Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

عضلات (muscles)

عضلات (muscles) گوشت کے سرخ ٹھوس حصہ کو کہتے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہیں۔ عضلات کی واحد عضلہ ہوتی ہے۔ارادی عضلات

انہیں دماغ قابو میں رکھتا ہے اور اعصاب (nerves) کے ذریعے انہیں کیمیائی اور برقی پیغامات پہنچا کر مطلوبہ کام کرواتا ہے اسی وجہ سے انکو ارادی عضلات (voluntary) کہا جاتا ہے۔ عام طور پر انکا خوردبینی مطالعہ کرنے پر گہری اور ہلکی دھاریاں نظر آتی ہیں جسکی وجہ سے انکو دھاری دار عضلات بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بلا واسطہ یا بالواسطہ مضبوط سفید ریشوں کے زریعے ہڈیوں کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور ان میں سکڑنے اور پھیلنے صلاحیت پائی جاتی ہے لہذا جب یہ اپنی اسی قوت کے تحت حرکت کرتے ہیں تو اپنے ساتھ ان ہڈیوں کو بھی متحرک کرتے ہیں جنکے ساتھ یہ رباط< (ligament) کی مدد سے لگے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ جاندار کے جسم میں حرکت پیدا کرسکتے ہیں۔ اسکے علاوہ اگر یہ ہڈیوں پر جڑنے کے بجاۓ کھال کے نیچے چپکے ہوۓ ہوں تو انکی وجہ سے کھال میں حرکت پیدا ہوتی ہو مثلا چہرے کی جلد پر تاثرات اسی سبب کی وجہ سے بنتے ہیں۔

غیرارادی عضلات

یہ براہ راست دماغ کے حکم پر کام نہیں کرتے اور اپنی حرکت میں خاصے خودمختار ہوتے ہیں اور ان کا کام خود بخور اور انسانی خواہش کے بغیر اور اس حصے کی ضروریات کے مطابق جہاں یہ موجود ہوں انجام پاتا ہے، اسی وجہ سے انکو غیرارادی عضلات (involuntary) کہا جاتا ہے۔ انکا خوردبینی مطالعہ کرنے انپر گہری اور ہلکی دھاریاں نظر نہیں آتیں جسکی وجہ سے انکو غیردھاری دار عضلات بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عضلات سانس کی نالیوں، خون کی نالیوں، معدہ، دل اور جسم کے دیگر حصوں میں پائے جاتے ہیں۔

سینے کا در

طب و حکمت میں سینے کا درد ایک علامت ہے نا کہ ایک مرض۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہوا کہ یہ سینے کے درد کی کیفیت مختلف امراض میں پیدا ہوسکتی ہے۔ سینے کا درد مرکزی (central) بھی ہوسکتا ہے اور جانبی (peripheral) بھی۔ جانبی ، طب میں ایسی وجوہات یا مقامات یا اعضاء کو کہا جاتا ہے کہ جو اس مقام پر موجود نا ہوں کہ جس کا ذکر کیا جارہا ہے بلکہ اسکے جانبین میں پائے جاتے ہوں۔
 1 قلبی وعائی وجوہات
 2 قلبی پھیپڑی وجوہات
 3 ڈھانچی و اعصابی وجوہات
 4 میانہ و پھیپڑی وجوہات
 5 نفسیاتی وجوہات
قلبی وعائی وجوہات

قلبی وعائی نظام (cardiovascular system) کی وجہ سے ہونے والا سینے کا درد فوری طور پر توجہ اور طبی امداد چاہتا ہے۔ اس قسم کے امراض جنکو قلبی وعائی نظام میں شمار کیا جاتا ہے اور جن میں سینے کا درد ایک علامت کے طور پر نمودار ہوتا ہے انکی چیدہ چیدہ فہرست یہ ہے۔

 خانِقہ (angina)
 احتشاء عضل قلب (myocardial infarction)
 تاجی متلازمۂ حاد (acute coronary syndrome)
 درد تامور (pericardial pain)
 اِلہتِاب تامور (pericarditis)
 اِنسِلاخ ابھر (aortic dissection)
 انصِمام پھیپڑی (pulmonary embolism)
قلبی پھیپڑی وجوہات

یہ وہ امراض یہ اسباب ہوتے ہیں کہ جن کا تعلق خاص طور پر قلب و پھیپڑوں سے ہوتا ہے، ایسے امراض کو قلبی پھیپڑی (cardiopulmonary) کہا جاتا ہے۔

 اِلہتِاب الریہ (pneumonia)
 ہوائی صدر (pneumothorax)
 دمی صدر (hemothorax)
 دمی ہوائی صدر (hemopneumothorax)
 توتری ہوائی صدر (tension pneumothorax)
 اِلہتِاب الجنب / جرسام (pleuritis / pleurisy)
ڈھانچی و اعصابی وجوہات

یہ سینے میں درد پیدا کرنے والی ایسی بیماریاں یا امراض ہیں کہ جنکا تعلق ریڑھ کی ہڈی ، ڈھانچے اور اعصاب سے ہوتا ہے۔

 قرص فقری انفتاق (herniated intervertebral disc)
 فصال استخوانی (osteoarthritis)
میانہ و پھیپڑی وجوہات

میانہ (mediastinum) اصل میں دونوں پھیپڑوں کے درمیانی جگہ کا نام ہے۔

 صمۂ جسیم (massive embolus)
 اِلہتِاب رغامی (tracheitis)
 عنادِ میانہ (mediastinal malignancy)
نفسیاتی وجوہات

نفسیاتی وجوہات ایسی وجوہات ہوتی ہیں کہ جن میں فی الحقیقت تو کوئی مرض موجود نہیں ہو مگر اسکے باوجود ماحولی پریشانیوں یا مریض کی نفسیاتی کیفیات کی وجہ سے اس شخص کو مرض کی علامات محسوس ہوتی ہوں۔

 تشویش (anxiety)

دہی کا باقاعدہ استعمال اچھی صحت اور درازی عمر کا سبب بنتا ہے

دہی کو عربی میں ”لبن“ فارسی میں ”ماست“ اور انگریزی میں یوگرٹ  کہتے ہیں ۔ صدیوں سے یہ انسانی خوراک کا حصہ رہا ہے ۔ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان بھی گائے‘ بکری‘ بھینس‘ اونٹ اور بھیڑ کے دودھ کو بطور غذا استعمال کیا کرتا تھا۔ ان کے مویشیوں کے دودھ کی مقدار کم ہوتی تھی اس لیے وہ اسے جانوروں کی کھالوں یا کھردرے مٹی کے برتنوں میں جمع کرلیتے تھے تاکہ بہ وقت ضرورت آسانی سے استعمال میں آجائے۔
شروع شروع میں اسے جانوروں سے حاصل کرنے کے بعد اسی طرح کچی حالت میں رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن کچے دودھ کو محفوظ حالت میں رکھنا‘ وہ بھی اس طرح کہ اس کی غذائیت بھی برقرار رہے ناممکن سی بات ثابت ہوئی۔ اس مسئلے کا حل اتفاقی طور پر دریافت ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنوب مغربی ایشیا کے وسیع علاقوں میں سفر کرنے والے ”نوماد“ قبیلے والے دودھ کی شکل میں اپنی رسد کو بھیڑ کی کھال سے بنے ہوئے تھیلے میں رکھا کرتے اور اسے اپنے جانوروں کی پیٹھ پر باندھ دیا کرتے تھے۔ ایام سفر میں وہ تھیلے مسلسل ہلتے رہتے اس پر سورج کی تپش بھی اپنا اثر دکھاتی رہتی۔ نتیجتاً ہ دودھ خمیر بن کر نیم ٹھوس شکل اختیار کرلیتا۔ وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ بھیڑ کی کھال کے اندرونی حصے میں چھپے ہوئے بیکٹریا نے دودھ کو خمیر کرکے دہی کی شکل دے دی ہے۔

ابتداء میں دودھ کی اس شکل کو بہت کم مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا کیوں کہ نو ماد قبیلے والے اسے زہریلا سمجھتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ دودھ کی یہ نئی شکل مضر صحت نہیں معجزاتی غذا ہے ۔ جب اس کی افادیت سامنے آئی تو اسے بنانے کا طریقہ دریافت کیا گیا۔ دودھ کو جمانے کے لیے انہوں نے اس میں تھوڑا سا دہی ملالیا ۔ اس تجربے نے کامیابی عطا کی اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کھٹا اور خمیر کیا ہوا دودھ تازہ دودھ سے بہت زیادہ فائدے مند ہے ۔ یہ نہ صرف زیادہ عرصے تک اچھی حالت میں رہتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی مزیدار ہوجاتا ہے۔

بلغاریہ کے لوگوں کی طبعی عمر دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سائنسدانوں نے مسلسل تجربوں اور تجزیہ کے بعد پتا چلایا کہ اس کی ایک وجہ دہی بھی ہے۔ وہاں کے لوگ دہی کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں۔

فرانس میں اسے ”حیات جاوداں“ کا نام دیا گیا ہے۔ 1700ء میں فرانس کا کنگ فرسٹ کسی بیماری میں ایسا مبتلا ہوا کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ سوکھ کا کانٹا ہوگیا تھا۔ نقاہت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ بیٹھنے کی قوت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے علاج کے لیے مشرق بعید کے ایک معالج کو بلایا گیا۔ اس نے بادشاہ کو صرف دہی کا استعمال کرایا اور کنگ فرسٹ صحت یاب ہوگیا۔

فرانس ہی کے ایک ماہر جراثیم پروفیسر میچسنٹکو لکھتے ہیں کہ دہی درازی عمر کی چابی ہے۔ اس کے استعمال سے نہ صرف انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ عمر بھی طویل پاتا ہے۔

Live longer look younger نامی کتاب میں مصنف نے اسے معجزاتی غذا کہا ہے۔

1908ءکے نوبل انعام یافتہ ایلی میٹ ٹنگوف وہ پہلا ماہر تھا جس نے برسوں کی تحقیق کے بعد اس کے خواص پر تحقیق کی اور بتایا کہ یہی وہ غذا ہے جو انسان کو طویل عمرگزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

آنتوں کے نظام کے اندر ایک خاص تعداد میں بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جنہیں فلورا کہا جاتا ہے۔ دہی فلورا کی پرورش میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ انٹی بایوٹک ادویات فلورا کو ختم کردیتی ہیں اسی لیے بعض ڈاکٹر صاحبان اینٹی بائیوٹک ادویات کے ساتھ دہی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دہی بیکٹیریا کے انفیکشن کو بھی روکتا ہے۔

غذائی ماہرین کے مطابق دہی میں پروٹین‘ کیلشیم اور وٹامن بی اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ البتہ آئرن اور وٹامن سی اس میں بالکل نہیں ہوتا۔ گائے کے دودھ کے مقابلے میں بھینس کے دودھ سے بنا ہوا دہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی پروٹین اور دوسرے غذائی اجزاءزیادہ پائے جاتے ہیں۔ دہی کے اوپر جو پانی ہوتا ہے اس میں وٹامن اورمنرلز وغیرہ اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہیں کیوں کہ وہ دودھ کا ہی پانی ہوتا ہے۔ جب دودھ جمتا ہے تو پانی اس کے اوپر آجاتا ہے جسے دہی میں ملالیا جاتا ہے۔

دہی نہ صرف کھانوں کو لذت بخشتا ہے بلکہ غذائیت بھی فراہم کرتا ہے۔ جسم کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف بہ آسانی ہضم ہوجاتا ہے بلکہ آنتوں کے نظام پر بھی خوشگوار اثر ڈالتا ہے۔ اسے صحت مند بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی اور حرارے انتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں۔ ایک کپ دہی کے اندر صرف 120حرارے (کلوریز) پائے جاتے ہیں۔ اتنی کم مقدار میں کلوریز کے حامل دہی میںایسے کئی اقسام کے غذائی اجزاءہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ مثلاً پروٹین‘ مکھن نکلے دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 8 گرام پروٹین ہوتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 7 گرام۔ دہی کی اتنی ہی مقدار میں (مکھن نکلے ہوئے دودھ سے بنائے گئے دہی میں) ایک ملی گرام آئرن‘ 294 ملی گرام کیلشیم‘ 270 گرام فاسفورس‘ 50 ملی گرام پوٹاشیم اور 19 ملی گرام سوڈیم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن اے (A) 170 انٹرنیشنل یونٹ۔ وٹامن بی (B) ایک ملی گرام۔ تھیا مین 44 ملی گرام۔ وٹامن بی (ریبوفلاوین) 2 ملی گرام اور وٹامن سی (ایسکور بک ایسڈ) بھی 2 ملی گرام پایا جاتا ہے۔

ڈائٹنگ کرنے اور وزن کرنے والوں کے لیے دہی ایک آئیڈیل خوراک ہے کیوں کہ اس کے اندر حراروں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے جس کی مقدار اوپر لکھی جاچکی ہے۔ مندرجہ بالا مقدار میں 13 گرام کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح چکنائی کی مقدار بھی بہت کم ہوتی ہے۔ دہی کے ایک کپ میں 4 گرام چکنائی پائی جاتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی میں یہ مقدار بڑھ کر 8 گرام ہوجاتی ہے۔

دہی میں ایک خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا ایک خاص درجہ حرارت پر رکھے جانے والے دودھ کے اندر بڑی تیزی سے پیدا ہوکر بڑھتے چلے جاتے اور دودھ کو نصف ٹھوس حالت میں لادیتے ہیں جسے دہی کہا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا بہت بڑی مقدار میں وٹامن بی مہیا کرتے ہیں جو آنتوں کے نظام کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دودھ کے کھٹا ہوتے ہی لیکٹوز خمیر ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک شفاف مایہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے جسے لیکٹک ایسڈ کہتے ہیں ۔ یہ نظام ہضم کو قوت فراہم کرنے کے علاوہ غذا کو ہضم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وزن کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ دہی کے بیکٹیریا کی زندگی کا انحصار لیکٹوز پر ہے۔ وہی اسے لیٹک ایسڈ میں تبدیل کرتی ہیں۔ لیکٹوز کی خاصیت ہے کہ وہ توانائی کی بڑی مقدار فراہم کرنے کے ساتھ آنتوں کی صحت کا بھی ضامن ہے۔

 

Read More

زیادہ پانی صحت کے لیے مفید نہیں

امریکی یونیورسٹی کے تحقیق کار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسان کی موت کے بعد بھی نہ تو اس کے ناخن اور بال بڑھتے ہیں اور نہ ہی ایک دن میں آٹھ گلاس پانی پینےسےصحت بہتر ہوتی ہے۔
امریکی یونیورسٹی انڈیانا میں تحقیق کارروں نےسات مختلف طبی وہمہ کے بارے میں ریسرچ کے بعد کہا کہ اس بات کا کوئی میڈیکل ثبوث نہیں ملا ہے کہ دن میں پانی کے آٹھ گلاس پینے سے صحت اچھی رہتی ہے۔
تحقیق کارروں نے کہا کہ ضرورت سے زیادہ پانی پینا صحت کے لیے اچھا نہیں ہے اورانسانی جسم چائے، کافی اور مشروبات سے پانی کی ضرورت پوری کر لیتا ہے۔

تحقیق کارروں نے کہا کہ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کے بال اور ناخن بڑھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انسان کی موت کے بعد جلد کے سکڑنےسے ناخن بڑے نظر آنے لگتے ہیں جس سے لوگوں نے یہ اخذ کر لیا کہ موت کے بھی انسان کے ناخن بڑھتے رہتے ہیں۔

تحقیق کارروں کا کہنا ہے کہ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا کہ بالوں کو سرے سے منڈوانے سے دوبارہ زیادہ گھنے اور کھردرے بال اگھتے ہیں۔

تحقیق کارروں نے کہا کہ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ کم روشنی میں پڑھنے سےانسانی کی بینائی پر کوئی فرق پڑھتا ہےاور نہ ہی ٹرکی کا گوشت کھانے سے انسان پر عنودگی چھا جاتی ہے۔

تحقیق کارروں نے کہا کہ یہ غلط ہے کہ ذہن کا صرف دس فیصد حصہ کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ذہن کے تمام حصے کام کرتے ہیں۔

معدے کی تیزابیت دور کرنے والی دوائیں ہڈیوں کے لیے نقصان دہ

معدے کی تیزابیت پر قابو پانے کےلیے جو دوائیں عام طور پر تجویز کی جاتی ہیں، اگر ان کو طویل عرصے تک استعمال کیا جائے تو اس سے ہڈیاں کمزور ہوسکتی ہیں۔

جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں پنسلوانیا یونیورسٹی کے ریسرچرز کی شائع شدہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں جن مریضوں نے “پروٹون پمپ انہی بیٹرز” دوائین ایک سال تک استعمال کی تھیں ان میں کولہے کے فریکچر کا امکان نمایاں طور پر بڑھا ہوا پایا گیا لہذا ڈاکٹروں کو اس قسم کی دوائیں تجویز کرتے وقت اس خطرے کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔

برطانیہ میں لاکھوں افراد معدے کی تیزابیت دور کرنے کے لیے “اومے پیرازول” قسم کی دوائیں استعمال کرتے ہیں جو براہ راست فارمیسی سے بھی خریدی جا سکتی ہیں جن کےلیے ڈاکٹری نسخے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے بھی اس ضمن میں تحقیق کی جا چکی ہے جس سے معلوم ہوا تھا کہ اس قسم کی دوائیں جسم کو کیلشیم جذب کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتی ہیں اور جسم میں کیلیشیم کا اتجذاب ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے ناگزیر ہے۔

افسردگی معاشی بوجھ بڑھاتی ہے

عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ صحت کے شعبہ میں دو ہزار تیس تک ڈپریشن یا افسردگی عالمی سطح پر سب سے زیادہ معاشی بوجھ کا سبب ہوسکتی ہے۔ تاہم جسمانی عوارض، مثلاً ایڈز، یا دل کے امراض کے مقابلے میں افسردگی اور دوسرے ذہنی امراض کے بارے میں اب بھی نہ تو زیادہ بات کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے علاج کے لیے زیادہ رقوم دستیاب ہیں۔
جو لوگ طویل عرصے تک افسردگی یا اداسی کا شکار رہے ہیں، وہ اس کیفیت کو تباہ کن قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں معمولات زندگی انجام دینا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس کیفیت کو ڈپریشن، شدید مایوسی، انتہائی اداسی یا غمگینی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

افسردگی کا شکار رہنے والے ایک شخص نے ذہنی امراض سے متعلق بی بی سی ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں بتایا کہ ’جب مجھ پر اداسی کا شدید دورہ پڑتا تو میں بالکل بستر سے لگ کر رہ جاتا اور کئی گھنٹے اسی حالت میں گزر جاتے۔ افسردگی بہت بری طرح سے متاثر کرتی ہے اور بعض اوقات یہ کیفیت کئی مہینوں تک جاری رہتی ہے۔

پروگرام میں شریک ایک عورت کا کہنا تھا: ’آپ کا جسم سستی کا شکار ہوجاتا ہے، آپ کا ذہن سست ہوجاتا ہے، آپ کا رویہ منفی ہوجاتا ہے۔ آپ کا دل کچھ کرنے کو نہیں کرتا، اور آپ کچھ کر بھی نہیں پاتے۔ بلا کی اداسی چھا جاتی ہے اور ہر کام ایک کوہ گراں بن جاتا ہے۔‘

تاہم ایک بات قابل غور ہے کہ شدید افسردگی اور عام افسردگی میں بڑا فرق ہے، مثلاً کبھی کبھار ہم سب ہی بوجھل اور غمگین محسوس کرتے ہیں۔ پروفیسر مارٹِن پرنس لندن کے کنگز کالج میں ذہنی امراض کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’یہ علامتیں بہت شدید ہوتی ہیں اور آپ ان کا عادی ہونے لگتے ہیں ۔۔۔ گویا سارا دن اسی کیفیت میں گزار دیتے ہیں، ہر روز یہ کیفیت طاری رہتی ہے اور پھر یہ کئی ہفتوں اور بعض اوقات کئی مہینوں پر محیط ہوجاتی ہے۔ بعض لوگوں کو تو یہ بالکل ناکارہ کر دیتی ہے اور انہیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑتا ہے جہاں انہیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان علامتوں کی شدت کے مختلف درجات ہیں: یعنی عارضی علامتوں سے لے کر مستقل شدید بیماری تک۔‘

افسردگی ایک ایسی بیماری ہے جو کسی بھی شخص کو عملی طور پر معذور بنا دیتی ہے اور کبھی کبھار تو ایسا شخص معاشرتی طور پر بالکل ناکارہ بن جاتا ہے۔ یہ مریض کو معاشی اور معاشرتی طور پر اپنا کردار ادا کرنے سے روک دیتی ہے۔ مثلاً افسردگی کا دورہ پڑنے پر اگر کوئی اپنا پیشہ ورانہ کام ٹھیک طور پر نہ کرسکے تو بالآخر اس کی نوکری جانے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا

دماغی امراض سے متعلق ایک ادارے، سین SANE کی سربراہ مارجری والیس کاکہنا ہے: ’افسردگی کے شکار شخص کی طبیعت گرتی چلے جائے گی، صبح اٹھنا دوبھر ہوجائے گا اور ممکن ہے کہ ملازمت پر جاکر وہ کام کا دباؤ بھی نہ سہہ سکے۔ اس کے بعد ایک چکر سا شروع ہوجائے گا، مریض کی حالت ابتر ہوتی چلی جائے گا وہ اپنا خیال نہیں رکھ سکے گا۔ اس مریض کی کیفیت اُس شخص سے مختلف ہے کہ جو چند روز بیمار رہنے کے بعد ٹھیک ہوجائے اور اپنا کام کرنے لگے۔ ایسے مریض کی حالت تو بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ کنگال ہو جاتا ہے، اس کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے اور پھر وہ معاشرے کے لیے بوجھ بن جاتا ہے۔‘

مگر جسمانی بیماریوں کے مقابلے میں افسردگی یا دیگر ذہنی حالتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ مثلاً ترقی افتہ ملکوں میں ایک چوتھائی امراض ذہنی ہوتے ہیں۔ مگر صحت کے بجٹ کا صرف آٹھ یا نو فی صد ذہنی امراض کے علاج پر خرچ ہوتا ہے۔ جبکہ ترقی پذیر ملکوں میں صورتحال کہیں زیادہ خراب ہے۔ لنکاسٹر یونیورسٹی کے کیری کُوپر کا کہنا ہے کہ غریب ملکوں میں تو یہ مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر توجہ چاہتا ہے۔

 

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے یہ بیان جاری کیا ہے

یہ خبر بہت بھرپور انداز میں اچھالی گئی کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ ہومیوپیتھی طریقہ علاج کے بارے میں کوئی ایسے سائنسی شواہد موجود نہیں کہ ہومیو ادویا ت سے کسی بھی قسم کی بیماریوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے
اس لئے ایشیا کے پسماندہ ممالک جہاں یہ طریقہ علاج تیزی سے فروغ پا رہا ہے ، کو انتباہ کیا جا تا ہے کہ ہومیو پیتھک ادویات سے اسہال، ملیریا، ٹی بی ، اور ایڈز کو کنٹرول کرنے کے لئے ہومیو ادویات کے بجائے صرف روائتی طریقہ علاج
ایلوپیتھی پر انحصار کیا جائے
اس سلسلے میں جب حقیقت حال جاننے کیلئے ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹhttp://www.who.in کو وزٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ڈبلیوایچ او نے سرکاری سطح پر ایسا کوئی بیان ہی جاری نہیں کیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایک آرگنائزیشن وائس آف ینگ سائنس نیٹ ورک ویب سائٹ Sense About Science جوکہ ہومیوپیتھی کے خلاف مبینہ طور پرباقاعدہ فنڈڈ پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔ نے ڈبلیو ایچ او اور انگلینڈ کے وزیر صحت کو خط لکھا کہ وائس آف ینگ سائنس نیٹ ورک کے نمائندگان ایلوپیتھک ڈاکٹر ایلزبتھ ، ڈاکٹر ماریو، ڈاکٹر موکنڈ اور ڈاکٹر ٹی گیسٹ جو کہ ڈبلیو ایچ او کے بھی افریقہ مین نمائندگان ہیں نے یہ معلوم کیا ہے کہ ہومیو پیتھی ایک پلاسبو طریقہ علاج ہے اور اس سے خطرناک بیماریوں مثلا اسہال، ملیریا، ٹی بی، اور ایڈز کا علاج خطرے سے خالی نہیں۔ انگلینڈ کے وزیر صحت نے تو اس ہزرہ سرائی کا جواب تک دینا منا سب نہیں سمجھا مگر اس کے جواب مین ڈبلیو ایچ او کی انسانی تحفظ ، ماحولیات کی ڈائریکٹر جنرل مارگریٹ چن، جن کا تعلق ہانگ کانگ سے ہے ، کے دفتر سے کسی نے یہ کہ دیا کہ ڈبلیو ایچ او کے نمائندگا ن کی رائے ، ڈبلیوایچ او کی رائے ہو تی ہے۔
اس سراسر غلط بیانی پر ، وائس آف ینگ سائنس نیٹ ورک نے ڈبلیو ایچ او کے سرکاری بیان official statement کے طورپر میڈیا کو جاری کر دیا۔
چونکہ بگ مافیا ہومیوپیتھی جیسے سستے طریقہ علاج کے خلاف ہے۔ لہذا اس خبر کو نمایاں کوریج دلوائی گئی اور یہ بیان
یورپ، امریکہ اور بی بی سی اور پاکستان میں اے پی پی کے حوالے سے چھپا ۔
یہاں یہ امر قابل غو ر ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی ڈائریکٹر چن، نے اصل میں ہوم اکنامکس میں گریجویشن کی ہے اور ہو ہومیو پیتھی طریقہ علاج کی ابجد سے بھی واقف نہیں
یہی صورت حال وائس آف ینگ سائنس نیٹ ورک کے ممبران کی ہے۔ نہ ہی انہوں نےٹرائل کیلئے کوئی ہومیو پیتھی کے ماہرین کا کوئی گروپ تشکیل دیا گیا۔
یہ سب صر ف ایک پروپیگنڈہ کے علاوہ کچھ نہیں

ہومیوپیتھی پر انحصار صحیح نہیں ہے

عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ایچ آئی وی،تپِ دق اور ملیریا جیسی بیماریوں کا شکار افراد کو علاج کے لیے ہومیوپیتھی پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔عالمی ادارۂ صحت کے ماہرینِ تپِ دق کا کہنا ہے کہ ہومیوپیتھی میں اس بیماری کا کوئی ’علاج‘ نہیں ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے شعبۂ ٹی بی کے سربراہ ڈاکٹر ماریو رویگلون کے مطابق’تپِ دق کے علاج کے لیے عالمی ادارۂ صحت کے رہنما اصولوں اور اس مرض میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال کے بین الاقوامی معیار کے مطابق ہم ہومیوپیتھی طریقۃ علاج کی سفارش نہیں کر سکتے‘۔
رطانوی ماہرِ طب ڈاکٹر رابرٹ ہنگن کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے ہومیوپیتھی کی ترویج کے خطرات کو پہچانیں‘۔ ڈاکٹروں نے اس امر پر بھی خدشات ظاہر کیے ہیں کہ ہومیوپیتھی کو بچوں میں اسہال کے علاج کے طور پر بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ تاہم اس مرض کے حوالے سے عالمی ادارۂ صحت کے مرکز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں آج تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اس سلسلے میں ہومیوپیتھی سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے‘۔

 

طب اسلامی -اپنے عہد سے ہزار سال آگے

اشاعت دین اور فروغ اسلام کے نہایت کم مدت میں مسلمانوں نے دنیا کے بیشتر ممالک کو نہ صرف فتح کرلیا بلکہ یورپی ممالک کے سرحدوں پربھی دستک دینے لگے ۔خلافت اول و دوم کے عہد میں اسلامی حکومت نے مقبوضہ ممالک کی ترقی نشو ونما و فروغ کا کام کیا بلکہ دنیا کے تمام علوم میں ایسی دست رس بہم پہنچائی کہ آج بھی دنیا ان کی ایجادات ،اختراع ،تحقیق اور تفتیشی کاموں سے فیض حاصل کررہی ہے ۔یہ وہ دور تھا جب مسلم علماءفقیہ ،سائنسداں،موجد ،ماہر طبیعات ،ماہر کیمیا اور طبیب حکمت میں نئی نئی ایجادات سے دنیا کو روشناس کرارہے تھے ۔یہی وہ دور تھا جب پوری یورپ جہالت اور لاعلمی کی سیاہ چادہ اوڑھے خواب غفلت میں تھا۔
۹ ویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی حکومت میں بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا دنیا میں علم و دانش ،تجربہ و ایجاد ،اختراع ،تدوین ،تفتیش اور اعلی تعلیم کے لئے مشہور مقامات تھے جہاں سارے عالم اسلام سے طالب علم علم و ہنر کے حصول کے لئے یکجا ہورہے تھے ۔مسلمانوں کے خلیفہ کے زیر سر پرستی دنیا کے سارے علوم پر تحقیق و تفتیش کا کام جاری تھا۔ایجادات ،تجربات اور نئی نئی چیزوں کا اختراع ہو رہا تھا۔آج سے ہزار برس پہلے ان مقامات پر طب نے عملی طورپر وہ مقام حاصل کیا تھا جس کی آج کچھ نقالی کرکےے امریکہ مہذب اور ترقی یا فتہ ممالک میں سرفہرست ہے۔

اسلامی طبی علوم طلسمان اور دینی حدود سے باہر نکل کر سائنٹفک ریسرچ جدید ترین نظام اور اصولوں کو اختیار کررہے تھے۔ان طبی اداروں میں طب کی وہ جدید ترین سہولتیں فراہم کی گئی تھی جو آج کے سائنسی دور میں نہایت ترقی یا فتہ ممالک میں جذباتی طورپر اختیار کی گئی۔اعلی معیار کے اسپتالوں کی تعمیر ،کھلے روشن اور ہوا دار کمرے ،بڑے بڑے ہال،مختلف شعبوں میں ان کی تقسیم ،باہری مریضوں اور اندرونی مریضوں کے لئے ایک جدا نظام ،عورتوں کے لئے دواسازی کا الگ شعبہ ،تحقیق و تفتیش ،عرق سازی ،کثید و تقاطیر کے عمل کے لئے الگ شعبہ کا ہونا،جڑی بوٹیوں کے لئے بوٹانیکل گارڈن ،مریضوں کا ریکارڈ رکھنا،کیفیتوں کا اندراج اور خصوصی طورپر جراحی ،عمل جراحی ،اس کے آلات کی ایجاد اور مرہم سازی ودیگر بہت سارے نظام ایسے تھے جو مکمل طورپر دنیا کے کسی بھی ملک میں ان دنوں نہیں پائے جاتے ۔یہ بات حیر انگیز نہیں کہ جراحی ،علاج ،طب ،کیمیاگری،علم الابدان،نفسیاتی علاج،جسمانی امراض ،وائرس کی بیماریاں ،ان کا علاج ،کیشر،گیگرین ،وارم انخاع(مین جائی ٹیز)ٹی بی ،گردہ کی پتھری کا آپریشن ،آنکھ کے موتیا بند ،جالہ ،ماڑا و دیگر قسم کے آپریشنن وعلاج ان دنوں نہایت آسانی سے کئے جارہے تھے۔

جب پورا یورپ خصوصی طور پر لندن اور پیرس دھول اور کیچڑوں کا ڈھیر تھا تب بغداد،قاہرہ اور کارڈوبا کے اسپتالوں میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ انتظام تھا۔بخار کے مریضوںکو ایسے کمروں میں رکھا جاتا جہاں جھرنوں اور فواروں سے ٹکر اکر سرد ہوا آتی ۔پاگلوں اور ذہنی و نفسیاتی امراض کے لئے شعبے جدا تھے۔مریضوں کو سکون کی خاطر کہا نیاں سنائی جاتی اور ہلکی موسیقی سے سکون فراہم کیا جاتا۔مریضوں کو اسپتال سے رخصت کے وقت رائج 5اشرفیاں دی جاتی ۔عورت نرس اور مرد تیمار دار مریضوں کی دیکھ ریکھ کے لئے ہوتے ۔ان اسپتالوں میں لائبریری ،کیمیا گری،دواسازی،تحقیق و تفتیش کے کام بھی کئے جاتے۔اسی زمانہ میں دیہی علاقوں میں علاج کے لئے اور معذور لوگوں کے علاج کے لئے سواری گاڑیوں پر متحرک اسپتالوں کا نظم تھا۔دواسازی کے اعلی معیار کے تحقیق کے لئے(ڈرگ کنٹرول)تفتیش کار (انسپیکٹر)مقرر کئے گئے تھے۔دواسازی (عطار)کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے لائسنس دیاجاتا تھا۔طب کی تعلیم میں بھی مسلمانوں نے بیکٹیر یا لاجی،میڈیسن،اینتھیسیا سرجری،فارمیسی،روپ تھامولوجی،سائیکوتھیراپی،سائیکو سوماٹک جیسے امراض کی نہ صرف شناخت کی بلکہ ان کا علاج بھی کیا اور ان شعبوں کو ترقی کے بام عروج پر پہنچادیا۔

اسلامی حکومت حضور کے وصا ل کے صرف 80سال کے بعد مغرب میں اٹلاسٹک روشن سے مشرق میں چین تک پھیل چکا تھا۔اسپین میں اس نے 700سال تک حکومت کی ۔منگلولوں کے بربری قبضہ کے بعد بغداد کو (1258)میں جلاکر تمام کارناموں کو ختم کردیا گیا ۔اس طرح اسپین کی تہذیبی وراثت کو ڈھاکر ختم کردیا گیا۔لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی حکومتوں نے 1000ہزار سال تک دنیا کے نہایت ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کی حیثیت سے حکومت کی ۔اسی زمانہ میں یونانی طب حکمت و دیگر کتابوں کو یونانی سے عربی میں ترجمہ کیاگیا اور 10ویں صدی میں یہ کام دمشق ،قاہرہ اور بغداد میں بڑے پیمانہ پر کیاگیا اور اس طرح بغداد سائنسی علمی تحقیقی شہر کے حیثیت سے سارے دنیا میں نمایاں ہوکر ابھرا۔اسلامی ادویہ و طریقہ علاج اسلامی تہذیب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جو مسلم سائنسدانوں کا عظیم کارنامہ ہے اور آج بھی پورا یورپ ان کے علم سے فائدہ اٹھا رہاہے۔ کیمپ بل نے بہت اچھی بات کہی ”یورپین میڈیکل سسٹم بنیادی طورپر عربی ہے ۔عرب سائنسداں یورپین کے بہت قبل ذہین ترین لوگ رہے ہیں“۔

636ADمیں فارس کے شہر میں جندی شاپور میں مسلمانوں نے بڑ ی بڑی یونیورسٹی قائم کی تھی ۔جس میں اسپتال بھی شامل تھے۔بعد کے تمام اسلامی طبی کالج اسی بنیاد پر قائم کئے گئے ۔یہاں میڈیکل تعلیم نہایت اعلی درجہ کی اور سلسلہ وار تھی۔یہاں لیکچر اور تعلیم عملی طورپر ساتھ ساتھ دی جاتی ۔علی ابن العباس (494AD)کی یہ بات طالب علموں کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے ۔انہوں نے میڈیکل طلبا سے کہا کہ انہیں مستقل طورپر اسپتال اور مریض گھروں میں جانا چاہئے ۔مریضوں کا خاص خیال رکھیں ۔ان کی کیفیت اور حالات کا جائزہ لیتے رہےں ۔مریضوں سے ان کے حالات دریافت کریں اور کیفیتوں کا علم حاصل کریں اور مقابلاتی جائزہ لیں کہ انہوں نے کیا سمجھا تھا اور حالات کیا ہیں۔رازی(841-926)نے طلباسے کہا کہ مریضوں کے کیفیت اور مرض جو انہوں نے پایا اس کے مابین فرق کا اندازہ لگائیں۔اس زمانہ میں رازی ۔ابن سینا(890-1037)اور ابن زہر(116AD)اسپتال کے نہ صرف ڈائریکٹر س تھے بلکہ میڈیکل کالج کے ڈین کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔مریضوں کی معالجاتی رپورٹ لکھی جاتی اور طلبا کو عملی تعلیم دی جاتی ،اس کے لئے رجسٹر مین ٹین کیا جاتا۔اس زمانہ میں صرف جندی میں بنیا دی سائنس کی تعلیم کے کئی جدا ادارے تھے۔بغداد میں لنگور کے جسم کی تشریح کے ذریعہ علم الابدان کی تعلیم دی جارہی تھی۔علقمی کے تجرباتی کتابوں کا مطالعہ جڑی بوٹیوں ان کے خواص کے لئے اور دواسازی کے لئے لازمی تھا۔بہت سارے اسپتالوں میں جڑی بوٹیوں کے لئے پودے اگانے کاانتظام تھا۔اس سے طلبا کو شناخت کرانا اور مریضوں کے لئے دواتیار کرنا مقصود تھا۔اس ابتدائی تعلیم کے بعد میڈیکل کے طلبا کو تجربوں کے لئے اسپتالوں میں لے جایا جاتا تھا۔یہ طلبا ایک نوجوان طبیب کے ساتھ ایک جماعت کی شکل میں اسپتال کے ابتدائی اصول و ضوابط سیکھتے اور کتابوں و لائبریری لیکچر اور دستاویزوں سے فیض حاصل کرتے ۔اس ابتدائی مرحلہ میں زیادہ تر تعلیم دواسازی ،اس کا متبادل اور ٹوکسی کولوجی کے متعلق کی جاتی تھی۔
طبی تربیت:

اس تعلیمی دور میں طلبا کو چھوٹے جماعتوں میں تقسیم کرکے نہایت تجربہ کار معالج اور طبیب کے ساتھ رکھا جاتا جہاں ان کے ساتھھ یہ وارڈ کا دورہ کرنا،مباحثہ ،تقریر اور جائزہ لینا سیکھتے ،انہیں تھیرا پیوٹکس اور پیتھولوجی کی تعلیم اس دوران دی جاتی ۔جیسے جیسے طلبا کے اندر تعلیمی صلاحیت میں اضا فہ ہوتاجاتا ہے،انہیں مرض کی تشخیص اور فیصلہ لینے کی اجازت دی جاتی ۔مرض کا مشاہدہ اور جسمانی جانچ پر زور دیا جاتا ۔مریض کی حالت ،فضلہ،درد کا مقام اور فطرت ،سوجن اور جسمانی ساخت ،جلد کی رنگت ،احساس ،سرد گرم،نم خشک جلد کی حالت ،تھلتھلا بدن ،زردسفید آنکھیں (یرقان)پشت کے بل جھک سکتا ہے یا نہیں (پھیپھڑوں کا مرض)ان باتوں پر بھی دھیان دیا جاتا۔وارڈ کی عملی تعلیم و تربیت کے بعد طلبا کو باہری مریضوں کو دیکھنے یعنی ان کے علاج کے لئے آﺅٹ وارڈ میں کردیاجاتا ۔یہ تشخیص کی رپورٹ اپنے معلم کو دیتے ۔بحث کے بعد دوا تجویز کی جاتی ۔مریض زیادہ خطرناک حالت میں ہوتا تو اسے داخل کرلیا جاتا ۔ہرایک مریض کا جدا ریکارڈ رکھا جاتا۔
تعلیمی نصاب :

ہر ایک میڈیکل اسکول میںنصاب تعلیم جدا جدا تھا۔مرض کی علالت پر اور اس کی شناخت پر زور دیا جاتا۔ابن سینا نے سب سے پہلے دماغی نخاع یعنی مین جائیٹیز کی شناخت کی ۔اس کے قبل اسے انفیکشن اور دماغی بیماری (نفسیاتی)سمجھا جاتا تھا۔ابن سینا نے اس بیماری کی علالت اور کیفیت اتنی وضاحت سے کی ہے کہ آج ہزار سال کزرنے کے بعد بھی اس میں کوئی رد وبدل نہیں ہوا ہے۔نصاب میں سرجری کو بھی شامل کیا گیا تھا۔طلبا تحصیل علم طب کے بعد کچھ ماہرین کے زیر نگرانی علم جراحی کا تجربہ حاصل کرتے ۔کچھ طلبا حفظان صحت کے امور میں مہارت حاصل کرتے ۔بہت سارے جراحی کے عمل جیسے ختنہ ،ویری کوس رگوں کی سرجری اور ہیمیر ی ہائڈ کا عمل سیکھتے ۔ارتھو پیڈکس کی تعلیم عام تھی۔ہڈی کے ٹوٹنے اور اس کے جوڑنے کے عمل کے لئے پلاسٹر آف پیرس کا استعمال شروع کردیا گیاتھا۔اس عمل کو 1852میں یورپ میں پھر سے عمل میں لایا گیا۔آنکھوں کے موتیا بند کا آپریشن عام تھا۔بچوں کی پیدائش کا معاملہ مڈ وائیوز کے حوالے تھا۔ابن سینا اور رازی نے سائیکوتھیراپی کی پریکٹس کی ۔طب کی تعلیم و تربیت کے بعد پریکٹس کرنے کے لئے لائسنس کی ضرورت لازمی تھی۔اس کے لئے ایک امتحان میں کامیاب ہونا لازمی تھا۔ایک سائنٹفک ایسوسی ایشن مسایہ فریقین اسپتال میں قائم کیا گیا تھا۔جہاں مریضوں کے بیماری اور حالات پر تبادلہ خیال ہوتا۔

931ADمیں ایک مریض کے انتقال ہونے کے بعد خلیفہ المقتدر نے اپنے خصوصی شاہی حکیم سفیان بن ثابت بن قرہ کو اس بات کے لئے تعینات کیا کہ وہ تمام معالجوں کا امتحان لیں اور مریضوں کو شفایاب کرنے کی صلاحیت کی جانچ کرکےے انہیںلائسنس دیں۔صرف بغداد میں حکمت کرنے والے 860حکیموں کی اسی کے بعد تمام اسپتالوں میں لائسنس تجویز کرنے والے ایک بورڈ کی تشکیل کی گئی ۔محتسب جو انسپیکٹر جنرل ہوتاتھا وہ اس کا سربراہ ہوتا۔یہ دوائیوں کے وزن اور ان کے معیار کی جانچ بھی کرتا (Drug Inspecto)فرماسسٹ انسپیکٹر مقرر کئے گئے۔جو آج کے امریکہ میں فوڈ ایند ڈرگ ایڈ منسٹریشن کا (FDA)کام ہے۔یہ اسلامی مملکت میں ہزار سال قبل کیا گیا تھا۔اسی طرح مغرب میں اسلامی حکومت کے ہزار سال کے بعد میڈیکل پریکٹس کرنے والوں کو لائسنس دینے کا نظم کیا گیا اور امریکہ میں امریکن بورڈ آف میڈیکل اسپیشل لیٹیز اسی نہج پر قائم کیا گیاہے۔جہاں میڈیسن ،سرجری ،ریڈیولوجی ،وغیر ہ کے ایپشیلیٹی کا طریقہ رائج ہے ۔اس کے باوجود یہ اسلامی طریقہ سے تحصیل کردہ ہے ۔آج بھی ابن سینا کی طب پر مستند کتاب ”قانون “کو پڑھے بغیر میڈیکل تعلیم مکمل نہیں۔
اسپتال :

اسلامی مملکت میں اسپتالوں نے کافی عروج حاصل کیا تھا۔یہاں مفت علاج کی سہولت تھی۔یہ حکومت کے زیر نگرانی چلاکرتے تھے ۔ان اسپتالوں میں مرد اور خواتین کے لئے وارڈ علیحدہ تھے۔ہرایک وارڈ میں خواتین نرس اور خدمتگا ر مر د عورت تیمار داری کے لئے موجود ہوتے تھے۔بخار ،زخمم ،انفیکشنن،مائنیا،آنکھ کی بیماریاں ،سردی سے ہونے والے امراض،ڈائریا،خواتین کی پیچیدہ ایامی بیماریاں و زچہ تمام وارڈ جدا جدا تھے۔صحتیاب ہورہے مریضوں کے لئے وارڈ بالکل جدا تھا۔مریضوں کو تازہ ہوا اور تازہ پانی مہیا کرایا گیاتھا۔ان اسپتالوں میں اسپتال کی دیکھ ریکھ کی تربیت میڈیکل طلبا کو وہاں رکھ کر (بورڈنگ کا نظام )کیاجاتا۔اسپتالوں میں کانفرنس ہال ہوتے ،قیمتی لائبریریاں ہوتیں جہا ں جدید ترین کتابیں موجود ہوتیں ۔حددرار کے مطابق تولم اسپتال جو قاہرہ میں 872 میں قائم کیاگیا تھا وہاں کی لائبریری میں ایک لاکھ کتابیں تھیں(آج سے ہزار سال قبل)یونیورسٹی اور اسپتالوں کی لائبریریاں بہت بڑی ہوتی تھیں ۔جیسے بغداد میں مستنصریہ یونیورسٹی کی لائبریری میں کتابوںکی 80ہزار جلد یں تھیں ۔کارڈوبا کی لائبریری میں چھ لاکھ کتابیں تھیں۔قاہرہ کی لائبریری میں دولاکھ کتابیں اور تریبولی کی لائبریری میں تین لاکھ کتابیں موجود تھیں۔اس کے علاوہ ہرایک حکیمم اور طبیب کے پاس نجی کتابوں کے بڑے ذخیرے موجود تھے۔یہ حالات اس زمانہ میںتھے جب چھا پہ خانہ نہیں تھے اور کتابیں نہایت کاوش محنت اور مشقت سے ہاتھوں سے تحریر کئے جاتے تھے۔

دنیا کی تاریخ میں اسپتالوں کے مریضوں کا ریکارڈ رکھنے کا طریقہ ان اسپتالوں نے رائج کیا ۔باہری اور داخلی مریضوں میں طریقہ علاج میں کوئی تفریق نہیںتھا۔تل تلونی اسپتال میں جن مریضوں کو بھر تی کیا جاتا اسپتال انہیںاپنا لباس مہیا کراتا اور وقت رخصت انہیں ان کا لباس اور قیمتی سامان پانچ سونے کی اضافی اشرفیون کے ساتھ دیتا۔تاکہ وہ کچھ دنو خود کفل رہ سکے ۔دمشق میںکوڑھ کے مریضوں کے لئے ایک شفاخانہ قائم تھا جب کہ اس کے چھ صدی بعد بھی یورپ میں کوڑھ کے مریضوں کو شاہی حکم پر زندہ جلادیا جاتا تھا۔تیونس کے قیروان کے اسپتال میں (830AD)ہرایک مرض کے وارڈ علیحدہ تھے۔انتطار گاہ اور نرس جو سوڈان سے تعلق رکھتی تھیں (عربی تاریخ کا یہ اول قدم ہے جس نے عورتوں کے بطور نرس باضابطہ طورپر اس پیشہ میں روشناس کرایا )ان اسپتالوں میں عبادت کے لئے بھی سہولتیں موجود تھیں۔بغداد کا العدودی اسپتال(981AD)بہترین آلہ جات اور نظم کے لئے مشہور تھا۔یہاں طلباکے رہائش اور انٹرنل شپ کاانتظام تھا۔۴۲معالج علاج معالجہ میںمشغول تھے۔عباسی خلافت کے ایک وزیرعلی ابن سینا نے سب سے پہلے قیدیوںکے علاج کے لئے حکیموںکو وزٹ کرنے کی تلقین کی۔اس دور تک یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوباہواتھا۔جب کہ بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا اعلی قسم کے اسپتال اعلی ترین طبی تعلیم اور طب کے میدان میںانتہائی وسعتوںپرتھا۔یہاں وہ کارنامے انجام دئے گئے جو آج ہزارسال کے بعدبھی انتہائی جدید ہیں۔ان اسپتالوں میںانسانی ہمدردی کا بول بالا تھا۔ذہنی دماغی مریضوںکاعلاج نہایت محبت اور ہمدردی سے کیا جاتا ۔مریضوںکے آرام کا ہر ممکن خیال رکھاجاتا۔

اسپتالوں کو بیمارستان کے نام سے دوحصوںمیں تقسیم کیاگیا۔ایک تو بڑی عمارتوں میںقائم تھا ۔دوسرا متحرک اسپتال سواری کو جانوروںکے ذریعہ کھینچا جاتا تھا جس کے ذریعہ دور دراز کے دیہی علاقوںکے مریضوں کا علاج کیا جاتا جو چلنے پھرنے سے معذور تھے یا شدید بیمار ۔اسی قسم کے متحرک اسپتال فوج میں استعمال کئے جاتے ۔اس میں خیمہ روزار ،الاجات نرس ،اردلی اور ڈاکٹرس کی پوری ٹیم ہوتی ۔یہ وبا پھیل جانے کی صورت میں اور دوردراز علاقوں میں علاج کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔
طب میں بیکٹیریا کی شناخت :

رازی نے بغداد میں اپنے قیام کے دوران بادشاہ کے حکم کے مطابق اسپتال کے لئے پرفضا مقام تلاش کرنے کے لئے سائنٹفک طریقہ اختیار کیا ۔انہوں نے گوشت کے بڑے بڑے ٹکرے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹانگ دئےے۔دوتین دنوں کے بعد جس علاقہ کا گوشت سب سے کم خراب ہوا تھا اس علاقہ کو کم بیکٹیریا والا علاقہ قرار دے کر انہوں نے وہاں اسپتال قائم کئے۔ابن سینا نے سب سے پہلے بتایا کہ جسم سے نکلنے والی رطوبت زمین سے پیداہونے والی جراثیم سے متاثر ہوکر زہریلے مادے تیار کرتی ہےں۔ابن خطیمہ نے بتایا کہ انسان جراثیم سے ہروقت گھراہواہے اور یہ انسانی جسم میں داخل ہوکر انسان کو مریض بنادیتی ہیں۔۴۱ویں صدی کے وسط میں بلیک جسے کالی موت کے نام سے یاد کیا جاتاہے خدائی عتا ب کے طرح یورپ میں پھیلا ۔اس وقت میں ابن الخطیب (گراناڈا)نے جراثیم کے لئے کچھ مقامات کا تعین کیا اور کہا کہ اس کا ماخذاتحقیق و تفتیش و ثبوت و شواہد ہیں۔مریضوں کے جراثیم سے بیمار ہونے والے لو گ اس کا ثبوت ہیں۔جب کہ دور رہنے والے افراد محفوظ رہتے ہیں۔یہ جراثیم کپڑوں سے برتنوں سے اور ہوا سے منتقل ہوتے ہیں۔رازی نے چیچک کے متعلق سب سے پہلے تفصیل لکھی اور دو چیچک کا فرق و ان کا علاج تجویز کیا۔ابن سینا نے ٹی بی کے جراثیم کے منتقل ہونے کا نظریہ پیش کیا ۔انہوں نے سب سے پہلے زخموں کے علاج کے لئے شراب کا استعمال کیا ۔رازی نے زخموں کے لئے ریشمی ستور اور ہیمو اسٹیٹس کے لئے الکوحل کا استعمال کیا ۔اور اسے اینٹی ہیپٹک قرار دیا ۔
اینتھیسیا:

ابن سینا نے سب سے پہلے اینتھیسیا کو دوا کے طورپر استعمال کیا۔اور افیم کو طاقتور مخاضر (نشہ آور دوا)کے طورپر پیش کیا ۔اس سے کم طاقت کے نشہ کے لئے مینڈراگورا،پوستہ،ہیملوک،بھانگ،بیلا ڈونا،لیٹیوس سیڈ ،سرد پانی یا برف کا استعمال کیا جاتا ۔عرب طبیبوں نے سپوروفک اسپانچی کا استعمال سب سے پہلے کیا جو موجودہ اینتھیسیا کی ابتدائی شکل تھی۔اس پر ایرومیٹکس اور نارکوٹکس ڈال کر مریضوں کو سونگھایا جاتاتھا۔دراصل اس کا استعمال سرجری کی بڑھتی ہوئی قدروں کے تحت ترقی پذیر تھا۔اس زمانہ میں جب اسلامی ممالک سرجری کو ایک جدید ترین سائنس بتارہے تھے ،یورپ میں نشتر زنی کا کام حجام اور نیم حکیم کررہے تھے۔برٹن نے لکھا ہے کہ سرجری کے لئے اینتھیسیا کا استعمال مشرق میں صدیوں سے ہورہا تھا۔بہت بعد میں مغرب نے ایتھر اور کلوروفورم کا استعمال شروع کیا۔
سرجری :

رازی اول سائنس داں طبیب اور سرجنن ہے جس نے سرجری کے سیتور (وہ دھاگہ جسے جسم پر آپریشن کے بعد سلائی کی جاتی ہے)کی جگہ سیٹون اور تانت کا استعمال کیا ۔ابوالقاسم خلف بن عباس الزہراوی(930-1013AD)کو دنیا ئے اسلام کا اول موجد تسلیم کیا جاتا ہے جس نے 200سے زائد نشترزنی کے آلات ایجاد کئے ۔وہ خود بہت بڑے سرجن تھے ۔اپنی کتاب ’التصریف ‘میں میڈیکل کی تاریخ میں اول شخص کی حیثیت سے انہوں نے ہیموفیلیا کا تذکرہ کیا۔اسی کتا ب میں آلات جراحی کے استعمال کی وضاحت بھی کی ۔اس کتاب میں سرجری کے لئے علم الابدان (اناٹومی)کی تعلیم کو انہوں نے لازمی قرار دیا ۔ہمبرج سیلان خون کے لئے سب سے انہوں نے روئی کا استعما ل کیا جو ہڈی ٹوٹنے ،دانت نکالنے کے بعد اور پردہ¿ بکارت کے آپریشن یا زیادہ خون آنے کی صورت میں استعمال کیا گیا اور سب سے پہلی بار استعمال کیا گیا۔سرجری میں زہراوی نے گردہ کی پتھری نکالنے کے لئے پیشاب کے بلاڈر کے پاس آپریشن کرنے کی راہ دکھائی اور عورتوں کے لئے آپریشن کا مقا م لیتھو ٹومی کے پاس بتا یا ۔ویری کوس وینس کو بند کرنے کے لئے ان کی تفصیل آج بھی جدید تر سرجری معلوم ہوتی ہے۔ارتھو پیڈکس کے آپریشن کو انہوں نے رائج کیا۔ابن سینا کا کینسر کے لئے آپریشن کرنے کا اصول آج ہزار سال کے بعد بھی اتنا ہی اہم ہے ۔اسلامی سرجنوں نے تین طرح کی سرجری کو رائج کیا اور فروغ بھی دیا۔وسکولر ،جنرل اور ارتھوپیڈک۔پیٹ کا آپریشن عام تھا ۔آنکھوں کے تمام آپریشن کھلے عام با ٓسانی ہوتے تھے۔جگر کے پھوڑے کا علاج بنکچہ کے ذریعہ کیا جاتا تھا۔آج بھی سرجری کے آلات اور طریقہ کار وہی ہیں جو زہراوی نے ہزار سال پہلےے ایجاد کیا تھا۔دنیا کے اندر اس پرکم و بیش عمل ہورہاہے۔
دوائیاں،کیمیاسازی:

رازی و ہ اسلامی سائنسدان ہے جنہوں نے سب سے پہلے کئی مادہ کو ایک دوسرے سے جدا کیا اور ان کی تطہیر کی۔کئی کیمیاکو ایجاد کیا۔اس کے علاوہ تقطیر کیا اور کئی کیمیا کو بطوردوااستعمال کیا ۔پارہ کا بطور دوا بھی استعمال رازی ہی نے کیا اور پیشاب و مثانہ سے متعلق تمام بیماریوں کی دوائیں تجویز کی اور ان پر تحقیق کیا ۔ابن ظہر نے بہت ساری پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص کی اور ان کا علاج تجویز کیا ۔اسی طرح الا شعث نے گیسٹرلی فیزیولوجی پر تحقیق کیا۔ابوشال المسیحی النفیس نے پلمونری سرکولیشن سے دنیا کو واقف کرایا۔
فارما کولوجی:

یوحنا بن مساویح (777-857AD)نے عالم اسلام میں سب سے پہلے عباسی خلیفہ کے زمانہ میںدوائیوں کے سائنٹفک استعمال اور سلسلہ وار استعمال کے متعلق تفصیل لکھی۔ان کے شاگر د حنین بن اسحاق العابدی نے اپنی کتاب المسائل حنین میں دوائیوں کی اثر انگیزی کی جانچ کا طریقہ بتایا۔خلیفہ المامون اور المحتشم کے زمانہ میں طب کی پریکٹس کے لئے امتحان پاس کرنا لازمی قرار پایا اور لائنسس کا استعمال شروع ہوا۔مرکبات مفرجات تقطیر تطہیر الکوحل سازی و ادویہ کی اعلی معیا ری ترکیبات رائج کی گئی ۔جس کے لئے موتی سونا مونگا عنبرمشک کاسیا املی آملہ مصبر لونگ ودیگر اشیاءکا استعمال بڑے پیمانہ پر کیا گیا۔ اس مقام پر فارماکولوجی کو ایک شعبہ کی حیثیت سے بڑے اور آزادانہ پیمانہ پر الگ قائم کیا جہاں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کی جاتی ،ان کے خواص نکالے جاتے۔اور پینے کی دوائی تیار کی جاتی ۔گلاب کے عرق کشید کئے گئے۔سنترہ کے پھول سے رنگ او رلیموںو سنترہ کی خوشبو حاصل کی گئی۔
نفسیاتی علاج :

رازی اور ابن سینا نے سب سے پہلے ذہنی بیماریوں کے علاج کا سلسلہ شروع کیا ۔اس کے لئے جسمانی اور نفسیاتی حرکتوں کو رازی نے جسمانی نفسیاتی حرکتوں کی بنیاد پر علاج کا طریقہ نکالا ۔ اسی طرح سے گٹھیا ، لقوہ اور صدماتی فالج کا کامیاب نفسیاتی علاج کیا ۔رازی کے ہم عصر نجیب الدین محمد نے ذہنی بیماریوں کے کئی اقسام کی شناخت کی اور اس کی تفسیر لکھی انہوں نے ذہنی تناﺅ اور آکسیسس ، نےورو سس ، جنسی کمزوری جیسے امراض پر مکمل کتاب نفخئہ مالی خولیا اور قطریب ایک قسم کی مالی خولیا ہے اس تذکرہ بھی کیا ۔ساتھ میں دول قلب کی تفصیل بھی بیان کی ۔بن سینا نے جسمانی نفسیاتی امراض کو باہم ملاکر فروغ دیا ۔اور ان کی تشخیص جذباتی الجھن کے طور کی آٹھویں صدی میں مراقوکے فیص میں پاگل خانہ قائم کیا گیا عربوں نے بھی 750عیسوی میں قاہرہ ، دمشق اور ایلیپو میں پاگل خانے قائم کئے تھے ۔وہاں مریضوں کے لئے ہر طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھی ۔مریضوں کے ذہنی سکون کے لئے موسیقی کے ذریعہ علاج فراہم کیا جاتا تھا اس کے علاوہ ایکپوپیشنل تھیراپی کے لئے مریضوں کو گانا و موسیقی کے ذریعہ آرام پہنچایا جاتا نقالی مسخرہ پن اور ہسننی ہنسانے کے دوسرے پروگرام بھی پیش کئے جاتے ۔

ہزار سال قبل اسلامی اسپتال ان کی اعلیٰ معیار و اعلیٰ طریقہ کار وجود میں آچکے تھے ۔دوا سازی ، حکمت ،سرجری اور دیگر میدان میں نئی نئی ایجادات تحقیق و تفتیش کا کام عروج پر تھا ۔ بیماریوں کی تشخیص طریقہ علاج مرض ، وجوہات اس کے اسباب و عوامل پر غور فکر و تحقیق کے نتائج میں نئی نئی بیماریوں کا دریافت ہو چکا تھا ۔وائرس ، جراثیم ،اچھوت کی بیماریوں سے آگاہی ہو چکی تھی ۔سرجری اور نفسیاتی علاج کے وہ طریقہ اختیار کئے گئے تھے جنہوں نے بعد میں یوروپی ماہر نفسیات ، موجدوں ، سرجنوں اور معالجوں کی ہر قدم پر رہنمائی کی اور بنیاد کی صورت میں آج بھی ان کی افادیت برقرار ہے ۔

نبوی صلی اللہ علیہ وسلم غذائیں نبوی صلی اللہ علیہ وسلم شفائیں

امام محمد بن ابوبکر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ”علم طب ایک قیافہ ہے“ معالج گمان کرتا ہے کہ مریض کو فلاں بیماری ہے اور اس کے لئے فلاں دوا کامیاب ہو گی وہ ان میں سے کسی چیز کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا جبکہ اس کے مقابلے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم طب اور ان کے معالجات قطعی اور یقینی ہیں کیونکہ ان کے علم کا دارومدار وحی الٰہی پر مبنی ہے جس میں کسی غلطی وناکامی کا کوئی امکان نہیں۔ موجودہ دور میں سائنس نے ترقی کی بے شمار منازل طے کی ہیں لیکن اس کے باوجود اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک مرض کا علاج کیا جائے تو اس دوا سے کئی دوسری بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے علاج تجویز فرمائے جن سے کسی قسم کے ری ایکشن کا کوئی خطرہ نہیں۔
شہد
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ تعریف شہد کی فرمائی۔ شہد کے متعلق قرآن کریم میں آیات آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہار منہ شہد کا شربت پیتے۔ سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا پینے والی چیزوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد سب سے زیادہ پسند تھا“(بخاری)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہر مہینہ میں کم از کم تین دن شہد چاٹ لے اس کو اس مہینہ میں کوئی بڑی بیماری نہ ہو گی“ آیئے! دیکھتے ہیں کہ شہد کے طبی فوائد کیا ہیں؟ شہد جسم سے فاسد مادوں کو نکالتا ہے اور زہریلے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔ شہد مثانہ اور گردہ کی پتھری کو توڑ کر نکالتا ہے۔ یرقان، فالج، لقوہ اور امراض سینہ میں مفید ہے۔ شہد جگر کے فعل کو بیدار کرتا ہے۔ عورتوں کیلئے شہد بہترین علاج ہے۔ شہد کو سرکے میں حل کر کے دانتوں پر لگایا جائے تو مسوڑھوں کے ورم دور کرنے کے علاوہ دانتوں کو چمکدار بھی بناتا ہے۔ عرق گلاب میں شہد کو حل کر کے لگانے سے جوئیں مر جاتی ہیں۔ دمہ کے مرض میں نالیوں کی گھٹن کو دور کرنے اور بلغم نکالنے کے لئے گرم پانی میں شہد سے بہتر کوئی دوا نہیں۔ گلے کی سوزش کے لئے گرم پانی میں شہد ملا کر غرارے کرنا مفید ہے۔ نہار منہ اور عصر کے وقت شہد گرم پانی میں ملا کر پینا توانائی مہیا کرتا ہے اور سانس کی نالیوں کے ورم بھی دور کرتا ہے ۔انجیر
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے انجیر سے بھرا تھال آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کھاﺅ“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر میں کہتا کہ جنت سے ایک کھانا آیا ہے تو میں کہتا یہ انجیر ہے“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انجیر کے دو بڑے فائدے بتائے۔ فرمایا (1) یہ بواسیر کو ختم کرتی ہے (2) جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔ انجیر سے جگر اور تلی کو تقویت ملتی ہے۔ نہار منہ کھانے سے پتے اور خون کی نالیوں سے پتھریاں اور سدے باہر نکل جاتے ہیں۔ انجیر پتہ کی سوزش اور پتھری کا بہترین علاج ہے۔ اس سے بھوک بڑھتی ہے۔ سکون آور، دافع سوزش اور ورم ہے۔ ہاضمہ درست کرتی ہے پیٹ کو چھوٹا کرتی ہے۔ اس کا مسلسل استعمال جسم سے زائد چربی گلا کر خارج کر دیتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کا بہترین علاج ہے۔ خشک انجیر توے پر جلا کر اس کی راکھ سے دانتوں پر منجن کیا جائے تو دانتوں سے زنک اور میل کے داغ اتر جاتے ہیں اور مسوڑھوں کی سوزش ختم ہو جاتی ہے۔

زیتون
اللہ علیم وحکیم نے زیتون کے درخت کو مبارک یعنی برکت والا کہا ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیتون کو بیشتر بیماریوں کا علاج قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیتون کی تعریف فرمائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”زیتون کا تیل کھاﺅ اسے لگاﺅ کیونکہ یہ پاک صاف اور مبارک ہے“ زیتون کے بھی بیشمار طبی فوائد ہیں۔ زیتون کے تیل کی مالش کرنے سے اعضاءکو قوت حاصل ہوتی ہے۔ پٹھوں کا درد جاتا رہتا ہے۔ عرق النساءکا بہترین علاج ہے۔ زیتون کے تیل کو مرہم میں شامل کر کے لگانے سے زخم بھر جاتے ہیں۔ ناسور (ہمیشہ رسنے والا پھوڑا) کو مند مل کرنے میں زیتون سے بڑھ کر کوئی دوا بہتر نہیں۔ زیتون کا تیل تیزابیت کو ختم کرتا ہے اور جھلیوں کی حفاظت کرتا ہے۔ معدہ میں کینسر یا زخم کی صورت میں زیتون کا تیل شافی علاج ہے۔ خالی پیٹ زیتون کا تیل زخموں پر دوا کا کام کرتے ہوئے معدے کو درست کرتا ہے۔ بدن کی خشکی کو دو ر کرنے اور جلدی امراض مثلاً چنبل اور خشک گنج میں مفید ہے سانس کے ہر قسم کے امراض کا بہترین علاج ہے۔ دمہ کے مرض کا اس سے بہتر کوئی علاج نہیں۔ انفلوئزا اور نمونیہ کیخلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔ زیتون کا تیل کلونجی میں ملا کر ناک میں ڈالنا نکسیر کے لئے مفید ہے۔ کھجور کا ذکر قرآن وحدیث میں متعدد بار آیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی حضرت رافع بن عمر المزنی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”عجوہ کھجور اور بیت المقدس کی مسجد کے گنبد دونوں جنت سے آئے ہیں“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوزائیدہ بچوں کے لئے کھجور کی گھٹی پسند فرماتے، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے گھر لڑکا پیدا ہوا میں اسے لیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور چبا کر اس کے منہ میں ڈالی، کھجور کے طبی فوائد درج ذیل ہیں۔ کمزوری کو دور کرنے والی قوت بخش غذا بھی ہے اور دوا بھی۔ قولنج سے محفوظ رکھتی ہے۔ نہار منہ کھانے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔ جگر کو زہروں کے اثرات سے بچانے کے لئے اور شراب کے اثر کو زائل کرنے کے لئے کھجور ایک لاجواب تحفہ ہے۔ جگر کی بیماریوں کی بہترین دوا ہے، جگر کو تقویت دیتی ہے اور جگر کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ اسہال کو دور کرتی ہے یرقان کا بہترین علاج ہے جسم کو فربہ کرتی ہے کھجور کی جڑیا پتوں کی راکھ سے منجن کرنا دانتوں کے درد میں مفید ہے۔ کھجور کی گٹھلی جلا کر دانتوں پر ملی جائے تو منہ کے تعفن کو دور کرتی ہے۔ دانتوں سے میل اتارتی ہے بہتے خون کو روک لیتی ہے زخم کو جلدی ختم کرتی ہے۔