پاﺅں دھوئیں ٹینشن سے نجات پائیں
عید کی خریداری کا موقع ہو یا شادی بیاہ کی تیاریاں ہو رہی ہوں۔ بازاروں میں پسند کی چیزیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے‘ دکانداروں سے مول بھاﺅ کرتے کرتے جب ہم گھر واپس آتے ہیں تو تھک کر نڈھال ہو جاتے ہیں۔ کبھی سردرد کی شکایت ہوتی ہے اور کبھی شدید اضمحلال طاری ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال سے نجات کیلئے ہم سوائے اسپرین کی گولیاں نگلنے کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں لیکن چین میں ایسا نہیں ہوتا‘ وہاں کے لوگ خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ‘جب زندگی کے ہنگاموں اور بھاگ دوڑ سے بہت زیادہ تھک جاتے ہیں اور سکون کے متلاشی ہوتی ہیں تو وہ ” پاﺅں دھونے والوں“ کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ چین میں ذہنی یا جسمانی دباﺅ سے نجات کا یہ تیر بہدف علاج سمجھا جاتا ہے۔
اگر آپ کبھی چین جائیں اور وہاں کی مصروفیات سے اسٹریس محسوس کرنے لگیں تو ” فٹ واش کی کوئی دکان یا پارلر تلاش کریں۔ یہاں پاﺅں دھونے والا نوجوان آپ کے پاﺅں کو ہاتھوںمیں لے کر ہولے ہولے مساج کرے گا۔ گاہے بگاہے چھوٹی بادامی آنکھوں سے آپ کی طرف دیکھتے ہوئے آپ سے یہ بھی پوچھے گا کہ ” میری مالش سے آپ آرام محسوس کر رہے ہیں؟ زیادہ بھاری تو نہیں لگ رہا؟ بہت ہلکا تو نہیں ہے؟ “ پاﺅں دھونے کے بعد جب وہ اس پر مساج کے ساتھ مرہم ملتے ہوئے ہلکے ہاتھوں سے پاﺅں کو تھپتھپائے گا تو آپ کو ایسا لگے گا جیسے آپ ہر قسم کی ٹینشن سے نجات پا چکے ہیں۔ مساج کے دوران پاﺅں کے ایک حصے کو دبا کر وہ آپ کو یہ بھی بتا سکتا ہے کہ یہ پیٹ ہے اور ایڑی کی طرف دباﺅ ڈال کر اسے گردے کی جگہ قرار دے گا۔ غرضیکہ جسم کے تمام حصوں میں درد اور بے آرامی کا مداوا پاﺅں کی اس مالش میں پنہاں ہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے اس پر کیف تجربے سے آپ کے جسم کو اتنی راحت محسوس ہو گی کہ شاید وہاں سے اٹھنا بھی نہ چاہیں۔
پاﺅں دھونے کا یہ فن چین میں ایک انتہائی مقبول تفریحی سرگرمی سمجھی جاتی ہے ۔ دوسرے لوگوں کے پاﺅں دھو کر اور مساج کر کے روزی کمانے والے فٹ پاتھوں پر بھی مل جائیں گے اور فائیو اسٹار لگژری ہوٹلوں کے پارلرز میں بھی وہ دستیاب ہوتے ہیں لیکن چارجز میں اسی طرح کا فرق ہوتا ہے جس طرح ہمارے ہاں کے فٹ پاتھ پر بیٹھے حجاموں اور ایئر کنڈیشنڈ سیلو ن کے خوش پوش‘ مہذب ہیئر ڈریسرز کے معاوضے میں ہوتا ہے۔ ہوٹلوں میں ” فٹ واشنگ“ کے مخصوص کمرے ہوتے ہیں ۔ چینی خاتون لکڑی کے ایک تسلے میں گرم پانی لے کر آتی ہیں۔ جس میں خوشبو دار جڑی بوٹیاں بھی پڑی ہوتی ہیں اور کمرہ اس کی خوشبو سے معطر ہو رہا ہوتا ہے۔ پہلے وہ پاﺅں کو تسلے میں بھگوتی ہیں‘ اسے آہستہ آہستہ رگڑکر صاف کرتی ہیں‘ مختلف زاوئیے سے ہاتھوں میں لے کر دباتی ہیں اور اتنی یکسانیت کے ساتھ تھپتھپاتی اور سہلاتی ہیں کہ پاﺅں دھلوانے والے کو نیند آنے لگتی ہے۔ اس کمرے میں آنے والے مہمانوں کی جڑی بوٹیوں والی چائے سے تواضع بھی کی جاتی ہے۔
آج آپ کو جین کے ہر شہر میں XI‘YUکے اشتہارات والے نیون سائز نظر آئیں گے جو ” پاﺅں کی دھلائی“ کے چینی متبادل الفاظ ہیں۔ یہ نیون سائن اوربورڈز بوسیدہ تہہ خانوں کی کوٹھڑیوں اور کھوکھوں کے علاوہ پرائیویٹ میڈیکل کلینک کے اوپر بھی جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ فٹ واشنگ کیلئے سینما گھروں کی طرح وسیع ہال بھی موجود ہیں جہاں آپ پاﺅں پر مساج کے ساتھ آرام کرسی پر بیٹھ کر تازہ ترین فلم سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ پر تکلف جگہوں پر ڈیڑھ گھنٹے پاﺅں کی مالش اور دھلائی کیلئے پانچ سے دس پاﺅنڈ تک معاوضہ وصول کیا جاتا ہے اور سستی جگہوں پر ایک سے دو پاﺅنڈ میں کام ہو جاتا ہے ۔
چین میںپاﺅں دھو کر گز ربسر کرنیوالوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو دور دراز کے پسماندہ دیہی علاقوں سے ہجرت کر کے شہروں میں اس امید کیساتھ آئے ہیں کہ یہاں اپنا معیار زندگی بلند کرینگے یا جن لوگوں کو اپنے پیچھے گھر چھوڑ کر آئے ہیں ان کیلئے پیٹ بھر نے کا سامان مہیا کرسکیں گے۔
عید کی خریداری کا موقع ہو یا شادی بیاہ کی تیاریاں ہو رہی ہوں۔ بازاروں میں پسند کی چیزیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے‘ دکانداروں سے مول بھاﺅ کرتے کرتے جب ہم گھر واپس آتے ہیں تو تھک کر نڈھال ہو جاتے ہیں۔ کبھی سردرد کی شکایت ہوتی ہے اور کبھی شدید اضمحلال طاری ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال سے نجات کیلئے ہم سوائے اسپرین کی گولیاں نگلنے کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں لیکن چین میں ایسا نہیں ہوتا‘ وہاں کے لوگ خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ‘جب زندگی کے ہنگاموں اور بھاگ دوڑ سے بہت زیادہ تھک جاتے ہیں اور سکون کے متلاشی ہوتی ہیں تو وہ ” پاﺅں دھونے والوں“ کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ چین میں ذہنی یا جسمانی دباﺅ سے نجات کا یہ تیر بہدف علاج سمجھا جاتا ہے۔
اگر آپ کبھی چین جائیں اور وہاں کی مصروفیات سے اسٹریس محسوس کرنے لگیں تو ” فٹ واش کی کوئی دکان یا پارلر تلاش کریں۔ یہاں پاﺅں دھونے والا نوجوان آپ کے پاﺅں کو ہاتھوںمیں لے کر ہولے ہولے مساج کرے گا۔ گاہے بگاہے چھوٹی بادامی آنکھوں سے آپ کی طرف دیکھتے ہوئے آپ سے یہ بھی پوچھے گا کہ ” میری مالش سے آپ آرام محسوس کر رہے ہیں؟ زیادہ بھاری تو نہیں لگ رہا؟ بہت ہلکا تو نہیں ہے؟ “ پاﺅں دھونے کے بعد جب وہ اس پر مساج کے ساتھ مرہم ملتے ہوئے ہلکے ہاتھوں سے پاﺅں کو تھپتھپائے گا تو آپ کو ایسا لگے گا جیسے آپ ہر قسم کی ٹینشن سے نجات پا چکے ہیں۔ مساج کے دوران پاﺅں کے ایک حصے کو دبا کر وہ آپ کو یہ بھی بتا سکتا ہے کہ یہ پیٹ ہے اور ایڑی کی طرف دباﺅ ڈال کر اسے گردے کی جگہ قرار دے گا۔ غرضیکہ جسم کے تمام حصوں میں درد اور بے آرامی کا مداوا پاﺅں کی اس مالش میں پنہاں ہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے اس پر کیف تجربے سے آپ کے جسم کو اتنی راحت محسوس ہو گی کہ شاید وہاں سے اٹھنا بھی نہ چاہیں۔
پاﺅں دھونے کا یہ فن چین میں ایک انتہائی مقبول تفریحی سرگرمی سمجھی جاتی ہے ۔ دوسرے لوگوں کے پاﺅں دھو کر اور مساج کر کے روزی کمانے والے فٹ پاتھوں پر بھی مل جائیں گے اور فائیو اسٹار لگژری ہوٹلوں کے پارلرز میں بھی وہ دستیاب ہوتے ہیں لیکن چارجز میں اسی طرح کا فرق ہوتا ہے جس طرح ہمارے ہاں کے فٹ پاتھ پر بیٹھے حجاموں اور ایئر کنڈیشنڈ سیلو ن کے خوش پوش‘ مہذب ہیئر ڈریسرز کے معاوضے میں ہوتا ہے۔ ہوٹلوں میں ” فٹ واشنگ“ کے مخصوص کمرے ہوتے ہیں ۔ چینی خاتون لکڑی کے ایک تسلے میں گرم پانی لے کر آتی ہیں۔ جس میں خوشبو دار جڑی بوٹیاں بھی پڑی ہوتی ہیں اور کمرہ اس کی خوشبو سے معطر ہو رہا ہوتا ہے۔ پہلے وہ پاﺅں کو تسلے میں بھگوتی ہیں‘ اسے آہستہ آہستہ رگڑکر صاف کرتی ہیں‘ مختلف زاوئیے سے ہاتھوں میں لے کر دباتی ہیں اور اتنی یکسانیت کے ساتھ تھپتھپاتی اور سہلاتی ہیں کہ پاﺅں دھلوانے والے کو نیند آنے لگتی ہے۔ اس کمرے میں آنے والے مہمانوں کی جڑی بوٹیوں والی چائے سے تواضع بھی کی جاتی ہے۔
آج آپ کو جین کے ہر شہر میں XI‘YUکے اشتہارات والے نیون سائز نظر آئیں گے جو ” پاﺅں کی دھلائی“ کے چینی متبادل الفاظ ہیں۔ یہ نیون سائن اوربورڈز بوسیدہ تہہ خانوں کی کوٹھڑیوں اور کھوکھوں کے علاوہ پرائیویٹ میڈیکل کلینک کے اوپر بھی جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ فٹ واشنگ کیلئے سینما گھروں کی طرح وسیع ہال بھی موجود ہیں جہاں آپ پاﺅں پر مساج کے ساتھ آرام کرسی پر بیٹھ کر تازہ ترین فلم سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ پر تکلف جگہوں پر ڈیڑھ گھنٹے پاﺅں کی مالش اور دھلائی کیلئے پانچ سے دس پاﺅنڈ تک معاوضہ وصول کیا جاتا ہے اور سستی جگہوں پر ایک سے دو پاﺅنڈ میں کام ہو جاتا ہے ۔
چین میںپاﺅں دھو کر گز ربسر کرنیوالوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو دور دراز کے پسماندہ دیہی علاقوں سے ہجرت کر کے شہروں میں اس امید کیساتھ آئے ہیں کہ یہاں اپنا معیار زندگی بلند کرینگے یا جن لوگوں کو اپنے پیچھے گھر چھوڑ کر آئے ہیں ان کیلئے پیٹ بھر نے کا سامان مہیا کرسکیں گے۔
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.