ہائپر ٹینشن ,Hypertension
موجودہ دور ما دیت پرستی کا دورہے ہر شخص خواہ مرد ہے یا عورت ظاہر بینی میں مشغول ہے آج ہر انسان ظاہری آنکھ سے نظر آنے والی حسین اور منفرد چیزوں کے پیچھے بھاگ رہا ہے خواہ وہ چیز اس کے لیے کتنی ہی نقصان دہ ہو اور اس مختلف دکھائی دینے والی ظا ہری خو بصورتی کو حاصل کرنے کے لئے ہرجائز و ناجائز طریقے کو اپنانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔اس طرح ہم لوگ ظاہر کے ساتھ ساتھ باطنی طور پر بھی نفس کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر تباہی کے دہا نے پر پہنچ چکے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی ناجائز طریقے سے کوئی چیز یا شے حا صل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دراصل وہ خدا ئے بزرگ وبرتر کے نظامِ کائنات میں خرا بی کا باعث بنتا ہے ۔یہاں ہمارے اذہان کی غلام گردشوں میں یہ سوال ضرور بھٹکتا ہوگا کہ ایسا شخص جوکوئی بھی حرام طریقہ اپنانے سے کسی بھی قسم کا گریز نہیں کرتا تو وہ اللہ پاک کی ذات کے نظام میں مخل کس طر ح سے ہو سکتاہے
اس بات کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے فرض کریں کہ ہمار ےجسم کے دو رُخ ہیں ایک وہ رُخ ہے جسے ہماری ظاہر ی آنکھ دیکھ رہی ہے وہ گوشت پوست اور ہڈیو ں کے ڈھا نچے سے بنا ہوا ہے اور دوسرا رُخ روح ہے جس تک رسائی حاصل کرنے میں ظاہر ی آنکھ کا نور قاصر ہے اور یہ دونو ں وجود مل کر ایک انسان بناتے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کسی حرام راستے کا انتخاب کرتا ہے اور جیسے ہی حرام لقمہ اِس کے حلق سے نیچے اُتر کر اس کے معدہ میں پہنچتا ہے تو خون میں سرایت کرکے اس کے بدن کا ایک جزو بن جاتا ہے اور تب وہ لقمہ اِس کے روحانی وجود پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح ایک وجود مختلف اِقسام کے جسمانی اور روحانی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک حرام اور ناجائز راستہ اپنا نے والا شخص بھی اللہ پاک کے نظامِ کائنات میں بگاڑ کا سبب بنتاہے اور جہاں وہ اس نظام کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے وہیں وہ خود بھی مختلف طرح کی خطر ناک، موذی اور تادیر چلنے والی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے جن میں جسمانی اور روحانی دونو ں امراض شامل ہیں۔ اور جب تک انسان دونوں قسم کے امراض (جسمانی اور روحانی) سے چھٹکار انہ پالے تو وہ سکون حاصل نہیں کر سکتا آج کے دور میں ہم مادیت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ قیمتی لباس زیبِ تن کرتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور عالیشان گھر تعمیر کرواتے ہیں جہاں دنیا بھر کی ہر آسا ئش موجود ہوتی ہے لیکن پھر بھی اگر ہم ا یسے کسی شخص سے استفسار کریں تو وہ یہی کہے گا کہ زندگی میں آرام اور سکون نہیں ہے ۔ وہ شخص ہمیں بہت سی جسمانی و دماغی بیماریاں گنوا دے گا جن کا وہ شکار ہوتا ہے اور کوشش کے باوجود بھی ان سے مکمل طور پر کبھی نجا ت حاصل نہیں کر پاتا۔ ذیل میں انسانی وجود کی چند ظاہری اور باطنی بیماریوں کاذکر ہے کہ کس طرح وہ اثر انداز ہو کر ہمارے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہمیں احساس تب ہوتا ہے جب وہ ناسور بن کر ہماری روح پر بھی اثر انداز ہو چکی ہوتی ہیں۔
ہائپر ٹینشن (Hypertension)
ہائپرٹینشن یعنی ہائی بلڈپریشرکو اردو زبان میں بلندفِشار خون بھی کہا جاتا ہے۔اکثر لوگ آج کل اِس خطر ناک مگر آہستگی سے اثر انداز ہونے والے مرض میں مبتلا ہیں ۔اس مرض کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنی جسمانی اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے کسی بھی طر یقہ کو اپنانے سے دریغ نہیں کرتے اور ان خواہشات کے پیچھے لگ کر اپنے آپ کو ایسی سوچوں میں مبتلا کر لیتے ہیں جو ظاہری اور باطنی وجود پر اثر انداز ہوتی ہیں اور جس کا نتیجہ سوائے بیمار ی کے کچھ بھی نہیں۔ اس مرض کی وجہ سے جہا ں اِنسان کا ظاہر ی جسم ہر وقت بے قرا روبے چین رہتا ہے وہیں اس کے اثرات اس کی روح پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور اس کی زندگی بے سکونی کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے۔
انسومنیا(Insomnia)
انسومنیا یعنی نیند کا نہ آنا۔اگر ایک شخص ذہنی اور قلبی طور پر صحت مند اورمکمل طور پر سکون میں ہو تواُسے رات کو بھرپور نیند آتی ہے اور صبح وہ اپنی تمام تھکن اور تمام تر پر یشانیوں سے آزاد ہو کر توانا جسم کے ساتھ جا گتا ہے۔ لیکن ہم میں سے اکثر لوگ اس مرض کا شکا ر ہیں جسے میڈیکل سائنس (طب) کی زبان میں انسومنیا (Insomnia) (یعنی نیند کا نہ آنا) کہا جاتا ہے۔ جب انسان اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کی سوچ کو اتنا حاوی کر لے کہ اس کو اس سوچ اور ڈر کی وجہ سے کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو گی‘ تناؤ کے سبب اپنی نیند کھو بیٹھے تو اس کی زندگی بے ترتیبی کا شکار ہو کر اس کے ظاہری و باطنی وجود کو مزید کمزور کر دیتی ہے۔
ذہنی دباؤ/پریشانی , Depression/Anxiety
جب ہم اپنی نفسانی اور جسمانی لذتوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اپنے نفس کی پیرو ی کرتے ہوئے ہر وہ کام سر انجام دیتے ہیں جس سے ہماری باطنی کیفیت اضطراب کا شکار ہوجاتی ہے تو اس کا اثر یقینی طور پر ہماری جسمانی کیفیت پربھی پڑتا ہے۔قرآن میں سورۃ یوسف میں اللہ پاک ارشاد فرماتاہے
اِنَّ النَّفسَ لَاَمَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓئِ (سورۃ یوسف ۔53)
ترجمہ : نفسِ امار ہ برائی کا امرکرتاہے۔
پس جب نفسِ امارہ کو پوجتے ہوئے برائی کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں تو جہاں ہما ری روح اور باطن پر ہیجانی کیفیت واردہوتی ہے وہیں ہم جسمانی یا ذہنی طور پر ہر وقت پریشانی
Anxiety
اورذہنی تناؤ یا ذہنی دباؤ
Depression
میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اور یہ ایسی کیفیت یا بیماری ہے جو انسان کو مکمل طور پر دیوانہ بنادیتی ہے۔ درج بالا تمام کیفیات کا تعلق جتنا ہمار ے ظاہر سے ہے اتنا ہی ہمارے باطن سے ہے۔کیونکہ اگر ہمارا باطن (روح) صحیح سمت میں ہو گا تو ہمارا ظاہر (جسم) بھی تندرست و توا نارہے گا ۔لیکن ان ظاہر ی اور جسمانی بیماریوں کا موجب بھی ہمارے نفس کی خواہشات (جنہیں روحانی امراض یا بیماریا ں کہاجاتا ہے) ہی ہیں۔
روحانی یا باطنی بیماریوں کو ہوا و ہوس بھی کہا جاتا ہے۔ہوا کے معنی خواہشاتِ نفس اور ہو س کے معنی شہوات کے ہیں۔دنیا میں ہر کوئی خواہشات یا شہوات کی تکمیل کا طالب اور خواہاں ہے۔ان میں سے کوئی رِزق میں فراخی چاہتاہے تو کوئی حسین عورت چاہتا ہے۔ کوئی اولاد چاہتا ہے تو کوئی مال و دولت میں اضافہ کا طلبگار ہے۔ کوئی عہد ہ، عزہ وجاہ اور شہر ت چاہتاہے۔ غرض یہ کہ ہر کوئی اپنے طریقے سے اپنی چاہتوں کی تکمیل چاہتا ہے۔
خواہشاتِ نفس میں سب سے بڑی اور اہم خواہش شہوتِ معدہ ہے۔ شہوتِ معدہ سے مراد طرح طرح کے لذیذ کھانے کھانے اور پیٹ بھر کرکھانے کی لذ ت ہے ۔ شہوت کو سب سے خطرناک اس لئے بھی کہاجاتا ہے کیونکہ تمام گناہوں اور بیماریوں کی ابتدا بھی اسی ایک خواہش کی تکمیل سے ہوتی ہے۔ یہ شہوت ہی ہے جس کی تکمیل کے لیے انسان احکامِ الٰہی کی حدود کو تجاوز کر کے ایسے امور انجام دیتا ہے جو اس کے ظاہری اور باطنی وجود کی بیمار یوں کا سبب بنتا ہے اور شیطان اس کو ہتھیار بنا کر انسان کو ایسی راہ پر گامزن کر دیتا ہے جس سے اس کے دل میں بے سکونی پیدا ہوتی ہے اور پیٹ کی شہوت سے آگے بڑھ کر ز ن اور زیور کی شہوت نفس کی پناہ لیتی ہے جو انسان کو گناہ پر آمادہ کرتی ہے۔
حضر ت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دورانِ خطبہ فرماتے ہوئے سنا شراب گنا ہوں کوکثرت سے جمع کرنے والی اور عورتیں شیطان کا جا ل ہیںاور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوفرماتے سنا عورتوں کو پیچھے رکھو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پیچھے رکھا ہے ۔
ان احادیث کی شرح یہ ہے کہ اگر عورت راہِ فقر میں رکاوٹ ہے تو وہ شیطان ہے کیونکہ شیطان کا کہنا بھی یہ ہے کہ اے عورت تو میرا ہتھیارہے ۔جو عورت راہِ حق پر نہ صر ف خود چلے بلکہ راہِ فقر میں مرد کی معاون بنے اور شریعتِ مطہرہ پرعمل کرے وہ مومنہ ہے۔
شہوتِ معدہ اور شہوتِ جماع کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مال و دولت کی ضرور ت ہوتی ہے اور مال و دولت کی محبت جس دل میں اُجاگر ہوتی ہے تواس دل سے اللہ کی محبت کو نکال دیتی ہے اور وہ دل مختلف قسم کی بیماریوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ انسان حلال اور حرام کی تمیز کھو بیٹھتاہے اور جیساکہ اوپربیان کیا گیاہے کہ حرام کا ایک لقمہ پیٹ میں جانے سے نظامِ جسم میں کس قدر خرابی پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے روح بھی پژمردہ ہو کر پریشان اور بے قراررہنے لگتی ہے۔
حضر ت کعب بن عیاضؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ہر اُمت کے لئے آزمائش کی کوئی چیز ہے اور میری اُمت کی آزمائش کی چیز مال ہے۔
ایک اور ارشاد مبارک ہے ’’جب کسی قوم پردنیاکی دولت و سیع ہوئی تو اس میں بغض و عداوت کا بیج ڈال دیاگیا
حُبِ مال اور حُبِ جاہ وحشمت بہت سی خواہشات اور قلبی امراض یعنی حسد، غصہ ، تکبر، بخل، بغض وکینہ ، ریاکاری، فخر وغرور، غیبت، جھوٹ، لالچ، طمع، بد گمانی،رنجش اور چغل خوری کو جنم دیتی ہے اور یہ خواہشاتِ نفس نہ صرف انسان کوظاہروباطن میں برباد کرد یتی ہے بلکہ معاشرہ میں بھی بگاڑکا باعث بنتی ہے۔اور ان تمام بیماریوں سے نجات کے لیے ہمیں ایسے ڈاکٹر اور طبیب کی ضرورت ہے جو ان بیماریوں سے آگاہ ہو۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے مطابق ایسا مرشد طبیبِ اعظم ہوتا ہے جو تمام قلبی ونفسانی بیماریوں کے علاج کا ماہر ہوتا ہے اور وہ تزکیۂ نفس، تصفیہ قلب، تجلیہ روح سے طالب کے نفسانی اور روحانی امراض کا علاج کردیتا ہے تواس کے ظاہری اور جسمانی امراض خودبخودٹھیک ہوجاتے ہیں۔
سلطان العافین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں
مرشد طبیب کی مثل ہوتا ہے اور طالب مریض کی مثل۔ طبیب جب کسی مریض کا علاج کرتاہے تو اُس تلخ وشیر یں دوائیں دیتا ہے اور مریض پرلازم ہوتا ہے کہ وہ یہ دوائیں کھائے تاکہ صحت یاب ہوسکے (عین الفقر)
فقر کا نظامِ تر بیت یہ ہے کہ ابتدامیں با طن کودرست کیا جاتا ہے پھر ظاہری کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔ یوں تو ظاہر کا اثرباطن پر پڑتا ہے اور با طن ظاہر کو متا ثر کرتا ہے لیکن فقر میں ظاہر کو باطن کے ماتحت کر دیا جاتا ہے۔ جوں جوں طالب ذکر وتصور اسمِ اللہ ذات کرتا جاتا ہے تو مرشد کی باطنی تو جہ سے اس کے باطن میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے لگتی ہیں اور باطن میں طالب کی شخصیت نئے سرے سے تعمیر ہونے لگتی ہے اور آخر کارباطن میں وہ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْاکے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے ۔اس طرح سب کچھ باطن میں وقوع پذیر ہوتا ہے تو ظاہر خود بخود اس کی موافقت اختیار کر لیتا ہے ۔ با لکل اسی طرح جب انسان کو تمام باطنی اور روحانی بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے تو اس کی جسمانی اورظاہر ی بیماریاں بھی خود بخود ٹھیک ہونے لگتی ہیں اور اس کو دائمی سکون حاصل ہو جاتا ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے
اَلاَ بِذِکرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب (الرعد۔28)
ترجمہ : بیشک ذکرِ اللہ (اسمِ اللہ ذات ) سے ہی دلوں کو اطمینان اور سکون حاصل ہو تا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا
لِکُلِّ شَیْئٍ مُصْقِلَۃُ وَمُصْقِلَۃُ الْقَلْبِ ذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ : ہر چیز کے لیے صیقل (صفائی کرنے والی چیز) ہے اور دِل کی صیقل اِسم اللہ کا ذکر ہے ۔
سلطا ن العا ر فین حضرت سخی سلطان باھوؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں
دل کر صیقل شیشے وانگوں باھوؒ ، دور تھیون کُل پردے ھُو
دل کو صاف کرنے کا آلہ ایک ہی ہے اور وہ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات ہے بشر طیکہ وہ ایسے مرشد کامل سے عطاہو اہو جو صاحبِ مسمّٰی کامل اکمل نورالہدیٰ ہو اور وہی مرشد امانتِ فقر اور امانتِ الٰہیہ کا حامل ہوتا ہے اور وہ مرشد کامل، طبیب کامل تمام نفسانی بیماریوں کا ماہرہوتا ہے اور اپنی نگاہِ کامل سے علاج کرتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں
کامل مرشد ایسا ہووے ‘ جیہڑا دھوبی وانگوں چھٹے ھُو
نال نگاہ دے پاک کر یندا‘ وچ سجی صبوں نہ گھتے ھُو
میلیاں نوں کر دیندا چٹا‘ وچ ذرہ میل نہ رکھے ھُو
ایسا مرشد ہووے باھو‘ جیہڑا لوں لوں دے وچ وسے ھُو
آپؒ فرماتے ہیں کہ مرشد کامل دھوبی کی طرح ہونا چاہئے جس طرح دھوبی کپڑوں میں میل نہیں چھوڑتا اور میلے کپڑوں کوصاف کر دیتا ہے اسی طرح مرشد کامل اکمل طالب کو اور درود وظائف، چلہ کشی اور ریاضت کی مشقت میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اسمِ ذات کی راہ دکھا کر اور نگاہِ کامل سے تزکیۂ نفس کرکے اس کے اندر سے قلبی اور روحانی امراض کا خاتمہ کرتا ہے اور اِسے خواہشات دنیا اور نفس سے نجات دلا کر غیر اللہ کی محبت دل سے نکال کر صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں غرق کردیتا ہے ۔ ایسا مرشد تو طالب کے لوں لوں میں بستا ہے۔
مادیت پر ستی کے اس دور میں ہم اپنے خداپاک کا جتنا بھی شکر بجا لائیں وہ کم ہے کہ اس نے ہما ری رہنمائی آج کے دور کے طبیب اعظم (مرشدکامل اکمل جامع نورالہدیٰ) کی بارگاہ تک کر دی ہے اور ہمیں اُ س طبیبِ اعظم کے در کا غلام اور اس کے حقیقی مطب کا مریض بنا دیاہے اور وہ طبیبِ اعظم میرے مرشدِ کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذاتِ مبارکہ ہے۔آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ فقر سے طالبانِ مولیٰ کو ذکر و تصورِ اسمِ اللہ ذات‘‘ کی راہ دکھاکر روحانی اور جسمانی تمام بیماریوں سے نجات دلارہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا طریقہ علاج اور نظامِ تربیت وہی ہے جو حضرت سلطان باھوؒ نے بیان کیا ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس طالب کو بیعت کے پہلے ہی روز اسمِ اللہ ذات عطا کر کے اپنی نگاہِ کیمیا سے دل کو تمام روحانی اور نفسانی بیماریوں سے پاک کر کے پہلے باطنی اور پھر ظاہری طور پر حقیقتِ حق سے روشنا س کرواتے ہیں اور طالب کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضور ی میں پہنچا دیتے ہیں اور جب انسان مجلسِ محمد ی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پہنچ جاتا ہے تووہ ہرطرح کے مرض سے آزاد ہو جاتا ہے اور اس کی ہر خواہش دم توڑ جاتی ہے۔ پھر اس کے دل میں دیدارِ حق تعا لیٰ اور دیدارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تڑپ جنم لیتی ہے اور اس کے وجود میں سکون و اطمینان ہوتا ہے۔
سلطان العا شقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا بھی فرمان ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرۂ انور کی زیارت سے ہی طالب کے ہر دکھ درد کا مداوا ہوتا ہے۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہم سب کو ہمیشہ درِ نجیب کا غلام اورگد ابنا کہ رکھے اور ہماری موت بھی اسی طبیبِ کامل کے مطب میں ہی ہو (آمین)
ــــــــــــــــــــــــــــ
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.