Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

انڈے دل کیلئے مفید ہیں

 ماہرین نے کہا ہے کہ دل کو صحت مند رکھنے کیلئے انڈوں کا استعمال برا نہیں ہے۔ انڈوں سے متعلق امریکی ماہر ڈاکٹر ڈون میکنمارا نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ طویل عرصے تک انڈے کو امراض قلب کے حوالے سے بدنام کیا جاتا رہا ہے لیکن اب حقائق سامنے آنے کے بعد امریکی ہارٹ فاؤنڈیشن نے بھی اپنی پابندی اٹھالی ہے اور کہا ہے کہ ہفتے میں چھ انڈے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ انڈوں میں Saturated Fat بہت قلیل مقدار میں ہوتی ہے جبکہ اس میں بعض صحت بخش اہم مرکبات بھی ہوتے ہیں جو غذا ہضم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں ۔ انڈے کھانے سے شکم مادر میں پرورش پانے والے بچے کے دماغ کی نشوونما بھی بہتر ہوتی ہے۔ انڈے میں ایک اور جزو Lutein بھی ہوتا ہے جو آنکھوں کے مختلف امراض سے بچاتا ہے، جن میں موتیا اور عمر میں اضافے کے باعث نظر کی کمزوری کا مرض شامل ہیں۔

زیادہ آلو کھانے سے ذیابیطس کامرض لاحق ہو سکتاہے

طبی ماہرین نے آلو اور آلو کے چپس کے زیادہ استعمال کو سخت خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آلو کھانے سے ذیابیطس کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ خواتین کو آلو کھانے سے ذیابیطس کا خطرہ زیادہ نوٹ کیا گیا ہے جبکہ مردوں میں نسبتاً کم ہاورڈ یونیورسٹی امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آلو صحت مند غذا ہے مگر اس کے بہت زیادہ استعمال سے معدے اور جگر کے افعال میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے جس سے ذیابیطس کے مرض کو پھیلنے کیلئے راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ آلو میں موجود گلوکوز لبلبے کے افعال کومتاثر کرنے لگتی ہے جس سے ذیابیطس کا مرض باقاعدہ ہو جاتا ہے۔ اس تحقیق میں ۵۸ہزار آلو کے شائقین مردوں اور خواتین کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ طبی ماہرین نے آلو کے چپس کو سب سے زیادہ خطر ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چپس کی شکل میں اس کے خطرات ۵۶فیصد تک چلے جاتے ہیں۔

بڑھا ہوا پیٹ اور امراض قلب

بڑھا ہوا پیٹ اور امراض قلب
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ذرا سے بڑھے ہوئے پیٹ سے دل کے امراض کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف ٹیکساس کی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ کولہوں کے تناسب سے پیٹ کا سائز زیادہ ہونے اور امراض قلب کی ابتدائی علامات کے درمیان تعلق ہوتا ہے۔
دو ہزار سات سو چوالیس افراد پر کی جانے والی اس تحقیق سے لگتا ہے کہ ایک عورت کے لیے کمر کا ناپ بتیس انچ (اکاسی سینٹی میٹر) اور مرد کے لیے سینتیس انچ (چورانوے سینٹی میٹر) ہونے کا مطلب ہے کہ انہیں دل کا عارضہ لاحق ہونے کے امکانات ’واضح‘ طور پر زیادہ ہو جاتے ہیں۔امیرکن کالج آف کارڈیالوجی کے جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں سائسندانوں نے ان خواتین و حضرات کا جائزہ لیا جن میں ایتھرو سیکلوراسس (atherosclerosis) یا خون کی شریانیں تنگ اور سخت ہو جانے کی علامات ظاہر ہو چکی تھیں۔

اس کے بعد محققین نے شریانوں کی حالت اور مذکورہ مرد یا عورت کی جسمانی ساخت کے درمیان تعلق کا مطالعہ کیا۔

جن افراد میں کولہے اور کمر کے سائز کا تناسب سب سے زیادہ تھا ان میں کیلشیم جمع ہونے کے امکانات ان افراد سے دگنا تھے جن میں کولہے اورکمر کے سائز کا تناسب سب سے کم تھا۔

اس مشاہدہ کو جب بلڈ پریشرڑ شوگر اور مذکورہ عورت یا مرد کی عمر جیسے عناصر کی روشنی میں دیکھا گیا تو پیٹ کے سائز اور امراض قلب کے درمیان تعلق اور زیادہ مضبوط دکھائی دیا۔

تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر جیمز ڈی لیموز نے کہا کہ ’ آپ کی کمر کے گرد جمع ہونے والی فیٹ یا چکنائی کولہوں پر جمع ہونے والے چکنائی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ پیٹ کی چکنائی سے رطوبتیں خارج ہوتی رہتی ہیں جو کے شریانوں کو تنگ اور سخت کرتی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا:’ ہمارے خیال میں اس تحقیق سے لوگوں کو یہی پیغام ملنا چاہیے کہ کہ وہ کمر کے گرد چکنائی جمع ہونے کے بارے میں اوائل عمری سے ہی محتاط رہیں کیونکہ ایک ہموار پیٹ کے مقابلے میں ذرا سا بڑھا ہوا پیٹ بھی ہمیں امراض قلب کے خطرات سے دوچار کر دیتا ہے۔‘

ماضی میں کی جانی والی تحقیق میں کہا جاتا رہا ہے کہ عورتوں میں پینتیس انچ جبکہ مردوں میں چالیس انچ کی کمر سے اس قسم کے امراض پیدا ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں لیکن حالیہ تحقیق کے مطابق عورتوں کے لیے بتیس انچ اور مردوں کے لیے سینتیس انچ کی کمر بھی خطرناک ہو سکتی ہے۔

جسمانی بیماریوں کے علاج

منہ میں چھالے

ایک مریض کا خط میری عمر اٹھارہ برس ہے ہر وقت منہ میں چھالوں کی شکایت رہتی ہے  شکایت تین سال سے ہے۔ ہر وقت دو تین چھالے رہتے ہیں، بہت علاج کرائے لیکن آرام نہیں آیا آپ کوئی مشورہ دیں

علاج : تخم کاسنی، تخم خرفہ، تخم خیار، دھنیا خشک، دانہ سبز الائچی، ہردوا دس دس گرام لے کر سب کا سفوف بنائیں  ایک ایک چمچی صبح و رات کو پانی سے کھائیں۔ زیادہ گرم غذائیں نہ کھائیں

گھبراہٹ

مریض کا خط میری عمر بتیس برس ہے گذشتہ دو سال سے مجھے گھبراہٹ بہت رہتی ہے دل بہت تیز چلتا ہے سارے جسم میں جلن محسوس ہوتی ہے

علاج : جوارش شاہی یا جوارش فواکہ یا خمیرہ مروارید نصف نصف چمچ صبح رات کو کھائیں  ہمراہ عرق گاﺅ زبان نصف نصف کپ پئیں زیادہ نمک یا مرچ نہ کھائیں

قبض

مریض کا خط حکیم صاحب میں ایک مدت سے قبض کی تکلیف میں مبتلا ہوں رفع حاجت کے وقت دیر تک بیٹھنا پڑتا ہے اور پاخانہ خشک خارج ہوتا ہے‘ بعض اوقات قبض کی وجہ سے ہوا پید اہو کر پیٹ پھول جاتا ہے‘ طبیعت سست رہتی ہے اور سر میں بھی درد ہونے لگتا ہے اور کبھی دل بھی تیز دھڑکنے لگتا ہے اور طبیعت میں بے چینی کی وجہ سے نیند بھی خراب ہو جاتی ہے براہ مہربانی مجھے اس تکلیف سے نجات حاصل کرنے کیلئے کوئی اچھا سا نسخہ تجویز کر دیں شکریہ

علاج : قبض کی تکلیف بڑی آنت کی قوت دافعہ ( باہر نکالنے کی قوت) میں کمزوری یا افعال میں خرابی کی بناءپر ہوتی ہے غذا کی خرابی خشک اشیاءکا استعمال ، بادی اور ثقیل غذاﺅں کا بکثرت استعمال، اعصابی کمزوری‘ عام جسمانی کمزوری‘ صفراءکا آنتوں پر نہ گرنا، بواسیر ، معدہ و جگر کے امراض‘ فالج اور موٹاپا اس کے اسباب میں سے ہیں،  ہماری دوا ڈائجس گارڈ استعمال کریں انشاءاللہ اس تکلیف دہ پریشانی سے نجات حاصل ہو گی اور جلد افاقہ ہو گا غذا میں بکری اور پرندوں کے گوشت کی ےخنی، کدو، ٹینڈے، پالک، پھلوں میں انگور ، سیب ، آڑو، ناشپاتی، انجیر، سنگترے، کشمش اور خربوزہ استعمال کریں، صبح نہار منہ ایک گلاس تازہ پانی پئیں،

پرہیز : آلو، گوبھی، بینگن، اروی، چنے کی دال، ماش کی دال، مٹر، لوبیا، گوشت، انڈے ، مچھلی اور مغزیات کا استعمال نہ کریں، میدے کی روٹی، چاول، مٹھائی، سری پائے، کلیجی اور پیسٹری وغیرہ بھی مضر ہیں

ورم و زخم معدہ

مریض کا خط حکیم صاحب میری عمر 33 برس ہے تقریباً ایک ڈیڑھ ماہ سے میرے معدہ میں درد ہوتا ہے دبانے سے بھی درد ہوتا ہے۔ میرے منہ سے ترش پانی بہتا رہتا ہے۔ کھٹے ڈکار آتے ہیں‘ تھوک زیادہ آتی ہے اور بھوک بھی نہیں لگتی۔ طبیعت میں گرانی اور بے چینی رہتی ہے۔ جی متلاتا ہے اور سر میں درد بھی رہتا ہے حکیم صاحب مہربانی فرما کر کوئی اچھا سا نسخہ تجویز کر دیں شکریہ

علاج : آپ نے جو علامات لکھی ہیں ان کے مطابق آپ کے معدہ میں ورم یا زخم ہے جو کہ غذا کی خرابی سے ہوتا ہے‘ زیادہ کھانے‘ خراب‘ دیر ہضم‘ باسی اور فاسد غذا کے کھانے ‘ نیز زیادہ مصالحہ دار غذا‘ کچے یا گلے سڑے میوہ جات اور خراب قسم کی مچھلی کھانے سے ورم معدہ یا زخم جیسی علامات پیدا ہو جاتی ہیں‘ آپ پریشان نہ ہوں ۔ ماہنامہ عبقری کا نسخہ ہلدی ثالم‘ آملہ‘ پودینہ‘ ہموزن لیکر کوٹ پیس لیں ½ چمچہ دن میں 3بار استعمال کریں
درد کے مقام پر قومی دھارا لگائیں

نسخہ امرت دھارا : ست پودینہ، ست اجوائن ، کافور

طریقہ استعمال : تینوں ہموزن لے کر کھرل میں پیس لیں اور شیشے کی بوتل میں ڈال کر دھوپ میں رکھ دیں تھوڑی دیر میں پگھل کر مائع کی حالت میں دوا تیار ہو جائے گی

غذا: آپ کیلئے بہتر یہ ہے کہ چند دن ہلکی غذا کھائیں شروع میں جو کا پانی‘ چوزہ مرغ کا شوربہ اور بکری کا شوربہ بغیر مرچ اور مصالحہ کے کھائیں‘ کھچڑی یا دودھ ڈبل روٹی کھائیں اور زیادہ چلنے پھرنے سے گریز کریں


دماغی کمزوری

مریض کا خط حکیم صاحب میری عمر 30 سال ہے سر چکراتا اور ہلکا درد رہتا ہے ‘ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے‘ کانوںمیں باجے کی آواز سنائی دیتی ہے‘ نزلہ‘ زکام بھی رہتا ہے‘ طبیعت سست اور پریشان رہتی ہے۔ بعض اوقات پٹھے کھچ جاتے ہیں اور یادداشت بھی کمزور ہو گئی ہے براہ مہربانی کوئی اچھا نسخہ تجویز کریں

علاج : آپ کو دماغی کمزوری ہے، جو شریانوں میں سدہ پڑنے یا عام جسمانی کمزوری سے ہو جاتی ہے  غذا کے فوراً بعد لکھنے پڑھنے یا جماع میں مشغول ہو جانے ‘جلق‘ جریان اور احتلام کی کثرت‘ آرام کی کمی، زیادہ دماغی محنت ، دائمی قبض، غذائی نقص یا کمی نیز دائمی نزلہ سے بھی یہ عارضہ لاحق ہو جاتا ہے، مغز بادام 250گرام‘سونف 250گرام‘ مصری 250گرام، اسطخدوس 20گرام، مرچ سفید 20 سفید، کوٹ چھان لیں ایک چمچ چاول والا صبح و شام ہمراہ تازہ پانی پئیں۔ پرہیز: قابض اور بادی اشیاء بینگن‘ مسور کی دال، آلو‘ اروی، گوبھی، باقلا، لہسن، پیاز، زیادہ چائے اور تمباکو نوشی سے پرہیز کریں، زود ہضم اور مقوی غذائیں استعمال کریں،  یخنی، شوربہ،  چپاتی، انڈا، دودھ، مکھن، حیوانات کے مغز، تازہ پھل، سبزیاں، سیب ، امرود اور انگور وغیرہ استعمال کریں

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

اولاد انسان کیلئے قدرت کا ایک عظیم عطیہ ہے

نسان کو رب کریم نے احسن تقویم میں خلق کیا۔ انسان ہر مخلوق سے افضل ترین ہے۔ اولاد انسان کیلئے قدرت کا ایک عظیم عطیہ ہے اور اس عظیم عطیہ اور انعام کیلئے ماں کا دودھ ایک انمول اور بے مثل تحفہ ہے۔ ایک نوزائیدہ بچے کیلئے ماں کے دودھ سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں ہے اوراس نعمت کی فراوانی کا انتظام رب کریم اس کی پیدائش سے پہلے ہی کر لیتا ہے۔
جدید ترقی یافتہ دور میں نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ نہ پلانے کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے اس کی بجائے بچوں کو مختلف اقسام کے غذائی فارمولے اور ڈبے کا دودھ پلانے کے رحجان میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ ان غذائی فارمولوں اور خشک دودھ کے ڈبوں کی تشہیر ہوئی ہے کہ ہر ماں کی خواہش کہ اس کا بچہ یہ فارمولے اور دودھ استعمال کرے مگر ماں کے دودھ کو چھوڑ کر خشک دودھ اور غذائی فارمولے استعمال کرنے کے اس قدر نقصانات سامنے آئے ہیں کہ پوری دنیا میں ماں کا دودھ ہلانے کا ایک دن منایا جاتا ہے تاکہ ماں کو مصنوئی دودھ کے نقصانات اور اپنے دودھ کے فوائد سے آگہی ہو سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ پلانے سے ان بچوں کے ابتدائی مسائل صحت ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر نوزائیدہ بچوں کو پیدا ہونے سے پہلے گھنٹے کے اندر اندر ماں کا دودھ پلانا شروع کر دیا جائے تو دنیا بھر میں ہر سال دس لاکھ بچوں کو موت کے منہ سے بچایا جا سکتا ہے۔ پہلے دہ تین گھنٹوں کا ماں دودھ نوزائیدہ بچے کیلئے صحت کا ایک انمول خزانہ ہے۔ اس میں ضروری غذائی اجزاء اور بیماریوں سے تحفظ کیلئے مدافعاتی مادے موجود ہوتے ہیں۔ جو بچے اس خزانے سے محروم رہ جاتے ہیں وہ ساری عمر اس کمی کو پورا نہیں کر سکتے۔
دوملینیم ترقیاتی اہداف یعنی بھوک وافلاس سے نجات اور بچوں کی اموات پر قابو پانا ماں کے دودھ کے استعمال سے بچے کی افزائش کی رفتار بڑھتی ہے۔ بچہ متعدی سانس اور اسہال کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شیر خوار اور پانچ سال تک کے بچوں میں شرح اموات کم ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں زندہ پیدا ہونے والے ہزار بچوں میں سے 57 بچے پیدائش کے پہلے مہینے میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اگر پیدائش کے بعد پہلے گھنٹے سے یہ ماں کا دودھ پلانا شروع کر دیا جائے تو ان میں سے12بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
ضروری ہے کہ وزارت صحت اور دیگر متعلقہ ادارے پیدائش کے بعد پہلے گھنٹے سے ماں کا دودھ کی حوصلہ افزائی کریں اور اس بیماریوں کے خلاف بچاؤ کیلئے کلیدی علامت کے طور پر متعارف کروائیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ طفل دوست ہسپتالوں کے قیام کیلئے ضروری اقدامات کی حاصلہ افزائی کی جائے، صحت کی خدمات و سہولیات فراہم کرنے والے عملے، پالیسی سازوں، خاندانوں اور معاشرے کے تمام طبقات کا تعاون اور شعوری کوششیں ہی ماں کے دودھ کے استعمال کے رحجان کو تحفظ اور فروغ دے سکتی ہیں۔
٭۔۔ ماں کا دودھ شیر خوار بچے کی ضروریات کے مطابق غذائی اجزاء اور دوسرے مدافعاتی اجزاء سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ جراثیم سے پاک ہوتا ہے۔ انسانی جسم کے قدرتی درجہ حرارت سے کے مطابق ہوتا ہے۔ بچے کو بوقت ضرورت فوراً پلایا جا سکتا ہے اور اس کیلئے کسی قسم کی تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ماں کا دودھ ماں اور بچے کے تعلق کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرتا ہے۔ ماں اور بچے میں محبت زیادہ ہوتی ہے۔ ماں کا دووھ پینے والے بچے ابتدائی خطرناک بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔ رب کریم نے قرآن حکیم میں بھی ماؤں کو دو سال تک اپنا دودھ پلانے کا حکم دیا ہے۔ نوزائیدہ اور شیر خوار بچوں کو قدرت کے اس انمول اور بے مثل تحفے سے محروم رکھنا ایک اظلم ہے جس کی تلافی کبھی نہیں ہو سکتی۔

بانجھ پنSterility

استقرار حمل نر و مادہ دونوں کے تولیدی اعضاء کی سلامتی پر موقوف ہے۔ اس لئے علاج سے پہلے ان دونوں کے تولیدی اعضاء کی طبعی کار کردگی اور نقائص کی معلومات فراہم کرنا ضروری ہے اور طبیب کو ان اعضاء کے طبعی افعال(Normal function)سے واقفیت رکھنا ضروری ہے. اس لئے چاہیے کہ نظام تولید کی تشریح اور منافع سے متعلق کتابوں کا کافی مطالعہ کرے تاکہ طبعی افعال(Normal function) کو غیرہ طبعی افعال (Abnormal function)سے امتیاز دے سکے. ہم مردانہ اور زنانہ امراض کو لکھنے سے پہلے انکے تولیدی اعضاء کی اجمالی تشریح و منافع کو ذکر کر چکے ہیں جو کہ افعال تولید (Reproductive function) میں خاص رول ادا کرتے ہیں، چاہے وہ بالخصوص تولیدی اعضاء ہوں یا اعضائے تولید کے لئے معاون و مددگار کی حیثیت رکھتے ہوں. لہذا اس مرض کے معالجہ سے پہلے تشریح و منافع کو پڑھیں تا کہ بیماری کے سبب کو پہچان سکیں۔
اسباب: مرد میں قضیب اور یوریتھرا (پیشابی نالی )کا پیدائشی یا اکتسابی نقص، ہائی پوتھائیرائیڈزم یا ذیابیطس شکری کی وجہ سے خصیوں کی ناقص فعلیت اور خصیوں کا ورم(Orchitits). اور عورتوں میں رحم کا نہ ہونا یا چھوٹا ہونا، بچہ دانی کا اپنی جگہ سے ٹل جانا، ویجائنا (اندام نہانی) کا تنگ ہونا، لیکوریا، کیمیائی ادویہ کا کثرت سے استعمال، سوزاک، آتشک، بچہ دانی میں رسولی، مبیض (Ovary) کا ورم، فیلوپین (قاذفین) نالیوں کا ورم یا ان میں رکاوٹ ہونا، ماہواری کی بے قاعدگی(Menstrual irregularity)، بچہ دانی پر چربی چڑھ جانا، ہارمون کی گڑبڑی جیسے ہائپر ایڈرینوکارٹی سزم (Hyperadinocorticism)، پولی سسٹک اورین ڈیسیز (Polysystic ovarian disease)یعنی کثیر التعداد کیسہ والی مبیض کی بیماری، ہائپر پرولیکٹی نیمیا (Hyperprolactinamia) اور کروسومی انحراف (Chromosomal aberration)جیسے کلائن فلٹر سنڈروم (Klien felter syndrome)یعنی ایسا شخص جس میں ٤٤ آٹوسوم اور ٣ جنسی کروموسوم، ایکس ایکس وائی کروموسوم ہوں. اس طرح کل ٤٧ کروموسوم ہوتے ہیں، جس میں ایک ایکس کروموسوم زائد ہوتا ہے. فرد نر دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے بڑے پستان، چھوٹا عضو تناسل، ناقص خصیہ ہوتے ہیں. یہ شخص بانجھ، تناسلی عورت اور عملی مرد ہوتا ہے. اس کے علاوہ دوسرے کروموسومی انحراف جیسے ٹرنرز سنڈروم وغیرہ، مادہ ٔمنویہ کے کرم کا نقص اور قلت خون. اس لئے علاج شروع کرنے سے پہلے بیماری کی اصل علت یا سبب کو جان لینا نہایت ضروری ہے۔
اگر عورت کی معمولی آزمائش سے کسی بیماری کا پتا نہ ملے تو مرد کو چاہیے کہ پانچ دن جنسی ارتباط قائم نہ کرے. اس کے بعد جماع کرے. جب منی خارج ہو تو اس کو چوڑے منہ کی شیشی میں ڈال کراور ڈھکن لگا کر پیتھولوجی لیبوریٹری میں اس کی جانچ کرائے کیوںکہ تولید مثل میں نر و مادہ دونوں برابر کے شریک ہیں اور دونوں کے تولیدی خلیات کے ملاپ سے ہی جنین (Zygot)تشکیل پاتا ہے۔
درحقیقت منی بعض غدد سے ریزش کرنے والا سیال ہے جو کرم منی (Spermatozoon) یا نر تولیدی خلیات (Male reproductive cells) پر مشتمل ہوتا ہے. کرم منی یا اسپرمس منی کی کل مقدار کا ٥ فیصدی حصہ ہوتے ہیںجو خصیتین (Testicles)میں پیدا ہوتے ہیں. منی کا لگ بھگ ٦٠ فیصدی حصہ کیسۂ منی (Seminal vesicles) سے آتا ہے. یہ گاڑھا ناقابل رد عمل یا تھوڑا الکلائن سیال معمولاً کچھ پیلا سا یا خفیف گہرے رنگ کا ہوتا ہے. جس کا رنگ اس کے اندر موجود مادوں سے بنتا ہے. غدۂ قدامیہ (Prostate gland)سے منی کا ٢٠ فیصدی حصہ بنتا ہے . غدہ ٔ قدامیہ سے ریزش کرنے والا سیال دودھ جیسا کچھ تیزابی رد عمل والا ہوتاہے جس کا پی. ایچ.(Ph)6.5اکثر اس کے اندر موجودسائٹرک ایسڈ کے سبب ہوتا ہے. غدۂ قدامیہ سے آنے والے سیال میں پرٹیولائی ٹک انزائم (Proteolytic enzyme) اور ایسڈ فاسفیٹیز (Acid phosphatase) جیسے مادے بھی ہوتے ہیں. یہ انزائم مادۂ منویہ کے جمنے، سوکھنے یا سائل رہنے کا ذمہ دار ہے جو ابھی تک یہ سمجھا جا رہا
Read More

طب کی مختلف شاخیں -ماخوذازوکیپیڈیا

طب
علم طب؛ صحت سے متعلق معلومات کو کہا جاتا ہے اس شعبہ علم کا تعلق ، سائنس و فن (Science and Art) دونوں سے ہے (وضاحت نیچے دیکھیۓ)۔ اس شعبہ علم میں تندرستی کی نگہداری و بقا اور بصورت ِمرض و ضرر، تشخیص اور معمول کی جانب جسم کی بحالی سے مطالق بحث کی جاتی ہے۔ تاریخ طب کسی اور مضون میں درج کی جاۓ گی، اس مضون میں صرف جدید طب کے موجودہ خدوخال پر نظر ڈالی گئی ہے۔
طب ایک سائنس بھی ہے کیونکہ اسکی عمارت، بادقت کیۓ گۓ تجربات اور دقیق مطالعہ سے حاصل ہونے والی معلومات پر کھڑی ہے اور یہ ایک فـن بھی ہے کہ اسکی کامیابی کا انحصار طبیب کی ذاتی فہم اور مہارت ِعمل پر ہوتا ہے، کہ وہ کس صلاحیت سے علم طب کی معلومات کو استعمال کرتا ہے۔
بنیادی طور پر طب کو دو بڑی شاخوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے؛اساسی طب (Basic medicine) جو تشریح، حیاتی کیمیاء اور فعلیات جسیے بنیادی مضامین پر مشتمل ہے۔ ان مضامین کا مرض یا مریض پر براہ راست عملی استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ اس عملی استعمال کیلیۓ ایک بنیاد فراہم کرتے ہیں
سریری طب (Clinical medicine) جسکو نفاذی طب بھی کہ سکتے ہیں کہ اسمیں طبی معلومات کو علاج و معالجہ کے لیۓ نافذ کیا جاتا ہے۔ اسمیں شامل اہم مضامین؛ طبی علاج، جراحی اور علم الادویہ ہیں جو اساسی طب کی بنیاد پر کھڑے ہوکر براہ راست علاج و معالجہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
معالجہ المثلیہ
اسکو انگریزی میں Homeopathy کہا جاتا ہے۔ اس میں امراض کے علاج کی خاطر قلیل مقدار میں ایسے ادویاتی نسخے استعمال کیے جاتے ہیں کہ جنکا زیادہ مقدار میں استعمال عام افراد میں وہی مرض پیدا کرتا ہے کہ جس کے علاج کے لیۓ وہ نسخہ ہو، اسی لیۓ اسکو معالجہ المثلیہ (علاج مثل) کہا جاتا ہے۔
معالجۂ اخلافیہ
معالجۂ اخلافیہ جسکو انگریزی میں Allopathy اور Allopathic medicine بھی کہا جاتا ہے دراصل ایک اصطلاح ہے جو کہ معالجہ المثلیہ (homeopathy) کے متعارف کنندہ سیموئل ہنیمان نے اپنے طریقۂ علاج یعنی معالجہ المثلیہ سے دوسرے تمام موجودہ طریقہ معالجات کو جدا کرنے کیلیۓ استعمال کی تھی۔ اور عمومی طور پر آج کل اس سے جو مثال لی جاتی ہے وہ رائج الوقت مغربی طب (medicine) کی ہوتی ہے، جبکہ درحقیقت جیسا کہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس اصطلاح کے دائرۂ کار میں وہ تمام معالجات آجاتے ہیں جو کہ معالجہ المثلیہ کے علاوہ ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ علم medicine گو معالجۂ اخلافیہ میں آجاتا ہے مگر اسکے باوجود اس میں بھی چند ایسے طریقہ کار موجود ہیں کہ جو معالجہ المثلیہ میں آتے ہیں، اگر غور کیا جاۓ تو بقریت (vaccination) ایک قسم کا معالجہ المثلیہ ہی ہے جبکہ معالجہ اخلافیہ کی پیداوار ہے۔

ورزش کے فوائد

جسم انسانی کی صحت کے لیے ورزش کی اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے اور کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ورزش ہر عمر میں یکساں مفید ہے۔ جسم کی مثال ایک مشین کی مانند ہے اگر کسی مشین کو استعمال میں نہ لایا جائے تو زنگ آلود ہو جاتی ہے اور زنگ آلود مشین کی کارکردگی سے ہم سب واقف ہیں کہ کتنی جلد وہ جواب دے جائے گی۔ اس طرح اگر جسم انسانی کو مناسب حرکت نہ دی جائے تو نہ صرف موٹاپا آجائے گا بلکہ مشین کے اعضاءخراب ہو کر صلاحیت عمل میں فرق آ جائے گا۔
ورزش کم ہو یا زیادہ ہر صورت میں مفید ہے۔ بلکہ ایک بہترین ٹانک ہے جس سے جسم چاک و چوبند رہتا ہے اور قوت و چستی کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ہاتھ پاؤں کو حرکت دینے کا نام ورزش دیا جاتا ہے یہ ایک نامکمل تشریح ہے۔ جب ہم جسم کو اس طرح حرکت دیں کہ جس سے پورا جسم حرکت میں رہے اور یہ عمل روزانہ کچھ وقت کے لیے باقاعدگی سے کیا جائے تو اسے ورزش کا نام دیا جا سکتا ہے۔
کبھی کبھار ورزش کرنا بجائے فائدے کے نقصان دہ ہو سکتا ہے اس لیے اگر آپ ورزش کے فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ باقاعدگی سے کی جائے تاہم ہر عمر اور جسم کے لحاظ سے اس کا تقاضا ضرورت الگ الگ ہے۔ تیس سال سے قبل عمر میں زور دار اور تھکا دینے والی ورزش مناسب ہے دوران ورزش خون کی رفتار میں اضافہ ہو جاتا ہے جسم کے ہر حصے میں خون کی فراہمی بڑھ جاتی ہے، سانس کی رفتار بڑھتی اور سانس گہرے ہو جاتے ہیں اور یہ سانس خون کی نالیاں جو بند ہو چکی ہوں چلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ورزش سے چربی پگھلتی اور موٹاپا ختم ہوتا۔ سانس سے مراد آکسیجن ہے آکسیجن خون کے ساتھ مل کر ہمارے جسم کے تمام اعضاءمیں، اعضا کی تمام بافتوں میں اور بافتوں کے تمام خلیات میں پہنچ کر انہیں زندہ اور متحرک رکھتا ہے۔ ہماری سانس کے ساتھ جو آکسیجن جسم کے اندر جاتی ہے اس کی مدد سے ہمارے پھیپھڑے ( جگر ) خون صاف اور طاقتور بناتے ہیں۔ نیلے رنگ کی رگیں استعمال شدہ خون کو واپس لوٹاتی ہیں اور سرخ رنگ کی شریانیں خون کی سرخ ذرات کو ایک ایک خ لیے تک پہنچاتی ہیں۔
جسم کے جن خلیات کو سرخ رنگ کا خون نہیں ملتا مثلا ہارٹ اٹیک میں تو دل کے وہ خلیات مردہ ہو جاتے ہیں اور دوبارہ زندہ نہیں ہوتے۔ ورزش سے آکسیجن اور خون کا بہاؤ تیز ہو کر خون صاف ہو کر ایک ایک خ لیے تک پہنچ جاتا ہے۔ صرف پھیپھڑوں اور خون ہی نہیں بلکہ جسم کا ہر عضو معدہ جگر مثانہ گردے اور دماغ سب کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے۔ ورزش سے دماغی اعصاب کو طاقت ملتی ہے اور جسمانی صحت بہتر ہو جاتی ہے۔ جسمانی عضلات اور جوڑ بہتر کام کرتے ہیں۔
جو لوگ ورزش نہیں کرتے عموما وہ قبض، بدہضمی اور گیس کے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ سنگین مرض نہیں مگر سخت بے چینی پیدا کر کے زندگی کا سکون غارت کر دیتے ہیں یہ گھٹن ہے جو خاموش قاتل کا کردار ادا کرتا ہے اس کے علاوہ خون کی رگوں کو تنگ کرنا، کولیسٹرول کا بڑھ جانا، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور موٹاپا وغیرہ ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ہر روز صبح نماز فجر کے بعد ورزش کے لیے وقت دینا بہتر صحت کی ضمانت ہے۔ اگر ہم ورزش سے کوتاہی کریں تو زندگی بے مزہ ہو جائے گی۔ اور جب جسم صحت مند و توانا نہ ہو گا تو زندگی کی تمام مدتیں اور لذتیں بے معنی ہوں گی لہٰذا صحت کی نعمت خداوندی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ورزش ضروری ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ روز قیامت صحت کے متعلق سوال ہو گا۔ ظاہر ہے جس جسم کو آرام پہنچانے کے لیے ہم جدوجہد کرتے ہیں۔ جس دماغ کی صلاحیتیں کو بیدار کرنے کے لیے ہم دوڑ لگا رہے ہیں وہ جسم لاغر اور غیر صحت مند ہو تو دولت کس کام کی ہو گی۔ یہ بات بھی مشاہدہ میں ہے کہ جو بچے دوڑتے اور پھدکتے ہیں وہ صحت مند ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ بچوں میں شروع ہی سے ورزش کا رجحان فروغ دیا جائے ہمیشہ صحت مند و توانا، اقوام ہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ ہماری قوم صحت کے حوالے سے بہت پیچھے ہے۔ حالانکہ تعمیر پاکستان کے لیے افراد ملت کی صحت ایک لازمی ضرورت ہے۔ ورزش کی اہمیت و افادیت اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سکولوں کالجوں میں لازمی ورزش کا اہتمام کیا جائے۔

کسی دانا نے خوب کہا ہے کہ: اے تن درست! مستقبل تیرے لیے ہے
ورزش کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہیو ی ویٹ لفٹنگ ہی کی جائے بلکہ عمر کے لحاظ سے مناسب چہل قدمی اور اس دوران وقفے وقفے کرنے سے بھی مطلوبہ مقاصد حاصل کےے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ کی عمر پچاس سال سے تجاوز کر چکی ہے تو صبح نماز فجر کے بعد لمبی سیر بھی ورزش کے زمرے میں شمار ہو گی۔

شربت فالسہ, فالسہ مقوی دل ہوتا ہے

عربی فالسہ
فارسی پالسہ
سندھی بھارواں
انگریزی Grewia Asiatica
فالسہ ابتداءمیں سبز پھر سرخ اور آخر میں سیاہی مائل ہو جاتا ہے۔ اس کا ذائقہ شیریں و ترش ہوتا ہے۔ اس کے پھو ل زرد ہوتے ہیں۔اس کا مزاج سرد، دوسرے درجے میں اور تر، درجہ اول میں ہوتا ہے، اس کی مقدار خوراک تین تولہ سے ایک چھٹانک تک ہوتی ہے ، اس کے بے شمار فوائد ہیں۔

فالسہ کے فوائد

 نمبر (1) فالسہ مقوی دل ہوتا ہے(2) فالسہ معدہ اور جگر کو طاقت دیتا ہے(3) یہ پیاس بجھاتا ہے(4) پیشاب کی سوزش کو ختم کرتا ہے(5) یہ مُبَّرِد اور قابض ہوتا ہے(6)گرمی کے بخا ر کو فائدہ دیتا ہے(7) فالسہ کا پانی نکال کر اس سے شربت بنایا جاتا ہے(8) اختلاج القلب اور خفقان کو بے حد مفید ہوتا ہے(9) فالسے کا رُب بھی بنایا جاتا ہے جس کو معدہ کی قوت کیلئے استعمال کیا جاتا ہے(10) فالسے کی جڑکا چھلکا سوزاک اور ذیابیطس میں استعمال کرانا مفید ہوتا ہے۔( مقدار خوراک ایک ماشہ ہمراہ پانی صبح و شام)(11) فالسے کے پانی سے غرارے کرنے سے خناق کو فائدہ ہوتا ہے(12) یہ صفراوی اسہال ،ہچکی اور قے کو بند کرتا ہے(13) تپ دق میں فالسے کا استعمال بے حد مفید ہوتا ہے(14) معدے اور سینے کی گرمی اور جلن کو دور کرتا ہے(15)دل کی دھڑکن اور خاص طور پر بے چینی کو دور کرتا ہے(16) کھٹا اور نیم پختہ فالسہ استعمال نہیں کرنا چائیے (18) ذیابیطس کیلئے فالسے کے درخت کا چھلکا پانچ تولے اور کوزہ مصری تین تولے لے کر چھلکے کو رات پانی میں بھگو دیں اور صبح مصری ملا کرمریض کو ایسی ہی خوراک پانچ روز تک پلانا بے حد مفید ہوتا ہے ۔ اس سے ذیابیطس (شوگر) پر کنٹرول ہو جاتا ہے۔
(19) جگر کی گرمی کو دور کرنے کیلئے فالسے کو جلا کر کھار بنائیں اور تین رتی صبح و شام استعمال کریں (20)فالسہ مصفیٰ خون بھی ہے(21)فالسے کا شربت بنانے کا طریقہ درج ذیل ہے۔ آدھ سیر پختہ فالسہ، ایک سیر چینی ، پہلے فالسے کو پانی میں خوب رگڑ کر چھان لیں اور چینی ملا کر قوام تیار کریں، جب قوام گاڑھا ہو جائے تو شربت تیار ہے۔ ٹھنڈا کر کے بوتلوں میں بند کر لیں۔ ،یہ شربت مقوی معدہ و دل ہوتا ہے، جگر کی حرارت کو تسکین دیتا ہے، قے ، دستوں اور پیاس کو فائدہ دیتا ہے(22) جن کا معدہ بوجھل رہتا ہو طبیعت متلاتی ہو اور کھانے کی نالی میں جلن محسوس ہوتی ہو ایک پاﺅ فالسہ کا پانی نکال کر تین پاﺅ چینی ملا کر گاڑھا شربت تیار کر یں یہی شربت تین بڑے چمچے ہر کھانے کے بعد چاٹنے سے بے حد فائدہ ہوتا ہے(23) فالسے کے درخت کی چھال کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ایک چھٹانک میں آدھ چھٹانک بنولہ کوٹ کر دونوں کو ایک سیر پانی میں بھگو دیں دو دفعہ مل چھان کر پھیکا یا نمک ملا کر پلانے سے ذیابیطس شکری کنٹرول ہو جاتی ہے(24) پھوڑے پھنسیوں پر فالسے کے پتے رگڑ کر لگانے سے فوراً فائدہ ہوتا ہے(25) فالسے کو دو روز سے زیادہ بغیر فرج کے نہیں رکھا جا سکتا ،خراب ہو جاتا ہے(26) تیز بخاروں میں فالسہ کا جوس دینے سے مریض کی تسکین ہوتی ہے(27) فالسے کے بیج قابض ہوتے ہیں اور سُدَّہ پیدا کرتے ہیں۔ (28) اس کی جڑ کی چھال کا جوشاندہ بنا کر پینا جوڑوں کے درد میں بے حد مفید ہوتا ہے( 29) فالسے کا شربت فساد خون کو بے حد مفید ہوتا ہے (30)فالسے کی جڑ کی چھال دو تولے رات کو بھگو کر صبح اس کا پانی پینے سے سوزاک ، سینے کی جلن اورپیشاب کی سوزش دور ہوتی ہے(31) فالسے کا متواتر استعمال خون اور صفراءکی تیزی کو دفع کرتا ہے(32) فالسے کے پتے، بیج اور رس، ان میں کسی ایک کو پانی میں رگڑ کر پینے سے مثانے کی گرمی دور ہوتی ہے(33) فالسہ سرد مزاج والوں کو نقصان دہ ہوتا ہے(34) سینے او ر پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے، اس لئے احتیاط سے اسے استعما ل کرنا چائیے اور ضرورت سے زیادہ نہیں کھانا چائیے۔ اگر زیادہ کھا لیا جائے تو پھر گلقند تھوڑی سی کھا لینے سے اس کے مضر اثرات نہیں ہوتے(35)شربت فالسہ میںاگر عرق گلاب ڈال کر پیا جائے تو اس کے فوائد دگنے ہو جاتے ہیں(36) فالسہ خشکی اور قبض پیدا کر تا ہے ۔ اگر گلقند یا معجون فلا سفہ کا ایک چمچہ چائے والا فالسے کے بعد لے لیا جائے تو پھر قابض اورخشک نہیں رہتا ۔ بہرحال فالسہ کا مقدار کے مطابق استعمال کرنا ہر صورت میں فائدہ مند رہتا ہے۔

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دوعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

Read More

کباب سموسے کے نقصانات درود شریف کی فضیلت

اللہ کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ رحمت نشان ہے، جس نے یہ کہا، جزی اللہ عنا محمدا ما ھو اہلہ ستر فرشتے ایک ہزار دن تک اس کیلئے نیکیاں لکھتے رہیں گے۔ (ملتقطاً من الحدیثین فی المعجم الاوسط ج1 ص82 حدیث 235 دارالفکر عمان والمعجم الکبیر ج11 ص165 حدیث 11509 دار احیاء التراث العربی بیروت)
صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد
مسلمان کی بھلائی چاہنا کارِ ثواب ہے
حضرت سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، “میں نے حضور تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ نماز قائم کروں گا اور زکوٰۃ ادا کروں گا اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی کروں گا (یعنی بھلائی چاہوں گا) (صحیح مسلم ص48 حدیث 97)
الحمدللہ عزوجل خود کو مسلمانوں کے خیر خواہوں میں کھپانے اور ثواب کمانے کے مقدس جذبے کے تحت دعاء کے ساتھ ساتھ صحت مند رہنے کیلئے چند مدنی پھول نذر حاضر کئے ہیں۔ اگر محض دنیا کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے تندرست رہنے کی آرزو ہے تو رسالہ پڑھنا یہیں موقوف کر دیجئے اور اگر عمدہ صحت کے ذریعے عبادت اور سنتوں کی خدمت پر قوت حاصل کرنے کا ذہن ہے تو ثواب کمانے کی غرض سے اچھی اچھی نیتیں کرتے ہوئے درود شریف پڑھ کر آگے بڑھئے اور رسالہ مکمل پڑھئے
صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد
اللہ رب العزت عزوجل میری، آپ کی، جملہ اہل خاندان اور ساری اُمت کی مغفرت فرمائے۔ ہمیں صحت و عافیت کے ساتھ اور دعوت اسلامی کے مدنی ماحول میں رہتے ہوئے اسلام کی خدمت پر استقامت عنایت فرمائے۔ اللہ عزوجل ہماری جسمانی بیماریاں دور کرکے ہمیں بیمارِ مدینہ بنائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

کباب سموسے کھانے والے متوجہ ہوں

بازار اور دعوتوں کے چٹ پٹے کباب سموسے کھانے والے توجہ فرمائیں۔ کباب سموسے بیچنے والے عموماً قیمہ دھوتے نہیں ہیں۔ ان کے بقول قیمہ دھو کر ڈالیں تو کباب سموسے کا ذائقہ متاثر ہوتا ہے ! بازاری قیمہ میں بعض اوقات کیا کیا ہوتا ہے یہ بھی سن لیجئے! گائے کی اوجھڑی کا چھلکا اتار کر اس کی “بٹ“ میں تلی بلکہ معاذاللہ عزوجل کبھی تو جما ہوا خون ڈال کر مشین میں پیستے ہیں اس طرح سفید بٹ کے قیمے کا رنگ گوشت کی مانند گلابی ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات کباب سموسے والے حسب ضرورت ادرک لہسن وغیرہ بھی قیمے کے ساتھ ہی پسوا لیتے ہیں۔ اب اس قیمے کے دھونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اُسی قیمے میں مرچ مصالحہ ڈال کر بھون کر اُس کے کباب سموسے بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ ہوٹلوں میں بھی اسی طرح کے قیمے کے سالن کا اندیشہ رہتا ہے۔ گندے کباب سموسے والوں سے پکوڑے وغیرہ بھی نہ لئے جائیں کہ کڑہای ایک اور تیل بھی وہی گندے قیمے والا۔ خیر میں یہ نہیں کہتا کہ معاذاللہ ہر گوشت بیچنے والا اس طرح کرتا ہے یا خدانخواستہ ہر کباب، سموسے والا ناپاک قیمہ ہی استعمال کرتا ہے۔ یقیناً خالص گوشت کا قیمہ بھی ملتا ہے۔ عرض کرنے کا منشاء یہ ہے کہ قیمہ یا کباب سموسوں سے قابل اطمینان مسلمان سے لینے چاہئیں اور جو مسلمان ایسی اوچھی حرکتیں کرتے ہیں ان کو توبہ کر لینی چاہئیے۔

کباب سموسے طبیبوں کی نظر میں
کباب، سموسے، پکوڑے، شامی کباب، مچھلی اور مرغی وغیرہ کی تلی ہوئی بوٹیاں، پوریاں، کچوریاں، پیزے، پراٹھے، انڈہ آملیٹ وغیرہ ہم خوب مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ مگر بے ضرر نظر آنے والی یہ خستہ اور کراری غذائیں اپنے اندر کیسے کیسے مہلک امراض لئے ہوئے ہیں اس کا شاذ و نادر ہی کسی کو علم ہوتا ہے۔ تلنے کیلئے جب تیل کو خوب گرم کیا جاتا ہے تو طبی تحقیقات کے مطابق اس کے اندر کئی ناخشگوار و نقصان دہ مادے پیدا ہو جاتے ہیں، تلنے کیلئے ڈالی جانے والی چیز بھی نمی چھوڑتی ہے جس کے سبب تیل مشتعل ہو کر چٹاخ چٹاخ کا شور مچاتا ہے جو کہ اس کے کیمیائی اجزاء کی توڑ پھوڑ کی علامت ہے اور اس کے سبب غذائی اجزاء اور وٹامنز تباہ ہو جاتے ہیں۔

“یارب ! لذت نفسانی سے بچا“ کے انّیس حُروف کی نسبت سے تلی ہوئی چیزوں سے ہونے والی 19 بیماریوں کی نشاندہی

بدن کا وزن بڑھتا ہے۔
 آنتوں کی دیواروں کو نقصان پہنچتا ہے۔
 اجابت (پیٹ کی صفائی) میں گڑ بڑ پیدا ہوتی ہے۔
 پیٹ کا درد
 متلی (6) قے یا
اسہال (یعنی پانی جیسے دست) ہو سکتے ہیں۔
 چربی کے مقابلے میں تلی ہوئی چیزوں کا استعمال زیادہ تیزی کے ساتھ خون میں نقصان دہ کولیسٹرول یعنی LDL بناتا ہے۔
 مُفید کولیسٹرول یعنی HDL میں کمی آتی ہے۔
 خون میں لوتھڑے یعنی جمی ہوئی ٹکڑیاں بنتی ہیں۔
ہاضمہ خراب ہوتا ہے۔
 گیس ہوتی ہے۔
 زیادہ گرم کردہ تیل میں ایک زہریلا مادہ “ایکرولین“ پیدا ہو جاتا ہے جو کہ آنتوں میں خراش پیدا کرتا ہے بلکہ معاذاللہ عزوجل
 کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
 تیل کو زیادہ دیر تک گرم کرنے اور اس میں چیزیں تلنے کے عمل سے اس میں ایک اور خطرناک زہریلا مادہ “فری ریڈیکلز“ پیدا ہو جاتا ہے جو کہ دل کے امراض
کینسر
 جوڑوں میں سوزش
دماغ کے امراض اور
جلد بڑھاپا لانے کا سبب بنتا ہے۔
“فری ریڈیکلز“ نامی خطرناک زہریلا مادہ پیدا کرنے والے مذید اور بھی عوامل ہیں۔ مثلاً تمباکو نوشی، ہوا کی آلودگی (جیسا کہ آج کل گھروں میں ہر وقت کمرہ بند رکھا جاتا ہے نہ دھوپ آنے دی جاتی ہے نہ تازہ ہوا)، کار کا دھواں، ایکسرے X RAY, مائیکرو ویو اوون، T.V. اور کمپیوٹر کے اسکرین کی شعائیں، فضائی سفر کی تابکاری (یعنی ہوائی جہاز کا شعائیں پھینکنے کا عمل)

خطرناک زہر کا توڑ
اللہ عزوجل نے اس خطرناک زہر یعنی “فری ریڈکلرز“ کا توڑ بھی پیدا فرمایا ہے چنانچہ جن سبزیوں اور پھلوں کا رنگ سبز، زرد یا نارنجی یعنی سرخی مائل زرد ہوتا ہے یہ اس خطرناک زہر کو تباہ کر دیتے ہیں اس طرح کے پھلوں اور سبزیوں کا رنگ جس قدر گہرا ہوگا ان میں وٹامنز اور معدنی اجزاء کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے وہ اس زہر کا زیادہ قوت کے ساتھ توڑ کرتے ہیں۔
صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد

تلی ہوئی چیزوں کا نقصان کم کرنے کا طریقہ
دو باتوں پر عمل کرنے سے تلی ہوئی چیزوں کے نقصانات میں کمی آ سکتی ہے۔
(1) کباب سموسے، پکوڑے، انڈہ آملیٹ، مچھلی وغیرہ تلنے کیلئے جو کڑاہی یا فرائی پین استعمال کیا جائے وہ نان اسٹک (Non Stick) ہو۔

(2) تلنے کے بعد ایک ایک چیز کو بے خوشبو ٹشو پیپر میں اچھی طرح لپیٹ لیا جائے تاکہ کچھ نہ کچھ تیل جذب ہو جائے۔

بچا ہوا تیل دوبارہ استعمال کرنے کا طریقہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک بار تلنے کیلئے استعمال کرنے کے بعد تیل کو دوبارہ گرم نہ کیا جائے۔ اگر دوبارہ استعمال کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو چھان کر ریفریجریٹر میں رکھ دیا جائے، بغیر چھانے فرج میں نہ رکھا جائے۔

فن طب یقینی نہیں
تلی ہوئی چیزوں کے نقصانات کے تعلق سے میں نے جو کچھ عرض کیا وہ میری اپنی نہیں طبیبوں کی تحقیق ہے۔ یہ اُصول یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فن طب سارے کا سارا ظنی ہے یقینی نہیں۔

“یارب مصطفٰے ہمیں مدینۃ النورہ کی نعمتیں نصیب فرما“ کے 41 حُروف کی نسبت سے غذاؤں کے بارے میں 41 مدنی پھول

(1) چاکلیٹ اور مٹھائیاں زیادہ کھانے سے دانت خراب ہو جاتے ہیں کیونکہ چینی کے ذّرات دانتوں پر چپک کر مخصوص جراثیم کی افزائش کا سبب بنتے ہیں۔

(2) بچّے چاکلیٹ کے شیدائی ہوتے ہیں ان کو بچانا ضروری ہے۔ چاکلیٹ یا اس کی پنّی پر چند مرتبہ کوئی کڑوی چیز یا مرچیں وغیرہ لگا دی جائیں جس سے ان کی چاکلیٹ سے دلچسپی ختم ہو جائے۔

(3) پراسیس کردہ ٹن پیک غذاؤں کو محفوظ کرنے کیلئے “سوڈیم نائٹرٹ“ نامی کیمیکل ڈالا جاتا ہے۔ اس کا مسلسل استعمال سرطان کی گانٹھ (Cencer Tumer) بناتا ہے۔

(4) آئسکریم کے ایک کپ (یعنی 210 ملی لیٹر) میں 84 ملی گرام کولیسٹرول ہوتا ہے۔

(5) 250 گرام کی ٹھنڈی بوتل (کولڈ ڈرنک) میں تقریباً سات چمچ چینی ہوتی ہے۔

(6) اُبلے ہوئے یا بھاپ (Steam) میں پکائے ہوئے کھانے اور سبزیاں زیادہ مفید اور زود ہضم ہوتے ہیں۔

(7) بیمار جانور کا گوشت فوڈ پوائزننگ (Food Poisoning) اور بڑی آنت کے کینسر کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

( 8 ) ہاف فرائی انڈہ کھانے کے بجائے اچھی طرح فرائی کرکے کھانا چاہئیے اور آملیٹ اُس وقت پکایا جائے جب تک خشک نہ ہو جائے۔

(9) انڈہ اُبالنا ہو تو کم از کم سات منٹ تک اُبالا جائے۔

(10) سیب، چیکو، آڑو، آلوچہ، املوگ، کھیرا وغیرہ پھلوں کو چھیلے بغیر کھانا مفید ہے کیونکہ چھلکے میں بہترین غذائی ریشہ (فائبر) ہوتا ہے۔ غذائی ریشے، بلڈ شوگر، بلڈ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کم کرکے قبض کھولتے اور غذا سے زہریلے مادوں کو لیکر نکل جاتے نیز بڑی آنت کے کینسر سے بچاتے ہیں۔

(11) کدو شریف، شکر قند، چقندر، ٹماٹر، آلو وغیرہ وغیرہ چھلکے سمیت پکانا چاہئیے، ان کا چھلکا کھا لینا مفید ہے۔

(12) کالے چنوں کا استعمال صحّت کیلئے مفید ہے۔ اُبلے ہوئے ہوں یا بھنے ہوئے ان کے چھلکے بھی کھا لینے چاہئیں۔

(13) ایک ہی وقت میں مچھلی اور دودھ کا استعمال نقصان دہ ہے۔

(14) اینٹی بائیوٹیک دواء استعمال کرنے کے بعد دہی کھا لینا چاہئیے۔ جو ضروری بیکٹیریا ختم ہو جاتے ہیں وہ دہی کھانے سے بحال ہو جاتے ہیں (ہر علاج تجربہ کار طبیب کے مشورہ کے مطابق کرنا چاہئیے)

(15) کھانے کے فوراً بعد چائے یا ٹھنڈی بوتل پینا نظام انہضام کو متاثر کرتا ہے، اس سے بد ہضمی اور گیس کی شکایت ہو سکتی ہے (کھانا کھانے کے تقریباً دو گھنٹے کے بعد ایک دو گلاس پانی پی لینا مفید ہے)

(16) چاول کھانے کے فوراً بعد پانی پینے سے کھانسی ہو سکتی ہے۔

(17) گودے والے پھل (مثلاً پپیتا، امرود، سیب وغیرہ) اور رس والے پھل (مثلاً موسمبی، سنگترہ وغیرہ) ایک ساتھ نہیں کھانے چاہئیں۔

( 18 ) پھلوں کے ساتھ چینی یا مٹھائی کا استعمال نقصان کرتا ہے (مختلف پھلوں کی ٹکڑیاں کرکے چاٹ مصالحہ ڈالنے میں حرج نہیں مگر چینی نہ ڈالی جائے)

(19) پھل اور سبزیاں ایک ساتھ نہ کھائے جائیں۔

(20) گھیرا، پپیتا اور تربوز کھانے کے بعد پانی نہ پیا جائے۔

(21) کھانا کھانے کے آدھے گھنٹے پہلے پھل کھا لینا چاہئیے، کھانے کے فوراً بعد پھل کھانا مضر صحت ہے (آفسوس ! آج کل کھانے کے فوراً بعد پھل کھانے کا رواج ہے)

(22) میرے آقا اعلٰی حضرت، مولیٰنا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن روایت نقل کرتے ہیں، “کھانے سے پہلے تربوز کھانا، پیٹ کو خوب دھو دیتا ہے اور بیماری کو جڑ سے ختم کر دیتا ہے۔ (فتاوٰی رضویہ تخریج شدہ ج5 ص442 و جامع صغیر ص 192 حدیث 3212 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(23) میٹھی ڈشیں، مٹھائیں اور میٹھے مشروبات کھانے سے کم از کم آدھے گھنٹے قبل استعمال کئے جائیں، کھانے کے بعد ان کا استعمال نقصان کرتا ہے (افسوس ! میٹھی ڈشیں آج کل کھانے کے بعد کھائی جاتی ہیں) جوانی ہی سے مٹھاس اور چکناہٹ کا استعمال کم کر دیجئے، اگر مذید زندہ رہنے میں کامیاب ہو گئے، تو انشاءاللہ عزوجل بڑھاپے میں سہولت رہے گی۔

(24) اُبلی ہوئی سبزی کھانا بہت مفید ہے اور یہ جلدی ہضم ہوتی ہے۔

(25) سبزی کے ٹکڑے اُسی وقت کئے جائیں جب پکانی ہو، پہلے سے کاٹ کر رکھ دینے سے اُس کے قوت بخش اجزاء رفتہ رفتہ ضائع ہو جاتے ہیں۔

(26) تازہ سبزیاں وٹامنز، نمکیات اور معدنیات وغیرہ کے اہم عناصر سے لبریز ہوتی ہیں مگر جتنی دیر تک رکھی رہیں گی اُتنے ہی اُس کے وٹامنز اور مقوّی اجزاء ضائع ہوتے چلے جائیں گے لٰہذا بہتر یہی ہے کہ جس دن کھانا ہو اُسی دن تازہ سبزیاں خریدیں۔

(27) سبزیاں پکانے میں پانی کم سے کم ڈالنا چاہئیے کیونکہ پانی سبزیوں کے حیات بخش اجزاء (وٹامنز) کھینچ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

( 28 ) سبزیاں مثلاً آلو، شکرقند، گاجر، چقندر وغیرہ ابالنے کے بعد بچا ہوا پانی ہرگز پھینکا نہ جائے، اس کو استعمال کر لینا فائدہ مند ہے کیونکہ اُس میں ترکاریوں کے مقوی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔

(29) سبزیاں زیادہ سے زیادہ 19 منٹ میں ابال لینی چاہئیں ان میں بھی بالخصوص سبز رنگ کی ترکاریاں تو دس منٹ کے اندر اندر چولہے سے اتار لی جائیں۔

(30) زیادہ دیر پکانے سے سبزیوں کے حیات بخش اجزاء (وٹامنز) ضائع ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ بالخصوص وٹامن سی کافی نازک ہوتا ہے زیادہ دیر پکانے سے یہ بالکل ختم ہو جاتا ہے۔

(31) ترکاری یا کسی قسم کی غذا پکاتے وقت آگ درمیانی ہونی چاہئیے۔ اس سے غذا اندر تک اچھی طرح پک جائیگی اور لذیذ بھی ہو گی۔

(32) چولھے سے اُتارنے کے بعد ڈھکن بند رکھنا چاہئے اس طرح بھاپ کا اندر رہنا پکنے کے عمل کیلئے مفید ہے۔

(33) کچی یا پکی سبزیاں فرج میں رکھی جا سکتی ہیں۔

(34) لیموں کی بہترین قسم وہ ہے جس کا رس رقیق (پتلا) اور چھلکا ایک دم پتلا ہو، عام طور پر اسے کاغذی لیموں کہتے ہیں۔ لیموں کو آم کی طرح گھولنے کے بعد، چوڑائی میں کاٹنا چاہئے، اس کے کم از کم چار اور اگر ذرا بڑا ہو تو آٹھ ٹکڑے کر لیجئے، اس طرح نچوڑنے میں آسانی رہے گی۔ لیموں کا ٹکڑا اس قدر نچوڑیں کہ سارا رس نچڑ جائے، ادھور نچوڑ کر پھینک دینا اسراف ہے۔

(35) فرج سے نکال کر ٹھنڈا لیموں باورچی خانہ میں چولھے کے پاس رکھ دیجئے یا گرم پانی میں ڈال دیجئے یا کاٹ کر گرم چاولوں کے پتیلے میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح نرم ہو جائے گا اور رس بآسانی نکل آئے گا۔

(36) کچی سبزیاں اور سلاد کھانا مفید ہے کہ یہ وٹامنز سے بھرپور،صحت بخش اور قبض کشا ہوتی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق پکانے سے اکثر غذائیت ضائع ہو جای ہے۔

(37) تازہ سبزی کا استعمال زیادہ مفید ہوتا ہے۔ باسی سبزیاں نقصان کرتی اور پیٹ میں گیس بھرتی ہیں، ہاں آلو، پیاز، لہسن وغیرہ تھوڑے دن رکھنے میں حرج نہیں۔

( 38 ) سبزی، پھل اور اناج میں موجود غذائیت کا “حارس“ (یعنی محافظ) اُس کا چھلکا ہوتا ہے لٰہذا ان میں سے جو جو چیز چھلکے کے ساتھ بآسانی کھائی جا سکتی ہے، اُس کا چھلکا نہیں اُتارنا چاہئیے۔ جس کا چھلکا بہت سخت ہوتا ہے اور نہیں کھایا جاتا اُس کی بھی صرف ہلکی سی تہ وہ بھی آہستہ آہستہ اُتارنی چاہئیے۔ چھلکا جس قدر موٹا اتاریں گے اتنے ہی وٹامنز اور قوت بخش اجزاء ضائع ہوں گے۔

(39) پالش کئے ہوئے گندم، چاول اور دالوں کا آج کل استعمال عام ہے، آٹا بھی پالش کئے ہوئے گندم ہی کا ملتا ہے، پالش کی وجہ سے اناج کا غذائی ریشہ اور اس کی اوپری تہ جو وٹامنز سے بھرپور ہوتی ہےبرباد ہو جاتی ہے۔

(40) موسمبی، سنگترہ وغیرہ کا موٹا چھلکا اتارنے کے بعد بچی ہوئی باریک جھلی کھا لیجئے۔

(41) حضرت مولائے کائنات، علی المرتضٰی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں، انار کے دانے اس کی جھلی کے ساتھ کھانے چاہئیں جو دانوں پر لپٹی ہوتی ہے یہ مقوی معدہ (یعنی معدہ کو طاقت دینے والی) ہے۔ (تاریخ الخلفاء ص147،


Read More