعاء کو اللہ تعالٰی شرف قبولیت بخشا ہے۔ (ترمذی شریف)