گرمے انتہائ شیریں اور خوشبودار ہوتے ہیں۔ ان کی خوشبو اور مہک ایسی دلربا ہوتی ہے کہ انگریزی میں ان کو
گرما،CANTALOUPE،MUSK MELON
گرما خربوزے کی نسل کا ایک مشہور پھل ہے جس کی پیداوار کے لیے منطقۂ حارہ کے علاقے اور اُن کی گرمی نہایت مناسب ہیں۔خربوزہ سردے کی طرح ایک بیل نما پودے پر لگتا ہے جو اکثر کسی چھوٹے درخت کا روپ بھی اختیار کرلیتی ہے۔سردا اور گرما اپنی بیل کے ساتھ (یا اپنی شاخوں کے ساتھ) نہایت مضبوطی کے ساتھ لگے ہوتے ہیں اور موسم کی گرمی جتنا بڑھتی ہے اُتنا ہی یہ پھل پک کر میٹھا، شیریں اور ایک منفرد مَہک کا حامل ہوجاتا ہے جس کی خوشبو سے جنگل یا باغ مہکتا ہے۔عام طور سے خربوزے ،گرمے یا سردوں کے باغات لگائے جاتے ہیں جہاں بڑے پیمانے پر ان کی کاشت کی جاتی ہے۔گرمے کا چھلکا ہموار اور کسی حد تک سیاہ کھردی لکیروں پر مشتمل ہوتا ہے۔یہ سیاہ لکیریں گرمے کے چھلکے پر عمودی طور پر نمایاں ہوتی ہیں۔گرمے کا گودا بھی خربوزے کی طرح سفیدی مائل گلابی ہوتا ہے جس کے بیج خربوزے کے بیجوں کی طرح سے ایک خاص گودے میں ہوتے ہیں۔خربوزے اور گرمے کے بیج بھی دھوکر خشک کیے جاتے ہیں ۔اکثر یہ بیج حکیموں کی دوائیوں کا لازمی جُز بن جاتے ہیں یا پھر شِغل کے طور پر کُٹکے جاتے ہیں۔ گرما موسمِ گرما کے خاص پھلوں میں سے ہے جس کا ذائقہ تو میٹھا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اسے مزید میٹھا کرنے کے
لئے اس پر شکر بھی چھڑکی جاتی ہے اور ایک نیبو بھی نچوڑا جاتا ہے۔گرمے کا گودا سردے کے گودے کے مقابلے میں نسبتاً نرم اور بُھربُھرا ہوتا ہے۔جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ گرمے کا چھلکا بھی خربوزے کے چھلکے کی طرح ہوتا ہے لیکن اس پر چند سیاہ دھاریاں نمایاں ہوتی ہیں۔کہتے ہیں کہ یہ سیاہ دھاریاں پھل کے پکنے اور اُس کے خوش ذائقہ ہونے کی علامت ہیں۔اس پھل کی خاصیت یہ ہے کہ اس کی سال میں دو فصلیں ہوتی ہیں۔ گرمیوں کے پھل و گرما اور سردیوں کے پھل کو سردا کہا جاتا ہے۔
خالق حقیقی نے اپنی مخلوق کے لیے رنگا رنگ پھل پیدا فرمائے ہیں۔ زمین کو یہ خاصیت عطا فرمائی کہ نچلی سطح سے پانی جذب کرکے کئی کئی سیر وزنی گرمے نازک نازک بیلوں کے ساتھ پیدا کرے۔ خشک پہاڑوں اور ریگستانی زمین کے اس حیرت انگیز اور خوش ذائقہ پھل کو ہمارے دستر خوان کی رونق بنایا جس کا کوئی حصہ بھی ضائع نہیں جاتا۔ گودا، بیج اور چھلکا سب غذائی اور شفائی اثرات کا خزانہ ہیں۔ اس کا مزاج گرم اور تر ہے جب کہ غذائیت وافر مقدار میں رکھی گئی ہے۔ گرما میں پچاسی فیصد تک پانی اور باقی گوشت بنانے والے روغنی نشاستہ دار اجزا کے علاوہ پوٹاشیم، کیلسیم، فولاد، فاسفورس، گلوکوز اور وٹامنز اے، بی، سی اور ڈی شامل ہیں۔ تندرست معدہ اسے تین گھنٹے میں ہضم کرلیتا ہے۔ گرما ایک قدرتی قبض کشا اور کثرت سے پیشاب جاری کرنے والا پھل ہے۔ یہ دل، دماغ، معدہ اوراعصاب کو طاقت دیتا ہے، ہاضمے کی نالی کی جلن دور کرتا ہے، جگر مثانہ اور گردوں کے زہریلے فضلات، بکثرت پیشاب جاری کرکے بدن سے خارج کردیتا ہے
ب گردوں اور مثانے میں پتھری پیدا ہونے لگے یا جوڑوں میں یورک ایسڈ کی قلمیں جمنے سے درد اور ورم ہوکر سختی آجائے تو اس کے استعمال سے پتھری کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور یورک ایسڈ نکل جاتا ہے اور جوڑوں کی لچک بحال ہوجاتی ہے۔ پیٹ بھر کر گرما کھالینے سے چار پانچ گھنٹے تک بھوک نہیں لگتی۔ گرم مزاج اور دبلے پتلے جسم والوں میں اس کی وافر رطوبت سے خشکی دور اور بدن موٹا تازہ ہوجاتا ہے۔ آدھ سیر گرمے میں درمیانی دو چپاتیوں کے برابر غذائیت اور تین پاؤ دودھ کے برابر کیلسیم ہوتا ہے، جن اشخاص کو پیشاب کم اور جل کر آتا ہو انھیں گرما شوق سے کھانا چاہیے۔ جن مریضوں کے جگر پر ورم ہو، پیٹ بڑا ہوجائے اور پیشاب کھل کر نہ آئے،کمر میں گردہ کے مقام پر ایک طرف یا دونوں طرف درد رہتا ہو، ایسے مرض میں گرما انتہائی فائدہ مند ہے
گرما اور سردا کے
بارے میں ایک سردار جی کا لطیفہ بڑا مشہورہے
ایک سردار جی اور سردارنی انگلستان گئے، کچھ دنوں کے بعد سردارنی نے سردار جی سے کہا
سردارجی گرما کھانے کو بہت جی چاہ رہا ہے،،جائیں اور بازار سے ایک بڑا سا گرما لیکر آئیں
سردار جی کہنے لگے
ابھی لو سوہنیو،،،،، میں یُوں گیا اور وُوں آیا
جب فروٹ والے کی دکان پر پہنچے تو انہیں یاد آیا کہ انہیں تو گرما کی انگلش ہی نہیں معلوم،،،، چناچہ بڑی دیر تک سوچنے کے بعد دکان دار سے کہا کہ انہیں ایک عدد
Hota
فراہم کیا جائے
دکاندار حیران پریشان کہ یہ
Hota
کیا بلا ہے؟،،، بہر حال ڈکشنری کھول کر بیٹھ گیا،،،، اتنے میں ایک اور سردار جی وہاں آگئے اور سردار جی سے حال پوچھا،،،
سردار جی نے اپنی مشکل بیان کی تو وہ سردار ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہنے لگے،،، بھائیا جی تم گھر جاؤ اور آرام کرو، انکو کوئی نہیں ملنHota،
کیونکہ میں ایک سال سے
Colda
مانگا ہوا ہے ابھی تک وہ بھی نہیں ملا۔
شہنشاہ بابر نے جب ہندوستان میں مغل سلطنت کی داغ بیل ڈالی تب وہ یہاں کے موسم اور بے ذائقہ پھلوں سے بڑا بیزار رہتا تھا۔ بلکہ تاریخ میں درج ہے کہ ایک مرتبہ جب بابر کی خدمت میں کابل سے لائے گئے گرمے پیش کئے گئے تو بابر انہیں کھاتے ہوئے وطن کی یاد میں آبدیدہ ہوگیا تھا وہ اکثر کابل کے گرموں کو یاد کرتا تھا۔
پاکستان میں سردا اور گرما زیادہ تر بلوچستان اور شمالی علاقہ جات میں کاشت کیا جاتا ہے۔ سندھ ار پنجاب کے دیسی خربوزوں کے مقابلے یہ انتہائ شیریں اور خوشبودار ہوتے ہیں۔
اگر سچ پوچھئے تو گرمیوں کو خوشگوار بنانے والے یہ مہکتے میٹھے پھل ہی ہیں جو اپنی تاثیر سے جسم کو ٹھنڈا اور اپنی بھرپور غذائیت سے جسم کو توانائ و پرورش فراہم کرتے ہیں۔
یورپ اور امریکہ میں اکثر گرما کرما کاٹ کر اس کے پیالے میں آئسکریم ڈالکر پھل کے گودے سمیت کھائ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ان میں کوٹی ہوئ برف اور شربت روح افزا ڈال کر چمچے سے کھایا جاتا ہے ۔ ان کا اسکواش بھی ملتا ہے۔ بلکہ آجکل تو باڈی فریشنر، صابن، باتھ جیل اور فیس اسکرب تک گرمے کی خوشبو والے دستیاب ہیں
دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دوعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
جڑی بوٹیاں، ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں
Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70
Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.