Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

سبزیوں سے صحت

سبزیوں سے صحت
جسم کو درحقیقت پروٹین کی اتنی مقدار کی ضرورت نہیں جتنی فرض کی گئی ہے،  سبز پتوں والی پروٹین کا معیار اتنا ہی اعلیٰ ہے جتنا دودھ کی پروٹین کا ہے  اس لیے یہ دونوں، کسی سبزی خور کی پروٹینی غذائیت میں قابل قدر کردار انجام دیتی ہیں سبزی خوری کو رواج دینے سے کوئی ہیلتھ پرابلم پیدا نہیں ہوگا گوشت نہ کھانے اور سبزیوں پر گزارہ کرنیوالوں کے لیے  کا لفظ ویجی ٹیرین سوسائٹی آف یونائیٹڈ کنگ ڈم نے میں وضع کیا تھا یہ لفظ سبزی  لاطینی زبان کے لفظ   Vegetari  سے لیا گیا ہے جس کے معنی  تازگی بخشنایا نئی روح پھونکنا  کے ہیں،  برہمن ازم جین ازم، زر تشت مذہب اور بدھ ازم کے ماننے والے زندگی کے  تقدس،  کے علمبردار تھے،  ان کا کہنا تھا کہ دوسروں کو اذیت دئیے بغیر زندگی گزارنا سیکھو  جانوروں سے حاصل ہونے والے انڈوں اور دودھ سے بنی ہوئی اشیاءپنیر، دہی، مکھن، گھی اور شہد کو بھی ممنوعہ قرار دیتے ہیں،  ایک مچھلی خور سبزی خوروں  کا زمرہ بھی ہے ان سب میں مشترک عنصر یہ ہے کہ یہ گرم خون والے جانوروں کے گوشت سے پرہیز کرتے ہیں،  اگر گوشت خوری کا خاتمہ ہوگیا تو دنیا غذائی قلت بالخصوص پروٹینز اور وٹامنز    کی قلت کے  بحران  میں مبتلا ہوجائے گی تاہم اس مسئلے پر گہری سوچ بچار اور تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ سبزی خوری کو رواج دینے سے کوئی ہیلتھ پرابلم پیدا نہیں ہوگا اورنہ گوشت کی قلت سے منسو ب کردہ بیماریا ں پیدا ہوں گی جسم کو اپنی نارمل کارکردگی برقرار رکھنے کے لیے جن 22 امائنوایسڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے صرف 9 ایسڈ خوراک کے ذریعہ حاصل کرنا ہوتے ہیں، باقی 13 ایسڈز جسم خود تیار کرلیتا ہے۔ جسم اپنے تیار کردہ امائنو ایسڈز کی پروٹین کا 100 فی صد استعما ل کرلیتاہے، بشرطیکہ دس امائنوایسڈز   تناسب میں ہوں، تاہم اگر ان لازمی امائنوایسڈ میں سے ایک یا اس سے زائد ایسڈز معیاری مقدار میں نہ ہوں تو ساری پروٹین کی افادیت اسی تناسب سے کم پڑجاتی ہے، کوالٹی ریٹنگ کے سکیل پر ایک سے لے کر 100 تک درجے پر‘ مچھلی 80 پر اناج 50 سے 70 کے درمیان دالیں نٹس اور بیج 40 سے 60 درجے کے درمیان ہوں گے۔
سبزیوں پر مبنی غذاءمیں پروٹین کی نام نہاد کمی کا جو پروپیگنڈہ کیا جاتاہے، یہ حقیقت نہیں، بلکہ ایک مبالغہ ہے کیونکہ یہ بات مشہور کرنے والوں نے سبز پتوں والی سبزیوں میں پروٹین فراہم کرنے کی صلا حیت کو نظرانداز کردیا ہے اور انہوں نے یہ بات بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ جسم کو درحقیقت پروٹین کی اتنی مقدار کی ضرورت نہیں جتنی فرض کی گئی ہے،  سبز پتوں والی پروٹین کا معیار اتنا ہی اعلیٰ ہے جتنا دودھ کی پروٹین کا ہے،  اس لیے یہ دونوں، کسی سبزی خور کی پروٹینی غذائیت میں قابل قدر کردار انجام دیتی ہیں۔ اس پروٹین کا معیار اس شخص کے لیے دیگر اشیاءمثلاً بادام، اخروٹ وغیرہ کی گریوں اور پھلیوں میں پائی جانے والی پروٹین کے معیار کی کمی کی بھی تلافی کردیتاہے، روزانہ کھانے میں مرد کو 70 گرام اور عورت کو 44 گرام پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے،  حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ انسانوں کے لیے پروٹین حقیقی کی ضرورت  اس سے بھی کہیں کم ہوتی ہے
جہا ں تک  نیوٹریشن کے تناسب کا تعلق ہے انڈہ اور دودھ پر انحصار کرنے والے سبزی خورو ںکو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ  کی ضرورت، ڈیری کی مصنوعات اور انڈوں سے پوری ہوسکتی ہیں،  دودھ کے ایک لٹر کا چوتھائی حصہ یا 100 گرام پنیر یا ایک انڈہ روزانہ بی 12  اس کمی کو پورا کرسکتا ہے جانداروں کا گوشت، ان کے اعضائے اخراج   پر بوجھ بڑھاتا رہتا ہے اور سسٹم پر فالتو اور زہریلے مادوں کا ہجوم کردیتا ہے۔ گوشت خوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی یورک ایسڈ کی زیادہ مقدار، گنٹھیا، گردے اور پتے کی پتھری جیسی بیماریوں کا بھی با عث بنتی ہے،  گوشت کی پروٹینز سبزیوں کی پروٹینز کے مقابلے میں بدبو اور سٹیرائڈز دو گنا تیزی سے پیدا کرتی ہیں اس سے ان کے خون اور ٹشوز میں زہرپھیل جاتاہے پھر جب یہ جانور ذبح ہوکر ہماری خوراک بنتے ہیں تو ان کا زہر ہمارے جسم میں سرایت کر جاتا ہے۔کھانے والے مویشیوں میں سے بعض کے اندر ٹی بی اور کینسر جیسی مہلک بیماریوں کے جراثیم موجود ہوتے ہیں،  یہی وجہ ہے کہ بکثرت گوشت کھا نے والے لوگ سبزی خوروں کی بہ نسبت امراض کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

نظر کی کمزوری اور اندھے پن کا علاج

نظر کی کمزوری اور اندھے پن کا علاج
نیم کے پتوں کا عرق مخالف کان میں ڈالنے سے آنکھوں کو آرام آجاتا ہے‘دکھتی آنکھ کے دوران کھجور نہ کھائیں
دکھتی آنکھ : مخالف پاﺅں کے انگوٹھے میں شیر مدار ٹپکائیں۔
2نسخہ الشفاء  :    سونف 250 گرام،     دھنیا 250 گرام،    خشخاش 500 گرام،       مصری 300 گرام، مغزبادام 500 گرام ، چاروں مغز 500 گرام
ترکیب تیاری : ان سب کو کوٹ کر چھان لیں اور پھکی بنائیں صبح و شام ایک چمچہ دودھ کے ساتھ استعمال کرلیا کریں

عینک سے بے نیازی : مٹی کا کورا حقہ 3/4 کلو روغن گاﺅ پانی کی جگہ ڈالیں نیچے سے بند دو کلو تمباکو کوشید کیا جائے تمام تمباکوختم ہونے پر تونٹری توڑ کر اندرونی جوہر اتار کر شیشی میں اتار لیں۔ سوتے وقت آنکھوں میں لگائیں۔ یہ سرمہ ایک ہفتے کے استعمال کے بعد عینک سے بے نیاز کردے گا

بینائی لوٹانا : بسکھپرا بوٹی کوٹ کر رس نکال لیں۔ اس میں سرمہ سیاہ کھرل کریں۔ سرمہ خشک ہو جائے تو شیشی میں ڈال دیں۔ روزانہ کے استعمال سے بینائی تیز ہوجائے گی۔

آنکھ دکھنا: منڈی (گورکھ منڈی) کے پھول جتنی تعداد میں کھائیں، اتنے سال آنکھ نہیں دکھے گی۔ یہ پھول منہ نہار نگل جائیں۔ انہیں چبانا نہیں۔

نظر تیز کرنا: مال کنگنی کے تیل کی مالش ہتھیلیوں اور پاﺅں کے تلوﺅں پر کریں اور یہ عمل 40 روز متواتر کریں۔

 گھی کوار کے پتے چیر کر تین ماشے سفوف ہلدی چھڑک کر گرم کرکے مریض کی دکھنے والی آنکھ کی جانب پاﺅں کے نیچے باندھیں۔

نیم کے پتوں کا عرق مخالف کان میں ڈالنے سے آنکھوں کو آرام آجاتا ہے۔

آنکھوں کی سرخی زائل کرنا: برگ انار تازہ کوٹ کر نغدہ بنا کر آنکھوں پر باندھ دیا کریں 4-3 روز استعمال کریں۔
نوٹ: دکھتی آنکھ کے دوران کھجور نہ کھائیں

 

Read More

ٹائیفائیڈ کا جڑی بوٹیوں سے علاج

ٹائیفائیڈ کا جڑی بوٹیوں سے علاج

مریض کی قوت مدافعت قائم رکھنے کیلئے اس کی غذا پر خصوصی توجہ دی جائے جو ابال کر چھان کر یا پانی دانہ میں کئی بار پلایا جائے اگر جو کے پانی میں شہد ملا کر پیا جائے تو سب سے بہتر ہے شہد ایک مکمل غذا ہے جسم کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے
یہ ایک جراثیمی سوزش ہے جو اس کو پیدا کرنے والے جراثیم

Salmonella typhi

کی وجہ سے ہوتی ہے پیٹ کی دوسری بیماریوں کی طرح یہ بھی ایک سے دوسرے تک مکھیوں‘ آلودہ پانی یا بیمار کے جسم سے نکلنے والے جراثیم کے ذریعے پھیلتا ہے۔ گندی خوراک کے ذریعے یہ جراثیم جسم میں داخل ہونے کے بعد گندی خوراک کے ذریعے یہ جراثیم جسم میں داخل ہونے کے بعد چھوٹی آنت کے کسی حصہ کو پسند کرکے اپنے تخریبی عمل کا آغاز کرتے ہیں۔ انسانی جسم میں ان جراثیم کے خلاف قوت مدافعت موجود ہوتی ہے اور یہ جس کسی کے جسم میں جاتے ہیں اس میں ہر ہر ایک کو بیمار نہیں کرسکتے۔ اگر ان کی مقدار زیادہ ہو یا مریض کی قوت مدافعت کمزور ہوتو ٹائیفائیڈ بخار کا حملہ ہوجاتا ہے۔ جسم میں داخل ہونے کے ایک ہفتہ سے لیکر تین ہفتوں کے درمیان یہ جراثیم اپنا کام مکمل کرکے اپنی تعداد اتنی زیادہ کرلیتے ہیں مریض کی جسمانی مدافعت کو ختم کرکے باقاعدہ تب محرقہ کا بیمار بنالیں۔

علامات
پہلا ہفتہ بیماری کی ابتدا تھکن‘ کمزوری‘ جسم میں اینٹھن اور شدید سردر‘ پیٹ میں بوجھ کی کیفیت‘ معمولی اسہال اور اس کے ساتھ کبھی قبض‘ بھوک اڑ جاتی ہے‘ ناک سے نکسیر بھی آسکتی ہے‘ اسہال کے ساتھ کبھی کبھی خون بھی شامل ہوجاتا ہے۔ زبان سخت میلی‘ پیٹ میں ابھارہ‘ بخار آہستہ آہستہ تیز ہوتے شام کو بڑھ جاتا ہے جو کہ 103F تک چلا جاتا ہے جبکہ صبح کو کم ہوتا ہے لیکن بالکل نارمل نہیں ہوتا دل کی رفتار کم ہونے لگتی ہے اور نبض کی رفتار بھی کم ہوجاتی ہے چہرا بجھا بجھا اور آنکھوں کی چمک جاتی رہتی ہے۔
دوسرا ہفتہ سردرد میں کمی آجاتی ہے لیکن جسم میں کمزور بڑھتی ہے چہرا بے رونق ہوجاتا ہے‘ تلی بڑھ جاتی ہے‘ پیٹ کی تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے‘ بلڈ پریشر میں کمی آجاتی ہے مگر نبض کی رفتار تیز معلوم ہوتی ہے۔ اسہال کی شکایت بدستور رہتی ہے بخار حسب سابق شام کو تیز مگر صبح کو کم۔ ساتویں سے دسویں دن کے درمیان پیٹ او جسم کے اکثر مقامات پر گلابی رنگ کے دانے نمودار ہوتے ہیں
تیسرا ہفتہ:جن کو بیماری کا حملہ شدید ہوا ہو اور انہوں نے ٹھیک سے علاج بھی نہ کروایا ہو اس ہفتے ان کی بیماری کا زور ٹوٹ جاتا ہے جسم پر کمزوری کے آثار نظر آتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو خراب حال مریضوں کی آنتوں سے خون آنے لگتا ہے آنتوں میں سوراخ ہوکر جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے دماغی حالت خراب ہوسکتی ہے آنتوں میں سوراخ یا جریان خون یا دل کی سوزش موت کا باعث بن جاتے ہیں۔
چوتھا ہفتہاگر مرض میں پیچیدگیاں زیادہ نہ ہوئی ہوں تو اس ہفتے بخار ٹوٹ جاتا ہے بھوک پھر سے لگنے لگتی ہے زبان صاف ہوجاتی ہے وزن بڑھنے لگتا ہے نبض کی حالت بہتر ہوتی ہے لیکن معمولی چلنے پھرنے سے تیز ہوجاتی ہے دل کی کمزوری یا گردوں پر برے اثرات سے پیروں پر ورم آجاتا ہے خون کی نالیوں میں سوزش کی وجہ سے کسی درید میں خون جم کر ایک نیا مسئلہ پیدا کردیتا ہے اگر گردے یا پتہ متورم ہوگئے ہوں تو مریض ظاہری طور پر شفایاب ہونے کے باوجود اپنی جسمانی نجاستوں کے ذریعے تپ محرقہ یا ٹائیفائیڈ بخار کے جراثیم خارج کرتا رہتا ہے اور دوسروں کیلئے خطرے کا باعث بن جاتا ہے جن مریضوں کو بیماری کے دوران غذا کم دی گئی ہو یا ان کو دواوں کی مقدار ضرورت سے کم کردی گئی ہو تو 9-12 دن کے بعد پھر سے بخار چڑھ جاتا ہے اور سارا قصہ ازسر نو شروع ہوجاتا ہے۔

تشخیص
برطانوی ماہرین کا اندازہ ہے کہ84 فیصد مریضوں کی علامات کی بنا پر تشخیص کی جاسکتی ہے چونکہ یہ بیماری خطرناک اور علاج کیلئے معمول سے زیادہ تردو کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے تشخیص کے ساتھ ساتھ ایسے ٹیسٹ بھی کرنے ضروری ہیں جن سے مریض کی بیماری کی نوعیت یقینی ہوجائے۔

TLC&DLC

خون میں موجود سفید دانے بیماریوں کی تشخیص میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد اوران کی مختلف قسموں کا تناسب بیماریوں کی تشخیص میں مددگار ہوتا ہے۔

علاج
طب جدید میں اس کا علاج اینٹی بایوٹک ادویات سے کیا جاتا ہے بخار کی شدت توڑنے کیلئے اسپرین وغیرہ دی جاتی ہے۔ نبی کریم ا نے بخار کو جہنم کی آگ قرار دیکر فرمایا کہ اسے پانی سے ٹھنڈا کرو‘ تیز بخار کیلئے مریض کے جسم پر پانی پھیرا جائے کپڑے کو پانی میں تر کرکے ماتھے پر اور پیروں پر بار بار پھیرنے سے بخار کی شدت کم ہوجاتی ہے بخار اگر زیادہ ہو اور موسم سرد نہ ہو تو یہی کپڑا بدن پر بھی پھیرا جائے۔
مریض کی قوت مدافعت قائم رکھنے کیلئے اس کی غذا پر خصوصی توجہ دی جائے جو ابال کر چھان کر یا پانی دانہ میں کئی بار پلایا جائے اگر جو کے پانی میں شہد ملا کر پیا جائے تو سب سے بہتر ہے شہد ایک مکمل غذا ہے جسم کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے شہد مکمل طور پر جراثیم کش ہے اسے پلانے سے پیٹ کے زخم مندمل ہوتے ہیں۔ شہد پینے والوں کی آنتوں میں سوراخ نہیں ہوتا دل اور نبض کی کمزوری دور کرنے کیلئے شہد ایک مقوی دوا ہے۔
ٹائیفائیڈ بخار کے علاج کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مریض کو ایسی غذائیں دی جائیں جن میں بھوک کم از کم ہو ،تاکہ ہضم ہونے کے بعد وہ آنتوں پر وزن نہ ڈالیں کیونکہ ایسا ہونے سے آنتوں کے زخم پھٹ سکتے ہیں یاان میں سوراخ ہوسکتا ہے اس لیے گوشت کھانا سب سے آسا ںٰ گوشت کی یخنی یا باریک کرکے مصالحوں کے بغیر قیمہ بنا کر دیا جائے۔ قسط شیریں کو جراثیم کے ہلاک کرنے اور سوزشوں کے خلاف جسم کی قوت مدافعت بڑھانے میں کمال حاصل ہے۔
ٹائیفائیڈ بخار کے مریضوں کو قسط شیریں 80 گرام برگ مہندی 20 گرام پیس کر ملا کر چھوٹا چمچ صبح و شام دیا ہر ایک مریض کو ایک ہفتہ میں شفایاب ہوگیا۔ اگر ایک ہفتہ میں شفایابی نہ ہوتو علاج کو چند روز شہد بکثرت استعمال کیا جائے کیونکہ شہد ہر بیماری میں شفاءکا مظہر ہے

 

Read More

پیٹ کے کینسر کا تیر بہدف علاج

ہمارے عزیز وں میں فورتھ ایئر کے طالب علم کو عین امتحانات کے دوران پیٹ میں تکلیف ہو گئی۔ پہلے درد اٹھا پھر مسلسل
ٹیسیں اٹھنے لگیں اور درد ایسی شدت اختیار کر گیا کہ والدین پہلے تو اپنے شہر میں علاج کراتے رہے۔ پھر آخر کار جب صحت بد سے بد تر ہوتی گئی اور ڈاکٹر حضرات نے مایوسی کا اظہار کیا کہ آپ کسی بڑے ہسپتال میں لے جائیںچونکہ والدین کا اکلوتا چشم و چراغ تھااس لئے وہ نشتر ہسپتال ملتان لے گئے۔ وہاں بڑے سرجن کا علاج ہونے لگا۔ جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا۔ ایک ہفتے کے بعد اچھے علاج اور توجہی کے باوجود وہ نوجوان تکلیف کی شدت سے ہر وقت چیختا اور چلاتا۔ آخر اس ہسپتال میں میٹنگ ہوئی اور پھر ان لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارے علاج سے یہ نوجوان ٹھیک نہیں ہو سکا۔ آپ لوگ اسے امریکہ لے جائیں ‘شاید وہاں علاج ہو سکے۔ والدین نے جب یہ سنا تو ان کی تو امید ہی ختم ہو گئی۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اسٹیچر پر ڈالا اور روتے دھوتے ہسپتال سے نکلے۔ ان کے عزیز و اقارب بھی ساتھ تھے۔ والدین کی آہ و بکا ایسی تھی کہ جتنے بھی لوگ تھے۔ وہ والدین سے پوچھتے
کہ کیوں اس قدر دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں؟ معلوم ہوتا تو وہ بھی ہمدردی کرنے ساتھ شامل ہو جاتے۔ آخر ہسپتال کے گیٹ پر ہجوم پہنچا تو وہاں پہ ایک بزرگ نے آگے بڑھ کر پوچھا کیا معاملہ ہے؟ جب انہیں اس نوجوان کی بیماری کی تفصیل بتائی تو انہوںنے ان کے والدین کو بلوایا۔ جب وہ آگئے تو وہ بزرگ فرمانے لگے یہ نوجوان صرف تین دن میں ٹھیک ہو جائے گا اگر آپ علاج کر لیں تو بتا دیتا ہوں۔ بیمار بیٹے کے والدین نے حامی بھر لی کہ جو بھی علاج بتائیں گے وہ کریں گے۔ان بزرگ نے علاج یہ بتایا ۔ نیم کی کونپل کی پتیاں لیں‘ ان کو گھوٹ لیں ‘ اس کا پانی دن میں تین مرتبہ پلائیں۔ بھینس کا خالص دودھ ابالیں اور دودھ میں تین چمچ گائے کا گھی ڈالیں۔ وہ دودھ بھی تین دن پلائیں۔ شرط یہ تھی انہیں لباس نہ پہنائیں۔
ان دونوں دواﺅں سے مریض کو بے حد موشن ہوں گے جو کہ بیماری کو جڑ سے ختم کر دیں گے۔ اس مریض کو یہ چیزیں استعمال کرائی گئیں۔ تین دن گزر گئے اورایک مرتبہ پھر والدین اور مریض چیک اپ کرانے نشتر ہسپتال جا رہے تھے اور ان بزرگ کی تلاش میں جنہوں نے یہ نسخہ دیا تھا۔ پہلے تو سرجن صاحب کے پاس گئے۔ مریض کا چیک اپ کرایا‘ سرجن صاحب کے سامنے ایک صحت مند نوجوان کھڑا تھا۔ رپورٹیں دیکھیں تو سرجن کی عقل دنگ رہ گئی۔ جیسے اس نوجوان کو تو کوئی مرض نہیں۔ مگر وہ سرجن خود حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ یہ نوجوان کونسے علاج سے صرف تین دن میں صحت یاب ہو گیا۔ پھر سرجن نے سوالیہ انداز میں ان کے والدین سے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا۔ پھر تو وہ سرجن بھی ان بزرگ کی تلاش میں نکلے۔ لیکن وہ بزرگ وہاں سے جا چکے تھے۔ لیکن وہ پیٹ کے کینسر کا تحفہ ضرور دے گئے۔اشیاءنیم کی کونپل کی پتیاں تین تولے ‘پانی ایک گلاس ڈالیں‘ دودھ خالص بھینس کا ایک گلاس ‘تین چمچ گائے کا گھی۔ نیم کی کونپل کونڈی ڈنڈے سے گھوٹ لیں۔ پانی میں ڈال کر چھان لیں‘ چھنا ہوا پانی مریض کو پلا دیں۔ ایک گھنٹے بعد دودھ پلائیں یہ نسخہ دن میں تین بار استعمال کرنا ہے۔ دن بڑھائے جا سکتے ہیں اگر افاقہ نہ ہو۔ راقمہ طویل عرصے سے جڑی بوٹیوں پر ریسرچ کر رہی ہے‘ ان جڑی بوٹیوں میں اللہ نے جس قدر شفاءرکھی ہے ‘راقمہ نے عمل کیا اور لوگوں کو کروایا تو ششدر رہ گئی۔ بچوں کو بیماری سے تڑپتے ہوئے دیکھتی ہوں تو بہت غمگین ہوتی ہوں‘اس لئے جڑی بوٹیوں کے ان فوائد کو عام کرنا چاہتی ہوں۔
نزلہ زکام دور کرنے کیلئے رتن جوت کی جڑیں لے لیں‘ ایک پاﺅ جڑیں لیں اس کوباریک پیس کر ایک کلو سرسوں میں ڈال کر دھوپ میں رکھ دیں۔ جب یہ تیل سرخ ہو جائے تو اسے نزلہ زکام کیلئے استعمال کریں۔ راقمہ نے ایک کلو تیل خریدا لیکن بنج احمر بوٹی کی مقدار بڑھا دی۔ وہ سرسوں کا تیل تیار کرلیا۔ اب اس پر ریسرچ شروع کی تو مندرجہ ذیل فوائد سامنے آئے۔
1 سر میں شدید درد ہو‘ اس تیل سے مالش کریں سر کادرد سیکنڈوں میں غائب ہوجاتا ہے۔ 2۔ راقمہ کے پیٹ پر بہت زیادہ دانے نکل آئے تھے۔ ایسے نوکدار اور تکلیف دہ ‘ بے حد خارش ہوتی تھی۔ اتنی شدید تکلیف کبھی نہ ہوئی تھی۔ راقمہ نے اس تیل کو خارش دانوں پر لگایا فوری سکون ہوا۔ خارش غائب ہو گئی‘ نوکدار جو دانے تھے وہ خود بخود جھڑ گئے۔ 3۔ ایک خاتون امریکہ میں تھیں‘ ان کے اندرونی حصے میں دس سال سے خارش تھی‘ روئی سے انہیں استعمال کا طریقہ بتایا ان کی خارش چند گھنٹوں میں غائب ہو گئی۔ یہی تیل استعمال کیا۔ 4۔ یہی تیل ہاتھوں اور چہرے پر لگایا ہاتھوں کی رنگت سفید ہو گئی‘ شفاف ہو گئے اور چہرے پر لگایا تو رنگ نکھر آیا۔ 5 ۔ میرے ہمسفر کو نزلے ‘ کھانسی کا شدید اٹیک ہوا‘ اس تیل سے مالش کی ‘ کانوں کے پیچھے اور سینے پر صرف دو مرتبہ۔ اللہ کا خاص کرم ہے کہ نزلہ کھانسی بالکل ٹھیک ہو گیا اور سر کا درد بھی‘ ورنہ ایک ہفتہ مستقل بیڈ ریسٹ کرتے اور ایک ہزار کی دوا آنی تھی۔ بیٹے کو بھی ہوا تو یہی تیل استعمال کیا‘ ناک کے اوپر اور اندر لگایا اور اسی طرح مالش کی‘ ماشاءاللہ ٹھیک ہوا‘ اگر الرجی میں یہ تیل استعمال کیا جائے تو کیا ہی بات ہے‘ الرجی ختم ہو جاتی ہے۔ 5 ۔ ایک محترمہ کو طویل عرصے سے الرجی کی بیماری شروع ہوئی۔ پندرہ سال قبل الرجی ہوئی‘ ناک بند ‘ نزلہ ‘ چھینکیں۔ انہوں نے پورے پاکستان میں علاج کروایا۔ کئی لاکھ روپے اس علاج پر خرچ ہوئے ‘ ایسی دواﺅں کا استعمال ہوا کہ اس خاتون کے گردے سکڑ گئے‘ ہر ڈاکٹر نے علاج سے انکار کر دیا۔ وہ میرے پاس آئیں۔ انہیں بھی تیل استعمال کرایا‘ ان کا نمونیہ الرجی اور کھانسی تینوں مرض ٹھیک ہو گئے۔ 6۔ 25 دن کی بچی کو نمونیہ تھا‘ ڈاکٹر نے کہا کہ اگر بچ جائے تو بڑی بات ہے۔ وہ بچی میرے پاس لائی گئی‘ اس کو مالش کی ‘ گرم پٹی باندھی‘ سیکائی کی گئی‘ صبح بچی کو جگانا پڑا اتنے سکون سے سوئی اور صبح کو نارمل تھی۔ 7۔ اس کو حکیم صاحب نے روغن اکسیر اعظم کہا ہے ۔ 8۔ ڈینگی بخار کے مرض میں مبتلا بچوں ‘بڑوں کو یہ تیل استعمال کرایا جائے۔ مزید تفصیل تو طویل ہو جائے گی‘ برائے مہربانی میرے اور مخلوق خدا کے ساتھ تعاون فرمائیں۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے۔ آمین

آٹا جو کہ ایک بنیادی غذا اور ضرورت ہے اسے سفید کرنے والے ایلوکسن سے پوری انسانیت کا نقصان ہو رہا ہے۔

غیر ضروری کیمیائی مواد کا استعمال مضر اثرات اور بیماریوں کی جڑ ہے۔ یہ بنی نوع انسان کیلئے ایک عذاب اور لمحہ فکریہ بن گیا ہے۔ سفید آٹا جس کیلئے اتنا بڑا بحران وجود میں آیا ہے‘ اس میں سفید کرنے والا کیمیکل ملایا جاتا ہے جسے ایلوکسن (alloxan) کہا جاتا ہے۔ یہ جز انسانوں میں ذیابیطس کا موجب ہے۔ یہ انسانوں کیلئے تباہ کن ہے۔ سفید آٹے کی روٹی کھانے سے ذیابیطس کی بیماری لاحق ہونے کے خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ روٹی‘ چپاتی‘ نان‘ ڈبل روٹی اور بَن ہماری غذا کا جزو ہیں‘ سفید اور خوبصورت بنانے کے طریقے میں اس کیمیکل کا استعمال بڑے پیمانے پر لبلبے کو ناکارہ کرنے اور ذیابیطس کا موجب ہے۔ اس کی معلومات سائنسدانوں کو کئی سالوں سے ہے یہاں تک کہ اس کا استعمال لیبارٹری میں چوہوںمیں ذیابیطس پیدا کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔ آٹا جو کہ ایک بنیادی غذا اور ضرورت ہے اسے سفید کرنے والے ایلوکسن سے پوری انسانیت کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ عمومی طور پر زہر دینے کے برابر ہے۔
ایلوکسن یورک ایسڈ کا Derivativeہے۔ یہ لبلبہ میں Blood-Cells کو Damage کرتا ہے۔ یہ ٹھوس طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ ایلوکسن ذیابیطس کرتا ہے جیسا کہ کولیسٹرول دل کی شریانوں کو تنگ کرتا ہے اور عارضہ قلب کا موجب ہوتا ہے۔
ذیابیطس دنیا میں ایک وباءکی طرح پھیل رہی ہے۔ اس میں کثرت سے کھانا‘ مرغن غذا کا استعمال‘ موٹاپا ‘ ورزش کا نہ ہونا بھی وجوہات میں شامل ہیں۔ یہ انسانیت پر کیمیائی جنگ ہے۔ یہ بیماری اکثر گھرانوں میں سرایت کر گئی ہے۔ انتہائی ضروری ہے کہ اس کا نوٹس لیا جائے۔ ڈاکٹر حضرات‘ سائنسدان خاص طور پر ارباب عقل و شعور اس معاملے کو سلجھائیں اور اس کا سد باب کریں۔ آٹے کی خوبصورتی ایک سفید موت بن گئی ہے۔ ذیابیطس سے بینائی دوران خون‘ گردے‘ قلب اور جگر متاثر ہوتا ہے۔ لوگ ڈایالسس پر آجاتے ہیں‘ بازور اور خاص طور پر ٹانگیں کٹ جاتی ہیں۔ یہ حس رکھنے والے حضرات کیلئے ایک امتحان ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اس چیز سے سب انسانوں کو آگاہ کریں۔
خالص آٹے کا استعمال‘ سفید کرنے والے بلیچنگ ایجنٹ ایلوکسن سے بہتر ہے۔ آنتوں کیلئے خالص گیہوں کافی بہتر ہے ۔ اس سے کینسر کا بھی امکان کم ہو جاتا ہے۔ یہ Refined اور غیر فطری غذا ہم سب کیلئے مضر ہے۔ آئیے ہم سب صحتمند زندگی اور اپنی نسل کے تابناک مستقبل کیلئے کام کریں۔ ہمارے محکمہ زراعت و صحت کو ہنگامی طور پر اس کیلئے تحقیق کا انتظام کرنا چاہیے۔ کہیں یہ بے حسی ہم کو ڈس نہ لے اس لئے اس سے پہلے کہ مکافات عمل ہمیں گھیر لے اس سے بچاﺅ کیلئے سوچ‘ غور و فکر اور تحقیق لازمی ہے۔

پاﺅں دھوئیں ٹینشن سے نجات پائیں

پاﺅں دھوئیں ٹینشن سے نجات پائیں
عید کی خریداری کا موقع ہو یا شادی بیاہ کی تیاریاں ہو رہی ہوں۔ بازاروں میں پسند کی چیزیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے‘ دکانداروں سے مول بھاﺅ کرتے کرتے جب ہم گھر واپس آتے ہیں تو تھک کر نڈھال ہو جاتے ہیں۔ کبھی سردرد کی شکایت ہوتی ہے اور کبھی شدید اضمحلال طاری ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال سے نجات کیلئے ہم سوائے اسپرین کی گولیاں نگلنے کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں لیکن چین میں ایسا نہیں ہوتا‘ وہاں کے لوگ خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ‘جب زندگی کے ہنگاموں اور بھاگ دوڑ سے بہت زیادہ تھک جاتے ہیں اور سکون کے متلاشی ہوتی ہیں تو وہ ” پاﺅں دھونے والوں“ کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ چین میں ذہنی یا جسمانی دباﺅ سے نجات کا یہ تیر بہدف علاج سمجھا جاتا ہے۔
اگر آپ کبھی چین جائیں اور وہاں کی مصروفیات سے اسٹریس محسوس کرنے لگیں تو ” فٹ واش کی کوئی دکان یا پارلر تلاش کریں۔ یہاں پاﺅں دھونے والا نوجوان آپ کے پاﺅں کو ہاتھوںمیں لے کر ہولے ہولے مساج کرے گا۔ گاہے بگاہے چھوٹی بادامی آنکھوں سے آپ کی طرف دیکھتے ہوئے آپ سے یہ بھی پوچھے گا کہ ” میری مالش سے آپ آرام محسوس کر رہے ہیں؟ زیادہ بھاری تو نہیں لگ رہا؟ بہت ہلکا تو نہیں ہے؟ “ پاﺅں دھونے کے بعد جب وہ اس پر مساج کے ساتھ مرہم ملتے ہوئے ہلکے ہاتھوں سے پاﺅں کو تھپتھپائے گا تو آپ کو ایسا لگے گا جیسے آپ ہر قسم کی ٹینشن سے نجات پا چکے ہیں۔ مساج کے دوران پاﺅں کے ایک حصے کو دبا کر وہ آپ کو یہ بھی بتا سکتا ہے کہ یہ پیٹ ہے اور ایڑی کی طرف دباﺅ ڈال کر اسے گردے کی جگہ قرار دے گا۔ غرضیکہ جسم کے تمام حصوں میں درد اور بے آرامی کا مداوا پاﺅں کی اس مالش میں پنہاں ہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے اس پر کیف تجربے سے آپ کے جسم کو اتنی راحت محسوس ہو گی کہ شاید وہاں سے اٹھنا بھی نہ چاہیں۔
پاﺅں دھونے کا یہ فن چین میں ایک انتہائی مقبول تفریحی سرگرمی سمجھی جاتی ہے ۔ دوسرے لوگوں کے پاﺅں دھو کر اور مساج کر کے روزی کمانے والے فٹ پاتھوں پر بھی مل جائیں گے اور فائیو اسٹار لگژری ہوٹلوں کے پارلرز میں بھی وہ دستیاب ہوتے ہیں لیکن چارجز میں اسی طرح کا فرق ہوتا ہے جس طرح ہمارے ہاں کے فٹ پاتھ پر بیٹھے حجاموں اور ایئر کنڈیشنڈ سیلو ن کے خوش پوش‘ مہذب ہیئر ڈریسرز کے معاوضے میں ہوتا ہے۔ ہوٹلوں میں ” فٹ واشنگ“ کے مخصوص کمرے ہوتے ہیں ۔ چینی خاتون لکڑی کے ایک تسلے میں گرم پانی لے کر آتی ہیں۔ جس میں خوشبو دار جڑی بوٹیاں بھی پڑی ہوتی ہیں اور کمرہ اس کی خوشبو سے معطر ہو رہا ہوتا ہے۔ پہلے وہ پاﺅں کو تسلے میں بھگوتی ہیں‘ اسے آہستہ آہستہ رگڑکر صاف کرتی ہیں‘ مختلف زاوئیے سے ہاتھوں میں لے کر دباتی ہیں اور اتنی یکسانیت کے ساتھ تھپتھپاتی اور سہلاتی ہیں کہ پاﺅں دھلوانے والے کو نیند آنے لگتی ہے۔ اس کمرے میں آنے والے مہمانوں کی جڑی بوٹیوں والی چائے سے تواضع بھی کی جاتی ہے۔
آج آپ کو جین کے ہر شہر میں XI‘YUکے اشتہارات والے نیون سائز نظر آئیں گے جو ” پاﺅں کی دھلائی“ کے چینی متبادل الفاظ ہیں۔ یہ نیون سائن اوربورڈز بوسیدہ تہہ خانوں کی کوٹھڑیوں اور کھوکھوں کے علاوہ پرائیویٹ میڈیکل کلینک کے اوپر بھی جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ فٹ واشنگ کیلئے سینما گھروں کی طرح وسیع ہال بھی موجود ہیں جہاں آپ پاﺅں پر مساج کے ساتھ آرام کرسی پر بیٹھ کر تازہ ترین فلم سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ پر تکلف جگہوں پر ڈیڑھ گھنٹے پاﺅں کی مالش اور دھلائی کیلئے پانچ سے دس پاﺅنڈ تک معاوضہ وصول کیا جاتا ہے اور سستی جگہوں پر ایک سے دو پاﺅنڈ میں کام ہو جاتا ہے ۔
چین میںپاﺅں دھو کر گز ربسر کرنیوالوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو دور دراز کے پسماندہ دیہی علاقوں سے ہجرت کر کے شہروں میں اس امید کیساتھ آئے ہیں کہ یہاں اپنا معیار زندگی بلند کرینگے یا جن لوگوں کو اپنے پیچھے گھر چھوڑ کر آئے ہیں ان کیلئے پیٹ بھر نے کا سامان مہیا کرسکیں گے۔

اجوائن درجنوں بیماریوں کا علاج

اجوائن درجنوں بیماریوں کا علاج
اجوائن کا استعمال بطور دوا زمانہ قدیم بلکہ قبل از مسیح سے ہو رہا ہے جبکہ زبان طب (فارسی) میں نانخواہ کے نام سے پکاراجاتا ہے  اجوائن ایک مفرد ہے۔ اس کے پودے کا رنگ سفیدی مائل اور بیج سونف کی طرح حجم میں چھوٹے اور ذائقہ میں تلخ ہوتے ہیں۔ اس کا پودا ہندوستان‘ ایران‘ مصر اور پاکستان میں عام پایا جاتا ہے۔ یہ کاشت بھی کیا جاتا ہے اورخودرو بھی ہے۔ اطباءنے اس کا مزاج تیسرے درجے میں گرم خشک بتایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرد مزاج کے لوگوں میں مفید ہے اور بلغمی مزاج اور بلغمی امراض میں بہت فائدہ دیتا ہے۔ اجوائن دو قسم کی ہوتی ہے جس اجوائن کا ذکر کیا جارہا ہے اسے دیسی اجوائن کا نام دیا جاتا ہے ۔دوسری قسم اجوائن خراسانی ہے۔ یہ ایک مختلف چیزہے۔ یہ تخم بھنگ کا نام ہے جس کے افعال و معالجاتی اثرات قطعی مختلف ہیں۔ تخم بھنگ جو خراسان سے ہندوستان آتے تھے اجوائن سے مشابہہ ہونے کے باعث اجوائن خراسانی کا نام دے دیا گیا ہے ‘حالانکہ ان دونوں میںبہت تضاد ہے۔
اجوائن کے کیمیائی تجزئیے سے اس میں سے ایک جوہر ست اجوائن یا تھامول‘ کاربالک ایسڈ سے پچیس گنا زیادہ انٹی سیپٹک ہے اور جسم پر اس کے مضر اثرات کاربالک ایسڈ کی نسبت نصف ہیں ۔ طب میں اجوائن سے معجون نانخواہ ‘ عرق نانخواہ اور شربت نانخواہ تیار کئے جاتے ہیں اجوائن پیٹ کے مختلف امراض جن میں درد معدہ‘ ریاح معدہ‘ بھوک کم لگنا‘ پیٹ کے کیڑے اور قولنج میں مفید ہے۔
اجوائن نہ صرف کھانے کو لذیذ بناتی ہے بلکہ ہاضم بھی ہے۔ افیون کے مضراثرات زائل کرتی ہے اسی لئے اسے افیون کا مصلح قرار دیا گیا ہے۔ اجوائن جگر کے سدے کھولتی ہے۔ گردہ و مثانہ کی پتھری توڑتی ہے پیشاب اور حےض کو جاری کرتی ہے۔ خوراک:۔ ۵ تا ۰۱ گرام حسب ضرورت۔پیٹ کے کیڑے
اگر پیٹ میں کیڑے ہوں تو اجوائن میں شہد ملا کر چاٹنے سے کیڑے ختم ہو جاتے ہیں۔پیٹ درد
پیٹ درد کی صورت میں اجوائن ۳ گرام۔ کالا نمک ڈیڑھ گرام ملا کر نیم گرم پانی سے کھانے سے پیٹ دردمیں فائدہ ہوتا ہے۔ریاح معدہ
ایسی صورت میں اجوائن ‘ کالی مرچ اور نمک میں پیس کر ہم وزن گرم پانی سے کھانے سے ریاح معدہ میں مفید ہے ۔قولنج
اجوائن 12 گرام۔ نمک سینڈھا ۳ گرام ملا کر کھانا قولنج میں مفید ہے۔

اسہال
اجوائن کا عرق اور چونے کا پانی ملا کر پلانا اسہال میں مفید ہے۔

ناف پھولنا
اجوائن انڈے کی سفیدی میں ملا کر لگانا بچے کی ناف پھول جانے میں مفید ہے۔

ہیضہ

روغن اجوائن کے دو قطرے پانی میں ملا کر پلانا ہیضہ کے ابتدائی ایام میں مفید ہے۔

چھوٹے بچوں کو قے اور دست
ایسی صورت میں ماں کے دودھ کے ساتھ اجوائن کا استعمال مفید ہے۔

زچہ کیلئے
اجوائن اور سونٹھ کا ہم وزن سفوف ملا کر زچہ کے کھانے میں ملانے سے نہ صرف اس کا کھانا لذیذ ہو جائے گا بلکہ بد ہضمی بھی نہیں ہو گی۔

عرق اجوائن
عرق اجوائن‘ فالج‘ رعشہ اور اعصاب کیلئے مفید ہے۔ ریاحوں کو تحلیل کرتا ہے ۔
روغن اجوائن
روغن اجوائن اور سفوف دار چینی ایک گرام ملا کر کھانے سے پیٹ درد جاتا رہتا ہے۔ اس تیل کی مالش جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔ نظام ہضم کیلئے فائدہ دیتا ہے۔

 

Read More

فاسٹ فوڈ سے شریانوں کی تنگی

فاسٹ فوڈ سے شریانوں کی تنگی
فاسٹ فوڈ کے کھانے جھٹ پٹ تیار ملتے ہیں لیکن ان میں موجود چکنائی کھانے والوں کی شریانوں کو روغنی مادوں سے بھر دیتی ہے۔ الٹرا ساﺅنڈ سے ایسا کھانا کھانے والوں اور کم چکنائی والا کھانا کھانے والوں کی شریانوں کے جائزے سے ظاہر ہوا کہ پہلے گروپ کے خون میں چکنائی کی مقدار 50 گرام اور بغیر بالائی کا دودھ، پھل اور کم چکنائی والی روٹی کھانے والوں کے خون میںچکنائی کی مقدار محض 6 گرام تھی۔ پہلے گروپ کو بالائی والا آئس کریم، زیادہ چربی والا گوشت اور پنیر کے سینڈوچ کھلائے گئے تھے۔
شریانوں میں چکنائی کھانے کے بعد صرف 3 سے 6گھنٹوں میں جمع ہو گئی اور خون کی روانی میں 25 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ یہ اثر اگرچہ چند گھنٹوں تک رہا، لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہو گیا کہ ایسی روغنی غذائیں کھاتے رہنے سے شریانوں کی تنگی ہائی بلڈ پریشر اور حملہ قلب کا یقینی سبب بن سکتی ہے۔

آیئے ! بیوی کا خانہ خراب کریں

یاد رکھئے !بیوی کو آپ کے لیٹ آنے سے بڑی چڑ ہوتی ہے۔ اس لئے رات کو ہمیشہ دیر سے واپس آیئے۔ دفتری اوقات کے بعد جو وقت بچے اسے ہمیشہ دوستوں کے ساتھ سیرو تفریح، اور ہوٹل وغیرہ میں ضائع کیجئے۔ گھر جا کر بیوی کے ساتھ مغز مارنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دس بجے سے پہلے جانا تو بیوقوفی ہے البتہ بارہ بجے کے بعد آپ بخوبی گھر تشریف لے جا سکتے ہیں۔ اگر بدنصیب بیوی آپ کے انتظار میں اس وقت بھی جاگ رہی ہو تو نادم ہونے کی بالکل ضرورت نہیں۔ وہ ناک بھوں چڑھائے اور دیر سے آنے کی شکایت کرے، تو میز پر زور زور سے مکے مار کر یوں مخاطب کیجئے۔” دیر سے آیا ہوں تو کیا غضب ہو گیا۔ اس گھر میں میرے سکون کے لئے رکھا ہی کیا ہے۔ خون پسینہ ایک کر کے کماتا میں ہوں اور تمہیں تو عیش کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں۔ ہماری بلی اور ہمیں کو میائوں…. سارے دن کے تھکے ہوئے ذہن کیلئے اگر تفریح کے چند لمحے بھی نہ گزاروں تو دماغ خراب ہو جائے۔ کون سا جہیز میں کوٹھی کار لے آئی تھیں کہ مجھے محنت نہ کرنی پڑتی۔ قسمت پھوٹ گئی اپنی تو بیوی کھانا لاکر رکھے وہ ٹھنڈا یا ناپسندیدہ ہو یا آپ باہر دوستوں کے ساتھ پیٹ پوجا کر چکے ہوں تو بیوی کو یوں نوازیئے:”یہ کھانا پکایا ہے یا کونے والے ہوٹل سے منگوایا ہے؟ تین سو روپے ماہوار تنخواہ پانے والا کوئی شریف انسان بھی اسے نہیں کھا سکتا؟ ہرگز نہیں…. اگر زیادہ متاثر کرنا ہو تو بے شک پلیٹیں اٹھا کر زمین پر دے ماریئے اور کپڑے بدلے بغیر زور زور سے پائوں پٹختے ہوئے اپنے کمرے میں تشریف لے جایئے۔
فرض کیجئے بھوک لگی ہے اور بیوی بے چاری نے آپ کے انتظار میں ابھی تک کھانا نہیں کھایا تو اس سے ہرگز مت کہئے کہ آئو بیگم !کھانا کھا لو…. اور اگر وہ خود ہی کھانا شروع کر دے تو ایک قہر آلود نظر ڈالئے اور یوں فرمایئے:”تم بھی عجیب عورت ہو، تمہاری وجہ سے روز آفس دیر سے پہنچتا ہوں اور ڈانٹ کھانا پڑتی ہے۔ کسی دن نوکری سے جواب مل گیا تو سر پر ہاتھ رکھ کر رونا…. وغیرہ وغیرہ….“
اگر آپ ان سعادت مند شوہروں میں سے ہیں جو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ساری تنخواہ بیوی کے ہاتھ پر لاکر رکھ دیتے ہیں تو سخت غلطی پر ہیں۔ بیوی پر اعتماد کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ضروری خرچ کے لئے پیسے نوکر کو دیجئے اور ساتھ ہی اسے ہدایت کر دیجئے کہ بیوی کی مکمل طور پر جاسوسی کرے اور رات کو تمام ”رپورٹ“ صاحب تک پہنچا دے کہ سارا دن بیگم نے کیا کیا معرکے سر کئے۔ کتنے مہمان آئے، الگ الگ مرد اور عورتوں کی تعداد کیا تھی، بازار گئیں تو کیا کیا خریدا۔ کس کس سے لڑائی مول لی۔ وغیرہ۔
دفتر میں کوئی لیڈی ٹائپیسٹ ہو تو بیوی کے سامنے اسکی تعریف کیجئے۔ بیوی سے چھپانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ بیوی کے سامنے دوسری عورتوں کی جی بھر کر تعریف کیجئے (جھوٹی ہی سہی) عورت سب کچھ برداشت کرسکتی ہے مگر شوہر کی توجہ یا جھکائو کسی دوسری طرف ہو تو یہ اس کی قوت برداشت سے باہر ہے۔بیگم صاحبہ بازار سے کوئی پسندیدہ چیز خرید کر لائیں تو اسکی ہرگز تعریف نہ کیجئے۔ ہمیشہ اسے فضول خرچ، بے پرواہ اور پھوہڑ کا خطاب دیجئے۔ اگر بیوی بھول کر کسی کپڑے یا زیور کی فرمائش کر بیٹھے۔ تو ہرگز پوری نہ کیجئے بلکہ اسے یہ احساس دلایئے کہ وہ کسی وزیر یا سفیر کی بیگم نہیں ہے۔ معمولی آدمی کی بیوی ہے۔ اپنی اصل تنخواہ کا راز بیوی سے چھپایئے۔ اگر آپ بتا دیں گے تو اس میں سراسر آپ کا نقصان ہے۔ اگر وہ سال یا چھ ماہ بعد کسی دعو ت یا شادی پر جانے کیلئے تیار ہو رہی ہے تو اسے بنا سنورا دیکھ کر ہرگز اس کی تعریف نہ کیجئے ورنہ اس کا دماغ عرش تک پہنچ جائے گا اور آپ کا مشن ناکام رہے گا۔ صرف اتناکہئے۔ خوب بہت خوب، اگر کچھ فرق باقی ہے تو کہیں سے قرض منگوا لو اور بازار کا ایک چکر اور لگا لو تاکہ یہ حسن جہاں سوز اور بھی چمک سکے۔“ اگر آپ بیوی سے وعدہ کر کے جائیں تو کبھی وقت پر واپس نہ آئیں۔ انتظار کی کوفت بھی مزیدار ہوتی ہے۔ بیوی کی بات کم سنئے اور خود زیادہ بولئے۔ اگر اس کی زبان قینچی کی طرح چلنے لگے تو اس سے متاثر ہوئے بغیر زور دار آواز سے اسے یقین دلایئے کہ اس میں کوئی کشش نہیں اور آپ اس کی کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے۔
بالفرض اگر آپ ساری تنخواہ بیوی کو دینے کے حق میں ہیں تو ہر ماہ کے آخر میں پائی پائی کا حساب لیجئے۔ اگر کہیں بھول چوک ہو جائے تو اتنی اونچی آواز میں نصیحت کیجئے کہ محلے والے بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ یقین کیجئے ایسا کرنے سے آپ کے ماں باپ، بہن بھائی سب کے چہرے خوشی سے پھول کر کپا ہو جائیں گے۔ بچوں پر بھی دھول دھپے کی مشق کر سکتے ہیں۔ اپنے کمرے کو قطعاً صاف نہ کیجئے، یہ آپ کا کام نہیں۔ کپڑے ہمیشہ پلنگ پر پھینکئے۔ جوتے کمرے کے عین درمیان بڑے اچھے نظر آتے ہیں۔ شیو کا سامان رائیٹنگ ٹیبل پر اور سیاہی کی دوات ڈائیننگ ٹیبل پر رکھئے۔ کتابوں کے انبار ہمیشہ بستر پر چھوڑیئے۔ گیلا تولیہ ہمیشہ غسل خانے میںپھینک دیں۔ سگریٹوں کی راکھ اپنے کمرے کے علاوہ ڈرائنگ روم میں بھی جابجا دکھائی دے۔ اتوار کو تمام دن دوستوں کے ساتھ چائے کا چکر چلایئے۔ ہر بات کہہ کر ہر کام کر کے، ہر چیز رکھ کے ہمیشہ بھول جایئے اور جب وقت پر کچھ نہ ملے تو چیخ چیخ کر سارا گھر سر پر اٹھا لیجئے۔ یقین کیجئے کہ آپ کی بیوی کا ذہنی سکون درہم برہم ہو جائیگا۔

حروف مقطعات کے ہوشربا کمالات

حروف مقطعات کے ہوشربا کمالات
سارا قرآن الف سے ی تک حروف ابجد ہی کے مجموعے کا نام ہے ہر حرف پرتاثیر ہے۔
حروف مقطعات نورانیات یہ ہیں جس کی ان کو سمجھ آگئی سمجھو ہدایت مل گئی الٓمٓ آلرکٓھٰیٰعٓصٓ طہ طسٓ یٰسٓ صٓ قٓ نٓ جو شخص ان کو ترتیب الٰہی کے ساتھ یعنی اس طرح سے الٓمٓ آلرکٓھٰیٰعٓصٓ طہ طسٓ حمٓ ق س ن چاندی کی انگوٹھی پر نقش کرے اور اعمال صالحہ اختیار کرے اس کی تمام حاجتیں پوری ہوں گی اور عجائب لطف الٰہی جو بیان سے باہر ہے ملاحظہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے۔ شیخ ابوالحسن حرابی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں ان حروف کے خواص بارہا ہم نے دیکھے ہیں۔ بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت امام عبدالرحمن بن عوف زہری رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چند سطریں دیکھی ہیں کہ وہ ان حروف کو ہرایک مال و اسباب کی حفاظت کے واسطے لکھا کرتے تھے۔ ”اے اللہ حفاظت کر آل محمد کے وسیلے سے اور ساتھ الٓمٓصٓ اور کٓھٰیٰعٓصٓ اور حٰمٓسٓقٓ نٓ قٓ وَالقُراٰنِ المَجِیدِ وَالقَلَمِ وَمَا یَسطُرُونَ“ حضرت امام کمال رحمتہ اللہ علیہ جب دریا دجلہ میں سوار ہوتے تو ان حروف کو جو اوائل سطور میں ہیں پڑھتے کسی نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا ”میں جس چیز پر ان کو پڑھتا ہوں یا لکھتا ہوں خشکی یا تری میں وہ محفوظ رہتی ہے اور غرق یا تلف ہونے سے بچ جاتی ہے“۔ بعض علماءجب دریا کے سفر کا ارادہ کرتے تو ٹھیکری یا کاغذ پر ان حروف کو لکھ کر اپنے ساتھ رکھ لیتے۔ جب دریا کا طوفان شروع ہوتا اس کاغذ کو اس میں ڈال دیتے طوفان ختم ہو جاتا اور بعض صالحین سفر میں ان کو اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے کسی نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ ان کی برکت ہم پر ظاہر ہو گئی ہے۔حفاظت کا عمل
ان کے سبب سے جان و مال محفوظ رہتی ہے اور رزق کشادہ ہوتا ہے اور چور و دشمن‘ درندوں اور حشرات سے میری حفاظت رہتی ہے یہاں تک کہ میں مکان کو واپس ہوتا ہوں ذکر ہے کہ کسی بزرگ کی لڑکی نے سوتے سوتے اٹھ کر کسی جگہ پیشاب کر دیا جو پیشاب کی جگہ نہ تھی اس وقت ایک جن اس کو چمٹ گیا اور لڑکی بیہوش ہو گئی۔ ان بزرگ نے اٹھ کر یہ الفاظ پکار کر پڑھے حٰمٓعٓسٓقٓ نٓ وَالقَلَمِ وَمَا یَسطُرُون ان کے پڑھتے ہی وہ جن بھاگ گیا اور پھر نہ آیا۔ جو شخص ان حروف نورانیہ کو چاندی کی گول تختی برج ثور کے طالع میں جب کہ قمر بھی اس میں نقش کرکے اپنے پاس رکھے بہت نفع حاصل ہو۔ حضرت امیر المومنین امام علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں واقعہ بدر سے ایک روز پہلے میری حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے کہا مجھ کو کوئی ایسی دعا فرمائیے جس سے میں دشمنوں پر غالب ہوں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا یہ دعا پڑھو۔
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ط اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ بِحَقِّ آلمٓ وآلمٓ والٓمٓصٓ والٰرٓوالٰمٓرٰو کٓھٰیٰعٓصٓ و طٓہٓ وطٰسٓمٓ ویٰسٓ وصٓ وحٰمٓ وحٰمٓ و حٰمٓعٓسٓقٓ و حٰمٓ وحٰمٓ وحٰمٓ وقٓ ونٓ یَامَن ہُوَ ہُوَ یَامَن لَّااِلٰٓہَ اِلَّا ہُوَ اغفِرلِی وَانصُرنِی اِنَّکَ عَلٰٓے کُلِّ شَیئٍ قَدِیر
کٓھٰیٰعٓصٓ حٰمٓعٓسٓقٓ 5 بار لکھتے ہیں پھر دعا پڑھی جاتی ہے۔ اَللّٰہُمَّ یَاہَادِی یَاکَرِیمُ یَاعَلِیمُ یَابَاقِی یَااِلٰہِی اَقضِ حَاجَتِی اور اپنی حاجت کا نام لے دنیاوی ہو یا دینی پوری ہو گی لیکنکٓھٰیٰعٓصٓ میں ایک راز پوشیدہ ہے کاف کافی ہے اور ہادی اور باری سے اور عین علیم اور صاد صادق سے اسی طرح عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس طرح دعا کیا کرتے تھے۔ یَاکَافِیُ یَابَارِیُ یَاہَادِیُ یَاعَلِیمُ یَاصَادِقُ اِفعَل لِی کَذَا وَکَذَا اور بعض کہتے ہیں اسم اعظم یہی ہے