نئی تحقیق کے مطابق موٹےلوگوں کی موت کےامکانات عام لوگوں سے کم ہیں۔ اس دریافت کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ کے وفاقی ادارہ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی ) نے کہا ہے درمیانے درجے کے موٹے لوگ عام لوگوں کی نسبت موت کا کم شکار ہوتے ہیں۔
ادارے کے نئے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں موٹاپے سے صرف 25 ہزار 8 سو چودہ اموات واقع ہوئی ہیں۔ ابھی جنوری میں ہی اس ادارے نےچودہ گنا بڑے اعداد دیتے ہوئے کہا تھا کہ موٹاپا تین لاکھ پینسٹھ ہزار اموات کا باعث بنا ہے۔ قبل ازیں سی ڈی سی کی درجہ بندی میں موٹاپا موت کے اسباب میں دوسرے نمبر پر تھا لیکن اب اس کا کہنا ہے کہ موٹاپا موت کے اسباب میں ساتویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک پاکستانی ماہر ڈاکٹر خالد عبداللہ نے کہا کہ عام مشاہدہ ہے کہ امریکی دنیا میں سب سے زیادہ موٹے ہیں اور اگر ان میں موٹاپا موت کے اسباب میں بہت نیچے ہے تو باقی دنیا میں تو موٹاپا اور بھی معمولی عنصر سمجھا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود کھانے میں ذمہ داری اور احتیاط سے کام لیا جانا چاہیے اور ورزشیں بھی کی جانی چاہیں۔
سی ڈی سی کی تحقیق میں ابہام کو دور کرنے کے لیے یہ ضرور کہا گیا ہے کہ بہت زیادہ موٹاپا یا اوبیسٹی تو خطرناک قاتل ہے ہی اور اس سے مرنے والوں کی تعداد کافی ہے۔ اس کے الٹ چھوٹی چھوٹی تحقیقی رپورٹوں اور تجزیوں سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ لوگ جو درمیانی حد تک موٹے ہیں ان کے مرنے کے امکانات ان لوگوں سے کم ہیں جو کہ بالکل موٹے نہیں ہیں۔
پچھلے سال سی ڈی سی کی درجہ بندی میں موت کے اسباب ترتیب وار یوں تھے: تمباکو نوشی، موٹاپا، شراب نوشی، جراثیم، آلودگی، کاروں کے حادثات، اسلحہ، غیر ذمہ دارانہ جنسی طرز عمل اور منشیات کا استعمال۔ نئی تحقیق کے لحاظ سے موٹاپے کا نمبر کاروں کے حادثے کے بعد آئے گا۔
ڈاکٹر جو این مینسن کا کہنا ہے کہ نئے اعداد و شمار درست معلوم ہوتے ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ علاج معالجوں سے میانے درجے کے موٹے لوگوں کی صحت بہتر ہو گئی ہے۔ اب اس زمرے میں آنے والے لوگ اپنے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کافی حد تک کنٹرول میں رکھتے ہیں جس سے ان کے زندہ رہنے کے امکانات بہتر ہو گئے ہیں۔
اسی نوعیت کا ایک تجزیہ جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں چھپا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں موٹے لوگ اپنی صحت کا بہتر خیال کرتے ہیں۔ وہ بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو توازن میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سی ڈی سی کی تجزیاتی رپورٹ لکھنے والی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ نئی تحقیق کی موجودگی میں اب یہ طے کرنا پڑے گا کہ موٹا کس کو کہا جائے۔
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.