Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

سیب دل کو بیماریوں سے بچاؤ کے لئے مفید

سیب دل کو بیماریوں سے بچاؤ کے لئے مفید
جدید طبی تحقیق کے مطابق کھٹے میٹھے سیب دل کو بیماریوں سے بچانے میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس تحقیق میں ماہرین نے ”بٹرانگلش ایپل“ میں ایک ایسے کمپاونڈ جزو کا پتہ چلایا ہے کہ جو دل کی مختلف بیماریوں میں سود مند ثابت ہو کر زندگی کے عرصہ کو بڑھا دیتا ہے۔
سیب کے اندر اس کمپاونڈ جزو سے خون کی حرکت بہتر ہو جاتی ہے اور جسم کے تمام حصوں میں خون کی فراہمی کا عمل ہونے لگتا ہے۔
اس طرح کے سیبوں کے استعمال سے دل کی شریانوں میں کھچاؤ کو کم کر نے اور بلڈ پریشر کو نارمل بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ سترہ سالوں پر مشتمل اس طبی تحقیق کے دوران ہزاروں مریضوں پر تجربے کرنے کے بعد اس رپورٹ کو مرتب کیا گیا ہے۔

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

Read More

جڑی بوٹیاں مؤثر ذریعہ علاج ہیں

عالمی ادارہٴ صحت نے کہا ہے کہ روایتی ادویات دورِ حاضر کی بیماریوں کا مؤثر علاج ہوسکتی ہیں اور انہیں صحت کی ابتدائی دیکھ بھال میں شامل کیا جانا چاہیئے۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا ہے کہ چین جہاں جڑی بوٹیوں کو مغربی ادویات کے ساتھ علاج کے تجویز کیا جاتا ہے، اچھا قابلِ تقلید نمونہ ہے۔
چین میں تقریباً دو ہزار سال سے علاج کے لیے روایتی ادویات استعمال کی جارہی ہیں۔ انہیں نزلے زکام سے لے کر سرطان تک، ہر مرض کے علاج کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ جڑی بوٹیوں، خوراک اور ورزش کے امتزاج سے علاج کا انداز اب مغرب میں بھی مقبول ہورہا ہے۔

عالمی ادارہٴ صحت کی سربراہ مارگریٹ چان کہتی ہیں کہ دور حاضر کی بیماریوں کے علاج کے لیے مغربی ادویات کے ساتھ ساتھ قدیم طریقہ علاج کو بھی استعمال کیا جانا چاہیئے۔
وہ کہتی ہیں کہ روایتی اور مغربی علاج کے دونوں نظاموں کو آپس میں متصادم نہیں ہونا چاہیئے۔ صحت کی ابتدائی دیکھ بھال کے تناظر میں ان دونوں کو ملاجلا کر اس طرح ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے کہ ہر طریقہ علاج کے بہترین پہلو کو استعمال کیا جائے اور دونوں کے کمزور پہلوؤں پر قابو پایاجائے۔

روایتی ادویات کے فروغ سے متعلق ڈبلیو ایچ کی بیجنگ میں ہونے والی اولین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چان نے کہا کہ عالمی ادارہٴ صحت کے خیال میں روایتی ادویات کے مغربی ادویات کی نسبت مضر اثرات کم ہوتے ہیں اور وہ عام بیماریوں مثلاً اسہال، ملیریا وغیرہ کے لیے سستا اور مؤثر علاج ہوسکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ روایتی ادویات جدید دور کے رہن سہن کے انداز سے جنم لینے والی بیماریوں مثلاً ذیابیطس، دل کے امراض اور ذہنی بیماریوں دور کرنے میں بھی مدد دے سکتی ہیں۔

چان کہتی ہیں کہ چین جہاں دونوں قسم کی ا دویات علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اچھی مثال پیش کرتا ہے۔ لیکن انھوں نے خبردار کیا کہ تمام روایتی ادویات سائنسی اور تحفظ کے میعار پر پوری نہیں اترتیں۔

ماہرین ایک طویل عرصے سے جڑی بوٹیوں کے اہم اجزا کو مغربی ادویات میں شامل کرنے پر تحقیق کررہے ہیں۔لیکن اس وقت جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ دواؤ ں کی مارکیٹ اربوں ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور ان میں سے بہت سی ادویات کو یہ جانے بغیر فروخت کیا جارہا ہے کہ ان میں کون کون سے اجزا شامل ہیں اور اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔

عالمی ادارہٴصحت نے کہا ہے کہ روایتی ادویات کو صحت کی دیکھ بھال کے جدید نظام میں ضم کرنے سے سائنسی تحقیق کی حوصلہ افزائی ہوگی اور اس بات کو یقنی بنایا جاسکے گا کہ انہیں نظرانداز نہ کیا جائے اور انہیں محفوظ اور مؤثر طور پر استعمال کیا جائے۔

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

جماع

جماع
اسکو عام طور پر جنسی روابط کہا جاتا ہے لیکن چونکہ یہ لفظ معیوب ہے لہذا طبی مضمامین میں اگر اسکا استعمال ناگزیر ہوجاۓ تو اسکے لیۓ ویکیپیڈیا میں جماع اور یا پھر جفت گیری کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جسکو انگریزی میں
sexual
intercourse
اور طب
میڈیکل میں
 coitus یا پھر copulation
بھی کہا جاتا ہے۔ اور طبی تعریف کی رو سے دو  یا دو سے زائد) افراد کے درمیان اس قسم کا کوئی بھی رابطہ یا تعلق کہ جسمیں دونوں یا کسی ایک کے تولیدی اعضاء کو تحریک ملے اس زمرے میں آجاتا ہے۔

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

طبیب، حکیم،

طبیب

طبیب کا لفظ اردو میں عام طور پر انگریزی کے لفظ ڈاکٹر (doctor) کے لیۓ بھی استعمال کیا جاتا ہے اور حکیم کے لیۓ بھی ، اس کے ساتھ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ طب یونانی کے ماہرین و اطباء کیلیۓ طبیب کی نسبت حکیم کا لفظ بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوۓ اس اردو دائرہ المعارف پر ابہام سے بچنے کی خاطر orthodox medical doctor کیلیۓ طبیب کا لفظ اختیار کیا گیا ہے جبکہ herbal medical doctor کیلیۓ حکیم کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے۔
حکیم

حکیم کا لفظ طبیب کی طرح عربی زبان سے آیا ہے اور اردو میں بکثرت طب یونانی کے ماہرین و اطباء کیلیۓ استعمال ہوتا ہے۔ اس اردو دائرہ المعارف پر ابہام سے بچنے کی خاطر orthodox medical doctor کیلیۓ طبیب کا لفظ اختیار کیا گیا ہے جبکہ herbal medical doctor کیلیۓ حکیم کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے۔ جبکہ حکماء کیلیۓ طبیب کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک پہلو ہے کہ طبیب کا لفظ بکثرت انگریزی ڈاکٹر کے متبادل کے طور بھی مستعمل ہے اور اسی وجہ سے اسے ہی ڈاکٹر کے لیۓ مخصوص کیا گیا ہے۔

آنکھ

یہ مضمون عمومی طور پر انسانی آنکھ کے بارے میں ہے۔

آنـکھ (سنسکرت) جسکے لیۓ طب میں عموماً عـیـن (عربی) یا چـشم (فارسی) کا لفظ آتا ہے دراصل ایک ایسا عضو ہے جو کہ روشنی کا ادراک (احساس) کرسکتا ہے اور بصارت (بینائی) کا فعل انجام دیتا ہے۔ انسانی آنکھ عکاسے سے مماثلت رکھتی ہے کہ عکاسہ دراصل آنکھ کے اصول پر ہی ایجاد ہواہے۔
آنکھ کی ساخت۔

انسانی آنکھ کی شکل ایک گول کروی جسم کی ہوتی ہے جو کہ کاسہ سر یا کھوپڑی میں سامنے کی جانب استخوانی یا ہڈی سے بنے ہوۓ حلقہ چشم میں رکھی ہوتی ہے۔ اسکی ساخت کی مشابہت ایک ایسی گیند سے کی جاسکتی ہے کہ جسکی دیوار تین تہہ سے بنی ہو.

1. صلبہ (sclera) یہ سب سے بیرونی پرت ہوتی ہے
2. مشیمیہ (choroid) یہ درمیانی پرت یا تہـ ہوتی ہے
3. شبکیہ (retina) یہ آنکھـ کی دیوار کی سب سے اندرونی تہ ہوتی ہے

دماغ

دماغدماغ دراصل مرکزی عصبی نظام کا ایک ایسا حصہ ہوتا ہے جسمیں عصبی نظام کے تمام اعلی مراکز پاۓ جاتے ہیں۔ اکثر جانداروں میں دماغ سر میں موجود ایک ہڈی کے صندوق میں محفوظ ہوتا ہے جسے کاسہ سر یا کھوپڑی کہتے ہیں اور چار بنیادی حسیں (بصارت، سماعت، زائقہ اور سونگھنا) اسکے بالکل قرب و جوار میں ملتی ہیں۔ فقاریہ جانداروں (مثلا انسان) کے عصبی نظام میں تو دماغ پایاجاتا ہے مگر غیرفقاریہ جانداروں میں عصبی نظام دراصل عصبی عقدوں یا یوں کہـ لیں کہ عصبی خلیات کی چھوٹی چھوٹی گرھوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دماغ ایک انتہائی پیچیدہ عضو ہے، اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا

ہے کہ ایک دماغ میں تقریبا 100 ارب ( ایک کھرب) خلیات پائے جاتے ہیں (یہاں یہ بات واضع رہے کہ یہ صرف ان خلیات کی تعداد ہے جنکو عصبون یا neuron کہا جاتا ہے)۔ اور پھر ان 100 ارب خلیات میں سے بھی ہر ایک ، عصبی تاروں یا ریشوں کے زریعے تقریبا 10000 دیگر خلیات کے ساتھ رابطے بناتا ہے۔

ایک جائزہ

بنیادی طور پر جانداروں کی اکثر انواع کے دماغ (بشمول انسان) کو اگر کاٹ کر دیکھا جاۓ تو یہ اپنی ساخت میں دو الگ رنگوں میں نظر آنے والے حصوں کا مظاہرہ کرتا ہے، ایک حصہ تو وہ ہوتا ہے جو کہ عام طور پر بیرونی جانب (اسکے علاوہ خاکی مادے کے مرکزوں / nuclei میں) پایا جاتا ہے اور خاکی مادے (gray matter) پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جو کہ اندر کی جانب ہوتا ہے اور سفید رنگت کا نظر آتا ہے اسے سفید مادہ (white matter) کہتے ہیں۔

خاکی مادے میں دراصل، عصبونات کے جسم (soma) پاۓ جاتے ہیں جبکہ سفید مادے میں عصبونات سے نکلنے والے تار نما ریشے یعنی محوار (axon) پاۓ جاتے ہیں۔ چونکہ محواروں پر چربی کی بنی ہوئی ایک عزلی (insulating) تہـ چڑھی ہوئی ہوتی ہے جسکو میالین (myalin) کہتے ہیں اور اسی چربی کی تہـ کی وجہ سے سفید مادہ ، سفید رنگ کا نظر آتا ہے۔

خاکی مادے سے بنا ہوا دماغ کا بیرونی استر نما حصہ قشرہء مخ (cerebral cortex) کہلاتا ہے۔ جبکہ دماغ کے اندر کا حصہ ؛ axons یعنی محواروں کے ریشوں کے گچھوں ، خاکی مادے کے بنے ہوۓ اجسام اور کچھ خانوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان خانوں کو بطین یا ventricles کہا جاتا ہے اور ان میں ایک مائع بھرا رہتا ہے جسکو دماغی نخاعی سیال یا cerebrospinal fluid کہتے ہیں۔

دماغ سے نکلنے والے اعصاب کو دماغی اعصاب کہا جاتا ہے، جو کہ سر اور ملحقہ علاقوں کا دماغ سے رابطہ کرنے کے لیۓ استعمال کیۓ جاتے ہیں۔ جبکہ دماغ کے نچلے حصے سے ایک دم نما جسم منسلک ہوتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں اتر جاتا ہے اسکو حرام مغز کہتے ہیں، حرام مغز سے نکلنے والے اعصاب کو نخاعی اعصاب کہا جاتا ہے اور یہ تمام جسم کو اعصابی نظام سے منسلک کرتے ہیں۔

وہ اعصابی ریشے جو کہ مرکزی عصبی نظام یعنی دماغ اور حرام مغز سے پیغامات کو جسم کے دوسرے حصوں تک پہنچاتے ہیں انکو صادر (efferent) کہا جاتا ہے اور وہ جو کہ جسم کے مختلف حصوں سے اطلاعات اور حسوں کو دماغ اور حرام مغز میں لے کر آتے ہیں یا وارد ہوتے ہیں انکو وارد (afferent) کہا جاتا ہے۔ کوئی عصب ؛ وارد بھی ہوسکتا ہے ، صادر بھی اور یا پھر مرکب بھی، یعنی کہ اس میں دونوں اقسام کے الیاف یا ریشے پاۓ جایا کرتے ہوں۔

بنیادی طور پر تو یوں کہ سکتے ہیں کہ دماغ جاندار کے اندرونی ماحول میں یکسانیت پیدا کرتا ہے اور اسے بیرونی ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ دماغ ہی ایک جاندار میں ؛ استدلال ، فراست و بصارت اور ذکاء یعنی intelligence کا ممبع ہے۔ یہ ذکاء ، دماغ کے جن اھم خواص سے پیدا ہوتی ہے ان میں ؛ معرفت ، ادراک ، انتباہ ، یاداشت اور جذبات و انفعال شامل ہیں۔ دماغ ہی سے وضع اور حرکات جسم واقع ہوتی ہیں اور دماغ ہی وہ مقام ہے جہاں سے معرفی ، حـرکـی اور دیگر اقسام کے تَعلّـُـم یعنی learning کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔

دماغ اپنے افعال کا ایک بڑا حصہ خودکار طور پر اور بلا جاندار کی شعوری آگاہی کہ انجام دیتا رہتا ہے ، مثال کے طور پر حسی نظام کے افعال جیسے ، حسی راہ کاری (sensory gating) اور متعدد حسی اتحاد (multisensory integration) ، چــلنا اور دیگر کئی استتبابی افعال مثلا سرعت قلب، فشار خون، سیالی توازن (fluid balance) اور جسمانی درجہ حرارت وغیرہ۔ یہ وہ چند افعال ہیں جو دماغ جاندار کو احساس ہوۓ بغیر انجام دیتا رہتا ہے۔

اوپر بیان کردہ افعال سمیت کئی دیگر افعال ، دماغ اور حرام مغز کی ھم اہنگ فعالیت (coordinated activity) کے زریعۓ کـنـٹرول کیۓ جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ جانداروں کے کئی سادہ رویۓ (behaviors) مثلا reflexes اور بنیادی حرکات وغیرہ ایسے بھی ہیں جو کہ صرف حرام مغز کی سطح پر ہی نبٹا دیۓ جاتے ہیں اور انکے لیۓ عام طور پر دماغ کو مداخلت نہیں کرنا پڑتی۔

خون (بلڈ / blood)

خون (بلڈ / blood) جانداروں کے جسم میں گردش کرنے والا ایک سیال ہوتا ہے جس میں مختلف اقسام کے خلیات اور غذائی و دیگر مادے تیرتے رہتے ہیں اور یوں تمام جسم میں خون کے ساتھ چکر لگاتے
رہتے ہیں۔ خون کے جسم میں چکر لگانے یا گردش کرنے کو طب و حکمت میں دوران خون (blood circulation) کہا جاتا ہے۔ خون میں موجود سیال یا fluid کو آبدم (plasma) کہا جاتا ہے جبکہ اس میں موجود متعدد الاقسام کے خلیات مجموعی طور پر خلیات الدم یا blood cells کہلاۓ جاتے ہیں ؛ ان خلیات دم میں تین اقسام کے خلیات اھم ترین ہوتے ہیں جنکو اول — سرخ خونی خلیات (red blood cells) دوئم — سفید خونی خلیات (white blood cells) اور سوئم — صفیحات (thrombocytes) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

قلبی وعائی نظام

قلبی وعائی نظام (cardiovascular system)قلبی وعائی نظام (cardiovascular system) کو دورانی نظام (circulatory system)
بھی کہا جاتا ہے جو کہ دل اور اس سے نکلنے والی رگوں (vessels) خون اور لمف پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ نظام تمام جسم میں خون کی گردش کو قائم رکھتا ہے اور خون کی اس گردش کی مدد سے تمام جسم کے خلیات تک انکے لیۓ اھم کیمیائی مرکبات (غذا ، آکسیجن وغیرہ) پہنچاۓ جاتے ہیں اور وہاں سے ان خلیات میں پہلے سے موجود ناکارہ کیمیائی مرکبات کو نکال کر اخراجی اعضاء مثلا گردوں اور پھیپڑوں تک لایا جاتا ہے تاکہ انکو جسم سے خارج کیا جاسکے۔
قلبی وعائی نظام کو حیاتیات کے لحاظ سے دیکھا جاۓ تو دورانی نظام کے اعتبار سے جاندراوں کی (بہ الفاظ دیگر کہ سکتے ہیں کہ دورانی نظام کی) تین اقسام ہوتی ہیں
1- معدوم دورانی نظام
2- آذاد دورانی نظام
3- محصور دورانی نظام
ان تینوں نظامات کی مزید تفصیل کے بارے میں انکے اپنے صفحات مخصوص ہیں۔* یہ مضمون انسانی دورانی نظام کے بارے میں ہے جو کہ مذکورہ بالا نظامات میں سے تیسرے گروہ سے تعلق رکھتا ہے
سادہ الفاظ میں خلاصہ

سادہ الفاظ میں دورانی نظام ، ایک ایسا نظام ہے کہ جسکے زریعے خون تمام جسم میں دورہ یا گردش کرتا رہتا ہے۔ یہ نظام بنیادی طور پر دل ، رگوں اور خون پر مشتمل ہوتا ہے۔ جسم کے تمام خلیات کو غذائی اجزاء اور آکسیجن کی مستقل ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنے افعال انجام دے سکیں بلکہ اپنی زندگی بھی قائم رکھ سکیں اور چونکہ انسانی جسم کے اکثر خلیات براہ راست غذائی نظام اور بیرونی فضاء سے رابطے میں نہیں ہوتے لہذا یہ ذمہ داری دورانی نظام کی ہوتی ہے کہ وہ خون کی گردش کے زریعے خلیات کو نہ صرف ضروری اجزاء مہیا کرے بلکہ ان میں بننے والے غیرضروری اجزاء کو بھی وہاں سے نکالے کہ وہ خلیات کو ضرر نہ پہنچا سکیں۔

دورانی نظام کے مطابق خون یہ کام کچھ اسطرح کرتا ہے کہ سب سے پہلے یہ پھیپڑوں سے صاف ہوا (آکسیجن) حاصل کرتا ہے اور نظام ہاضمہ سے غذائی اجزاء ، اسکے بعد دل اسکو شریانوں (شکل: شریان نام کی سرخ نالی) کے زریعے جسم کے دور دراز تمام حصوں تک دھکیلتا (یا پمپ کرتا) ہے۔ دل سے نکلنے والی یہ بڑی شریان پھر تقسیم در تقسیم ہوکر (شکل مقام 1) بال جیسی لاتعداد باریک نالیاں بناتی ہے اور اسی لیے انکو شعریات (شعریہ ، بال کو کہتے ہیں – کہا جاتا ہے ، یہی وہ نالیاں یا رگیں ہوتی ہیں جو جسم کے ایک ایک خلیے تک جاتی ہیں اور درآمدات و برآمدات کا عمل کرتی ہیں جسمیں یہ خلیہ کو ضروری اجزاء برآمد کرتی ہیں اور اسمیں پہلے سے موجود غیرضروری اجزاء کو درآمد کرکے اپنے اندر لے لیتی ہیں۔
دورانی نظام: یہ ایک سادہ اور مختصر خاکہ ہے ، مختلف ناموں اور اعداد کی وضاحت مضمون کے متن میں درج کی گئی ہے

خلیات کو درکار اجزاء انہیں پہنچانے اور ان سے فالتو مادے حاصل کرلینے کے بعد یہ شعریات ایک مرتبہ پھر آپس میں جڑ جڑ کر بڑی نالیاں (شکل مقام 2) بناتی ہیں اور پھر یہ بڑی نالیاں مزید بڑی نالیاں بناتی ہوئی واپس دل میں آکر کھل جاتی ہیں اور یوں تمام جسم سے حاصل ہونے والے غیرضروری مادوں کو دل میں لے آتی ہیں۔ انکو وریدیں (واحد؛ ورید) کہا جاتا ہے۔

گردہ

کلیہ کو گردہ بھی کہا جاتا ہے اور انگریزی میں اسکو kidney اور renalis یا nephric بھی کہتے ہیں۔ گردے دراصل لوبیۓ کی شکل کے دو عدد اخراجی اعضاء ہیں جو کہ خون میں پیدا ہوتے رہنے والے غیرضروری اجزاء (بطور خاص یوریا) کو خون سے الگ کر کے یا چھان کر، پانی کے ساتھ پیشاب کی شکل میں جسم سے خارج کردیتے ہیں۔

طب و حکمت کی وہ شاخ جس میں گردوں کی تشریح ، فعلیات ، امراضیات اور معالجے کا مطالعہ کیا جاۓ ، اسے علم کلیہ (nephrology) کہتے ہیں۔

ایک جائزہ

انسان میں گردے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں اطراف ، پیٹ کے پچھلے حصے یعنی کہ کمر کی دیوار کی جانب پاۓ جاتے ہیں۔ دائیاں گردہ جگر کے نیچے اور بائیاں گردہ طحال (spleen) کے نیچے پایا جاتا ہے۔ ہر گردے کے بالائی سرے پر ایک چھوٹا جسم پایا جاتا ہے جسکو کظر (adrenal) کہتے ہیں یہ دراصل ایک غدود ہوتا ہے جس سے ہارمونز کا اخراج عمل میں آتا ہے۔ گردوں کے مقام کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ دائیاں گردہ بائیں کی نسبت کچھ نیچا ہوتا ہے (یہ بات شکل میں واضع مشاہدہ کی جاسکتی ہے) [1] [2] ۔

گردے پس صفاق (retroperitoneal) اعضاء ہوتے ہیں یعنی یہ پیٹ کے خانے کی جھلی ، جسے peritoneum کہتے ہیں کے پیچے پاۓ جاتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کے مہروں پر انکا جاۓ مقام سینے کے بارھویں فقرے سے نچلی کمر کے تیسرے فقرے تک ہوتا ہے، یعنی T12 تا L3۔ گردوں کے اس مقام کا فائدہ یہ ہے کہ اس جگہ کے باعث انکا بالائی حصہ پسلیوں کے زریعے حفاظت میں آجاتا ہے جہاں کظر موجود ہوتا ہے۔
مزید یہ کہ ہر گردہ چربی سے بنی ہوئی دو عدد تہوں میں لپٹا ہوا ہوتا ہے، جنکو perinephric اور paranephric کہتے ہیں، یہ دونوں تہیں گردوں کی حفاظت کے لیۓ گدے کی طرح کا کام کرتی ہیں۔ پیدائشی طور پر گردوں کے نہ ہونے یا غائب ہونے کو لاتولد کلوی (renal agenesis) کہتے ہیں ، یہ یکجانبی بھی ہو سکتا ہے اور ذوجانبی بھی۔ گردوں کے پیدائشی طور پر غائب ہونے کے برعکس بعض اوقات پیدائشی نقص کی وجہ سے گردوں کی فطری تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے [3]

شریان (artery)

شریانشریان (artery) خون کی ایسی رگوں کو کہا جاتا ہے کہ جو خون کو دل سے حاصل کر کہ جسم کے دیگر حصوں تک پہنچاتی ہیں۔ اسکے برعکس وہ رگیں جو کہ خون کو جسم سے واپس دل میں لے کر آتی ہیں انکو وریدیں (veins) کہا جاتا ہے۔